Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Tausif Ahmad Khan
  3. Balochistan Mein Naya Bohran

Balochistan Mein Naya Bohran

بلوچستان میں نیا بحران

بلوچستان کا مکران ڈویژن کئی لحاظ سے منفرد ہے، اس میں سرداری نظام نہیں ہے، زیادہ لوگوں کا تعلق نچلے طبقہ سے ہے مگر متوسط طبقہ بھی موجود ہے، امراء کا طبقہ محدود ہے۔

مکران محل وقوع کے اعتبار سے اہم ہے۔ مکران ڈویژن کا شہر گوادر، جیوانی اور پسنی بحرئہ عرب کے دبانے پر واقع ہیں، یوں مکران ڈیژن کے ہزاروں لوگ اومان، بحرین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں روزگار کے سلسلہ میں مقیم ہیں اور یہ سلسلہ صدیوں سے چل رہا ہے۔ مکران ڈویژن کی سرحدیں ایران سے ملتی ہیں۔

ایران کی بندرگاہ چاہ بہار 313.6 کلومیٹر دور ہے۔ بلوچستان اور ایران کی سرحد 909کلومیٹر طویل ہے۔ بلوچستان کے چاغی، کیچ، پنجگور اور گوادر کے اضلاع ایران سے متصل ہیں۔ مکران ڈویژن میں تربت، دشت، پنجگور، گوادر اور کیچ کے شہر ہیں، پورے ڈویژن کی آبادی 15 لاکھ کے قریب ہے۔ یہ علاقہ پانی کی شدید کمی کا شکار ہے اور میدانی علاقہ بہت کم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ زراعت سے متعلق افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ تربت اور اطراف کے علاقوں میں شدید گرمی پڑتی ہے، اس شدید گرم موسم کی بناء پر کھجور کی فصل اچھی ہوتی ہے مگر کھجور کے باغات بہت کم ہیں۔ چین کی مدد سے تعمیر ہونے والے اقتصادی منصوبے سی پیک کی بناء پر گوادر جدید سڑک کے ذریعہ اسلام آباد سے منسلک ہوا، مگر اس منصوبہ سے قبل کوئٹہ اور کراچی سے سفر ایک دردناک کہانی بن جاتا تھا۔ مواصلاتی نظام اور جدید سہولتوں نہ ہونے کے بناء پر کھجور اور مچھلی جدید مارکیٹ سے منسلک نہیں تھی۔

بلوچستان کی بیشتر آبادی کا انحصار ایران سے تعلقات پر ہے۔ ایران سے مختلف نوعیت کا سامان اور تیل بلوچستان آتا ہے۔ ایران مکران ڈویژن کو 100 کلو واٹ بجلی بھی فراہم کرتا ہے کیونکہ یہ علاقہ نیشنل گرڈ سے منسلک نہیں ہے۔ سو کلو واٹ بجلی مکران ڈویژن کی ضرورتوں کے لیے ناکافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مکران ڈویژن میں ہر موسم میں بجلی چند گھنٹوں کے لیے دستیاب ہوتی ہے۔ ایران مکران ڈویژن کی بجلی کی سہولتوں کو پورا کرنے کے لیے اضافہ بجلی فراہم کرنے کو تیار ہے مگر مجاز حکام ایران کی پیشکش کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ مکران ڈویژن کے سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ علاقہ زیادہ پسماندہ ہے۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے 22 لاکھ افراد ایرانی تیل کے روزگار سے متعلق ہیں۔ تیل کی رسد بند ہونے سے ٹینکروں، بسوں اور ٹرالرز کی حرکت پذیری رک گئی ہے۔

ایرانی ڈیزل کی ترسیل پر بندش کے خلاف بلوچستان میں ٹینکروں اور ٹرالرز کی انجمن نے پہیہ جام ہڑتال کا فیصلہ کیا، یوں چار دن بلوچستان کی بیشتر ہائی ویز پر ٹریفک معطل ہوئی۔ صوبائی حکام نے کچھ کوشش کی، یوں ہڑتال عارضی طور پر معطل ہوئی۔ سینیٹر اکرم دشتی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں تیل کی فراہمی کے متبادل انتظامات کیے بغیر یہ پابندی بلوچستان کی معیشت کو تباہ کردے گی۔ بلوچستان رقبہ کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے مگر گزشتہ 72برسوں سے بلوچستان مسلسل پسماندگی کا شکار ہے جس کی بناء پر غربت کی شرح بڑھ رہی ہے اور ناخواندہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

1970کے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ 1972 میں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ سے معاہدہ کیا، یوں نیپ اور جمعیت علماء اسلام نے بلوچستان اور سرحد میں مشترکہ حکومتیں بنائیں۔ سرحد میں مفتی محمود وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ بلوچستان میں بھٹو نے میر غوث بخش بزنجو کو گورنر مقرر کیا اور نیپ کے سردار عطاء اﷲ مینگل وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ یہ بلوچستان کی پہلی منتخب حکومت تھی مگر بھٹو حکومت نے 9 ماہ بعد نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کی اور سردار عطاء اﷲ مینگل کی حکومت کو برطرف کردیا گیا۔ نیپ کے رہنماؤں کو حیدرآباد سازش کیس میں گرفتار ہوگئے اور بلوچستان میں آپریشن شروع ہوا۔

جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آکر آپریشن کے خاتمہ کا اعلان کیا اور حیدرآباد سازش کیس ختم کردیا گیا مگر جنرل ضیاء الحق کے دور میں بلوچستان کی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے۔ بلوچستان میں نیا بحران نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت کے بعد ہوا۔ اکبر بگٹی پاکستان کے حامی سردار تھے۔ ان کی موت کا بلوچ اور دیگر انتہاپسند قوتوں نے اٹھایا، یوں صوبہ میں دہشت گردی، اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بڑھ گئیں۔

2013 میں نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ بنے۔ انھوں نے امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا۔ نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو اور ڈاکٹر عبدالمالک نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے بلوچ رہنماؤں کی وطن واپسی کے لیے مذاکرات کیے۔ ڈاکٹر مالک کی حکومت نے تعلیم اور صحت کے کئی نئے منصوبے شروع کیے مگر اقتدار کے ڈھائی سال مکمل ہونے پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو باہمی معاہدے کے مطابق ثنااﷲ زہری کے حق میں دستبردار ہونا پڑا۔ یوں وہ وزارت اعلیٰ سے الگ ہوگئے۔

2018کے بعد جام کمال کی حکومت قائم ہوئی۔ جام کمال کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان کے دادا اور والد برسوں وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز رہے مگر بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔

Check Also

Itna Na Apne Jaame Se Bahir Nikal Ke Chal

By Prof. Riffat Mazhar