امریکی انتخابات سے سبق
امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیلی کاپٹر میں سوار ہوئے اور وائٹ ہاؤس سے چلے گئے۔ امریکا کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں 20 جنوری کو ایک سیاہ واقعے کا اضافہ ہوا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے نومنتخب صدر جو بائیڈن کی تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کی۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر جمہوری کردار، انتخابی نتائج کو تسلیم نہ کرنے، اپنے حامیوں سے مظاہرے کرانے اور کیپیٹل ہل پر حملہ کرانے کے باوجود امریکی آئین کے تحت اقتدارکی منتقلی کا عمل مکمل ہوا۔ ریاست کے تمام اداروں نے آئین کی پاسداری کی، یوں امریکا کا جمہوری نظام ایک سنگین بحران سے بچ گیا۔
نومنتخب صدر بائیڈن نے اپنی تقریر میں بھی سابقہ صدر کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کی۔ انھوں نے اپنی تقریرمیں واضح کیا کہ امریکا داخلی پسندی کی پالیسی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ انھوں نے واضح کیا کہ آئین کا دفاع، سیاسی انتہاپسندی، سفید فام بالادستی کا خاتمہ، آزادی اور انصاف سب کے لیے ہوگا۔ بائیڈن نے کہا کہ امریکا کے انتخابات میں جمہوریت کی فتح ہوئی ہے۔ امریکا میں اقتدارکی منتقلی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر اور ایک افریقی بھارتی نژاد خاتون کے نائب صدر منتخب ہونے کے بعد بین الاقوامی صورتحال اور خاص طور پر خطہ کی صورتحال کے بارے میں نئے امکانات پیدا ہوگئے۔
جب سابق صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم شروع کی تو کچھ دنوں بعد انھیں محسوس ہونے لگا کہ رائے عامہ ان کے حق میں نہیں ہے۔ انھوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اگر انتخابی نتائج ان کے خلاف آئے تو وہ انھیں قبول نہیں کریں گے۔ ٹرمپ نے انتخابات کے بعد دھاندلیوں کے الزامات لگانے شروع کیے مگر ٹرمپ کے پاس ان الزامات کے کوئی شواہد نہیں تھے۔ امریکی ریاست کے کسی ادارہ یا ایجنسی نے ٹرمپ کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ سب سے پہلے امریکا کی فوج کے سربراہ نے اعلان کیا کہ امریکی فوج انتخابات میں کسی فریق کی حمایت نہیں کرے گی۔
امریکا کی اندرونی سیکیورٹی کی ذمے دار ایف بی آئی اور دنیا بھر میں کارروائیوں کی ذمے دار سی آئی اے کے سربراہوں نے آئین کی مکمل پاسداری کی۔ جب سوئنگ ریاستوں فلوریڈا، جیورجیا، ٹیکساس، وزکونسن، ایریزونا اور پنزلوینیا میں انتخابی نتائج سامنے آنے لگے، ان ریاستوں کے بارے میں روایتی طور پر یہ یقین سے کہا جاتا تھا کہ یہ ریاستیں ریپبلکن پارٹی کا روایتی گڑھ ہیں۔ انتخابی نتائج واضح ہونے لگے تو سابق صدر ٹرمپ نے ان نتائج کو مسترد کیا اور متعلقہ ریاستوں کے سپریم کورٹ میں گنتی رکوانے اور نتائج کو منسوخ کرنے کی درخواستیں دائر کیں۔
حیرت کی بات تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے وکلاء نے یہ سب عرض داشتیں دھاندلی کے شواہد کے بغیر دائرکیں۔ ٹرمپ کے وکلاء نے ان عرض داشتوں میں عجیب وغریب قسم کے دلائل دیے۔ یہ دلائل ماضی میں ہونے والے انتخابات کے نتائج اور بعض اوپینیئن پول کے سروے پر مشتمل تھے مگر تمام ریاستوں کی سپریم کورٹس نے کہیں بھی گنتی روکنے کے لیے حکم امتناعی جاری نہیں کیا۔ ٹرمپ کے وکلاء دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں مسلسل قانونی جنگ لڑتے رہے مگرکسی عدالت نے ان کے دباؤکو قبول نہیں کیا۔ عدالتوں کے جمہوریت پسند رویہ کی بناء پر نتائج اپنے شیڈول کے مطابق آگئے۔
ایک صحافی کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ دھاندلی کے الزامات لگاتے تھے۔ تمام قسم کے ذرایع ابلاغ نے ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی دھاندلیوں سے متعلق بیانات کو شایع اورنشرکیا مگر تمام نیوز ایجنسیوں، اخبارات، الیکٹرونک میڈیا نے ان بیانات کے ساتھ یہ عبارت تحریر کی کہ ٹرمپ کے پاس انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کے ثبوت نہیں ہیں۔ اسی طرح امریکا کے سیاست دانوں اور سابق صدورکا بھی جمہوریت کے استحکام کے لیے رویہ واضح طور پر سامنے آیا۔
ٹرمپ نے بائیڈن کی حلف برداری کی تقریب کا بائیکاٹ کیا مگر ان کے رخصت ہونے والے نائب صدر نے ٹرمپ کے بائیکاٹ کی پیروی نہیں کی، وہ اس حلف برداری میں شریک ہوئے۔ ان انتخابات میں ایک اہم ترین بات یہ بھی آشکار ہوئی کہ ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کے منتخب صدر تھے اور دوسری مدت کے انتخابات کے لیے انھیں ریپبلکن پارٹی نے صدارتی انتخاب کے لیے منتخب کیا تھا مگر ریپبلکن پارٹی نے ٹرمپ کے انتخابی دھاندلیوں کے مؤقف کو تسلیم نہیں کیا۔
ریپبلکن پارٹی کے رہنماؤں نے واضح کیا کہ انتخابات میں دھاندلی کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ تمام سابق صدورنے جن میں ریپبلکن پارٹی کے صدور بھی شامل تھے حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی۔ سابق صدر جارج بش ریپبلکن پارٹی کے روایتی رکن ہیں، ان کے والد جارج بش سینئر کا تعلق بھی ریپبلکن پارٹی سے تھا۔ جارج بش اب خاصے بوڑھے ہوچکے ہیں مگر وہ کووڈ 19 کے خوف کے باوجود تقریب میں شریک ہوئے۔ ان کے علاوہ سابق صدرکلنٹن بھی تقریب میں موجود تھے۔
جب ٹرمپ نے کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے والے افراد کی حمایت میں Twitter کے ذریعہ بیان جاری کیا تو Twitterکا ان کا اکاؤنٹ فوری طور پر بند کردیا گیا۔ بعد میں آنے والی خبروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ Twitterکی انتظامیہ نے ٹرمپ کا اکاؤنٹ ساری زندگی کے لیے بند کردیا ہے۔ معروف پولیٹیکل سائنٹسٹ ہما یوسف نے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ"In How Democracies Die: What History Reveals About Our Future، Steven Levitsky and Daniel Ziblatt argue that the real threat to democracy no longer comes from major upheavals such as cops، dictatorships or suspensions of the constitution. Instead، it comes from within the system itself."ہما یوسف کے آرٹیکل کا یہ پیراگراف امریکا اور یورپی ممالک کی مضبوط جمہوریت کی خامیوں کو واضح کرتا ہے۔
جمہوری نظام پر تحقیق کرنے والے معروف محقق اور زیبسٹ کے سوشل سائنسز کے ڈین ڈاکٹر ریاض شیخ کہتے ہیں کہ امریکا میں اداروں کی مضبوطی اور ڈیپ اسٹیٹ کے کردار کے محدود ہونے کی بناء پر ڈونلڈ ٹرمپ کے عزائم ناکام ہوگئے مگر پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت کے مستحکم نہ ہونے اور جمہوری نظام کے ناکام ہونے کی بنیادی وجہ ملک کے اداروں اور ایجنسیوں کا جمہوری نظام کو غیر مستحکم کرنے میں کردار ہے۔ ابلاغیات کے پروفیسر سعید عثمانی کہتے ہیں کہ جدید ریاست تین بنیادی ستونوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ ستون انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ ہیں۔ تمام وزارتیں اور ان کے ماتحت ادارے ان ستونوں کے فیصلوں کی تابعداری کرتے ہیں۔
1973 کا آئین ان بنیادی ستونوں پر قائم ہے مگر ڈیپ اسٹیٹ نے طاقت کے ذریعہ اپنے آپ کو ریاست کا ایک ستون بنوالیا ہے، یوں ڈیپ اسٹیٹ حکومتوں کے برسر اقتدار آنے اور ان کے اقتدار چھوڑنے کے بارے میں فیصلہ سازی کرتی ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ انتظامیہ، عدلیہ اور پارلیمنٹ موجود ہیں گر وہ ڈیپ اسٹیٹ کے بیانیہ کے خلاف مزاحمت نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 72 برسوں میں آدھا عرصہ آمریتوں کے سائے میں گزرا ہے۔ ان آمریتوں نے سیاست دانوں کی سرپرستی کی اور جمہوریت دشمن گروہ مضبوط ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کوئی اسکینڈل اور کبھی کوئی اسکینڈل سامنے آئے مگر ان اسکینڈل کے ذمے داروں کے احتساب کی کوشش ناکام ہوگئی۔
2018 کے انتخابات میں انتخابی نتائج کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعہ فوری طور پر ریٹرننگ افسروں کو معطل کرنے کا نظام مفلوج ہوا، تمام انتخابات میں اسی طرح کی صورتحال ہوتی ہے۔ امریکا کے انتخابات سے یہ سبق ملتا ہے کہ ادارے مستحکم ہوں تو طالع آزما قوتوں کے عزائم کامیاب نہیں ہوتے۔