امریکا کی نئی حکومت کی ترجیحات
امریکا میں تبدیلی آگئی۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار جوزف بائیڈن اور بھارتی نژاد کمالا ہیرس کامیاب ہوئے۔ امریکا کے انتخابات کی بہت سی خصوصیات ہیں مگر ایک خصوصیت یہ ہے کہ انتخابی معرکہ زوردار رہا۔
دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک میں ہفتہ بعد بھی مکمل انتخابی نتائج ظاہر نہ ہوسکے اور شاید تاریخ میں پہلی دفعہ ریپبلک امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کردیا، یہی وجہ ہے کہ چین اور روس کے سربراہوں نے ابھی تک الیکٹ صدر جوبائیڈن کو مبارکباد نہیں دی۔
صدر ٹرمپ امریکا کی تاریخ کے ایک منفرد صدر تھے جنھوں نے ایک طرف دنیا میں کشیدگی کی شدت میں اضافہ کیا دوسری طرف سفید فام اکثریت کی بالادستی کا نعرہ لگایا اور مسلسل ذرایع ابلاغ سے جنگ میں مصروف رہے۔ صدر ٹرمپ نے داخلہ اور خارجہ پالیسی میں بڑی تبدیلیاں کی تھیں۔ جوبائیڈن نے اپنے انتخابی منشور میں ان پالیسیوں میں تبدیلی کا عندیہ دیا ہے۔
جوبائیڈن نے سب سے پہلے پیرس معاہدہ میں دوبارہ شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ معاہدہ ماحولیات کے بارے میں ہے۔ ماحولیات کا معاملہ انسانی نسل کی بقا کے لیے ضروری ہے۔ ماحولیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ کووڈ۔ 19 کے مرض کی بنیادی وجہ ماحولیات میں بگاڑ ہے۔ صدر جوبائیڈن کے دور میں پاکستان، بھارت اور خطہ کے بارے میں پالیسیوں میں تبدیلی کے خاصے امکانات موجود ہیں۔
پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی طویل تاریخ ہے۔ ملک کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح نے امریکا سے دوستی کے سلسلہ کا آغاز کیا تھا۔ جناح صاحب نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس میں 11ستمبر 1947کو ایک پالیسی تقریر کی تھی۔ اس تقریر میں جہاں انھوں نے نئی ریاست کے کردار کو اجاگر کیا تھا اور اس تقریر میں صرف امریکا کا شکریہ ادا کیا تھا۔
بھارتی محقق وینکٹ رامائن نے پاکستان اور امریکا کے 1947سے 1958 تک کے تعلقات میں جامع تحقیق کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے بیرسٹر محمد علی جناح نے امریکا کے صدر کو خط تحریر کیا تھا کہ امریکا پاکستانی فوج کی تنظیم نو میں مدد کرے اور قرضہ فراہم کرے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو سوویت یونین اور امریکا نے اپنے ممالک کے دورے کی دعوت دی تھی مگر نوابزادہ نے امریکا کا دورہ کیا، یوں پاکستان اپنے قیام کے ساتھ ہی امریکا کا اتحادی بن گیا۔
پھر وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کے دور میں وزیر راجہ سر ظفر اللہ خان نے ازخود بغداد معاہدہ میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے فیصلہ کی بعد میں بوگرہ کابینہ نے توثیق کی تھی۔ یوں یہ معاہدہ بعد میں سیٹو اور سینٹو میں تبدیل ہوا۔ پھر پاکستان فرنٹ اسٹیٹ بن گیا اور سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کا حصہ بن گیا۔ امریکا نے پاکستان میں جنگی اڈے قائم کیے، پشاور میں بڈابیر تک فضائی اڈے امریکا کے حوالہ کیے گئے۔ امریکی طیارے یہاں سے پرواز کر کے سوویت یونین کی وسطی ایشیائی ریاستوں کی جاسوسی کرتے تھے۔
امریکا نے پاکستان کو فوجی اور سول شعبوں میں بھرپور امداد دی۔ فوجی اور سول سروس کے افسران کی امریکا کے معروف اداروں میں تربیت دی جانے لگی۔ امریکا نے اعلیٰ تعلیم کے لیے مختلف شعبوں میں وظائف دیے۔ امریکا کی امداد سے کئی اہم تعلیمی ادارہ قائم ہوئے۔ امریکا کی امداد سے پاکستان نے غذائی قلت پر قابو پایا۔ امریکا نے پی ایل 480کا فنڈ پاکستانی بینکوں میں قائم کیا۔ اس فنڈ سے سوویت یونین کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والی مذہبی و سیاسی جماعتوں، دانشوروں، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کو امداد دی جاتی تھی۔
1970میں شایع ہونے والی رپورٹوں میں بتایا گیا تھا کہ امریکا نے پاکستان کی معروف فرموں کے ذریعہ پاکستانی شہریوں میں رقم تقسیم کی تھی۔ پھر ایوب خان کے دور میں سوویت یونین نے بڈابیر سے اڑنے والا U2طیارہ مار گرایا۔ سوویت یونین کے سربراہ خروشیف نے دھمکی دی کہ سوویت یونین نے پشاور پر سرخ نشان لگا دیا ہے۔
صدر ایوب خان نے جواب میں سوویت یونین کو ایسی ہی دھمکی دی تھی مگر امریکی اڈے کا راز افشا ہونے کے بعد یہ اڈہ بند ہوگیا۔ امریکا نے 1965کی جنگ میں پاکستان کی فوجی امداد بند کردی۔ امریکا کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کے حق میں نہیں تھا۔ جب 60 کی دہائی میں چین اور بھارت میں تبت کے مسئلہ پر محدود جنگ ہوئی اور بھارت کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ پاکستان کشمیر پر حملہ کرسکتا ہے تو امریکا نے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کی تجویز دی اور صدر ایوب خان پر زور دیا کہ وہ اس جنگ میں غیر جانبدار رہیں۔
پاکستان اس جنگ میں غیر جانبدار رہا مگر چین اور بھارت میں کچھ دنوں میں جنگ بندی ہوگئی اور بھارت نے امریکا کی تجویز پر بات چیت نہیں کی۔ جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے امریکا کے صدر کے مشیر ڈاکٹر ہینری کسنجر کے دورہ پیکنگ میں سہولت کاری کے فرائض انجام دیے، یوں چین اور امریکا کے درمیان تعلقات شروع ہوئے۔ چین اور امریکا کے درمیان تعلقات قائم ہونے کے بعد چین اقوام متحدہ کا رکن بنا۔ تائیوان کو اقوام متحدہ سے خارج کردیا گیا۔
امریکا نے 1971 کی جنگ میں غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا مگر جب بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر قبضہ کیا اور بھارتی فوج مغربی پاکستان کے کچھ علاقہ پر قابض ہوئی تو امریکا کے صدر نکسن نے بھارت کی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کو مجبور کیا کہ وہ جنگ بندی کریں، یوں بھارت نے مغربی محاذ پر جنگ بندی کا فیصلہ کیا۔ بھٹو دور میں ایٹم بم کے مسئلہ پر امریکا سے تعلقات خراب ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو حکومت کے خلاف پی این اے کی تحریک کے پس پشت امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کارفرما تھی۔
پھر جنرل ضیاء الحق نے امریکا کے افغان پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی۔ امریکا اور پاکستان نے جہاد کے نام پر انتہا پسند مسلمانوں کو جمع کیا۔ امریکا اور یورپی ممالک نے افغان مجاہدین کی بھرپور مدد کی۔ اس افغان جنگ میں امریکا اور اتحادی فوجوں نے اربوں ڈالر کی امداد دی۔ بہت سے لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہوئیں۔ کہوٹا پلانٹ کو اوپن نہ کرنے کے مسئلہ پر امریکا نے برسلز ترمیم کے تحت پاکستانی فضائیہ کے لیے تیار کیے جانے والے لڑاکا طیاروں کی فراہمی روک دی تھی۔ مگر سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد سرد جنگ ختم ہوگئی۔
امریکا کی پالیسیوں میں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ اب امریکا کی ڈیموکریٹک حکومت انسانی حقوق کی پاسداری، آزادیٔ صحافت، اقلیتوں کے حقوق اور جمہوری نظام کے استحکام کی علمبردار بن گئی۔ جب 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا تختہ الٹا تو امریکا کے صدر کلنٹن نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ وہ اس دوران بھارت کے تفصیلی دورہ پر گئے تو پاکستان کی حکومت کی بھرپور کوششوں کی بناء پر وہ چند گھنٹے اسلام آباد ایئرپورٹ پر رہے مگر نائن الیون کے بعد دنیا کا نقشہ تبدیل ہوا۔ اب ریپبلک پارٹی کے صدر بش برسر اقتدار تھے۔
انھوں نے اس جنگ کو مذہبی رنگ دیا اور جنرل پرویز مشرف کی بھرپور مدد کی مگر 2010 میں امریکی میرین دستوں نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا۔ امریکا کے سینیٹر لوگر نے موجودہ صدر جوبائیڈن کے تعاون سے کیری لوگر بل کانگریس میں منظور کرایا۔ اس قانون میں واضح کیا گیا تھا کہ اگر پاکستان میں جمہوریت کو ختم کیا گیا تو امریکا پاکستان کی فوجی امداد بند کر دے گا۔ صدر ٹرمپ کا میڈیا سے شدید جھگڑا رہا۔
انھوں نے سفید فام افراد کو نسل پرستی کا سبق دیا۔ اس بناء پر صدر ٹرمپ نے میڈیا کی آزادی، سول سوسائٹی پر پابندی اور اقلیتوں کے حقوق پر آواز نہیں اٹھائی۔ ڈیموکریٹ حکومتوں کی تاریخ کے جائزہ سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ امریکا کی نئی ڈیموکریٹک حکومت پاکستان میں جمہوری اداروں کے استحکام، میڈیا کی آزادی، سول سوسائٹی پر پابندیوں اور دیگر حقوق کے تحفظ کو اپنی پالیسی میں شامل کرے گی۔