ایسا نہ ہو…
تیس سالہ جدوجہد کا ثمر سامنے آگیا۔ افریقہ سے پولیو کا خاتمہ ہوگیا۔ عالمی ادارہ صحت کی حکمت عملی پر افریقی ممالک نائیجیریا اور گھانانے مکمل عملدرآمد کیا، یوں اب افغانستان اور پاکستان دو بدقسمت ممالک ہیں جہاں 21ویں صدی میں بھی بچے پولیو کے مرض کا شکار ہورہے ہیں۔ لاہورکے سرکاری اسپتال میں ایک 14سالہ اور ایک ڈیڑھ سالہ بچہ کی ہلاکت کی خبر نے پولیو کے مرض کے خاتمہ کے لیے حکومت کی ناکامی کو عیاں کیا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صورتحال انتہائی خراب ہے۔ ایسا نہ ہو کہ دنیا بھر میں صرف پاکستان میں اس مرض کا خاتمہ نہ ہوسکے۔ نائیجیریا براعظم افریقہ کے مغربی حصہ میں واقع ہے۔ نائیجیریا کی آبادی 20 کروڑ سے زائد ہے۔ نائیجیریا کی آبادی کا 57 فیصد حصہ 18 سے 35سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نائیجیریا میں خواندگی کا تناسب 62% ہے۔
نائیجیریا کے ایک فیصد حصہ پر مذہبی انتہاپسند گروہ بوکوحرام (Boko Haram) نے قبضہ کیا ہوا تھا۔ یہ انتہاپسند جدیدیت کو خطرناک سمجھتے تھے، یوں جب بھی حکومت پولیو کے مرض کے خاتمہ کے لیے مہم شروع کرتی بوکوحرام کے جنگجو طبی رضاکاروں کو نشانہ بناتے۔ یوں چند سال قبل تک بوکو حرام نے متوازی ریاست کی شکل اختیار کرلی تھی۔
اس گروہ کی منفی سرگرمیوں کے یوں تو بہت سے نقصانات تھے مگر ایک بڑا نقصان نوزائیدہ بچوں کا تھا جو پیدا ہونے کے کچھ عرصہ بعد یا تو ہلاک ہو جاتے تھے یا زندہ رہتے تو زندگی پھر محتاج رہتے۔ نائیجیریا کی حکومت نے پولیو کے قطرے پلانے والے رضاکاروں کے تحفظ کے لیے فوجی دستے تعینات کیے۔ نائیجیریا کی فوج کے دستے جدید ہتھیاروں کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی سے لیس تھے، یوں قطرے پلانے کی مہم میں کئی افسوسناک واقعات ہوئے۔
جنگجوؤں کے حملوں میں رضاکاروں کے علاوہ فوجی بھی جاں بحق ہوئے مگر یہ نائیجیریا کی ریاست کی اولین ترجیح تھی، یوں رکاوٹوں کے باوجود یہ مہم جاری رہی۔ عالمی ادارہ صحت سے ملنے والی تفصیلات کے مطابق نائیجیریا میں 2011ء میں جنونی مشرقی ریاست برونو (Brono) میں پولیو کے وائرس سے کئی بچوں کی ہلاکت کی خبریں آئی تھیں، اس طرح بین الاقوامی ایجنسیوں کی معاونت سے مہم شروع ہوئی اور 2020ء میں اس کے مثبت نتائج واضح ہوگئے اور اب اگست کے اختتام پر عالمی ادارہ صحت نے نائیجیریا سمیت براعظم افریقہ سے پولیو کے مرض کے خاتمہ کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا۔
افریقہ اور ایشیائی ممالک میں افغانستان اور پاکستان دو ممالک ہیں جہاں یہ مرض اب تک موجود ہے۔ افغانستان تو گزشتہ صدی کی 80ویں دہائی سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ 90ویں کی دہائی میں افغانستان میں قائم ہونے والی طالبان کی حکومت اور نائیجیریا کے بوکوحرام کا فلسفہ ایک ہی طرح کا تھا۔ یہ دونوں سائنس کی جدید اصولوں کے مطابق حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنے کو گناہ سے تعبیر کرتے تھے۔ خواتین، ڈاکٹروں اور ہیلتھ ورکرز کو ان حکومتوں نے گھروں میں مقید کردیا تھا، یوں اس دوران افغانستان میں پولیو کے مرض کے تدارک کے لیے کچھ نہ ہوا۔
جب امریکا اور اتحادی ممالک کے حملہ کے بعد حامد کرزئی کی حکومت قائم ہوئی تو افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی اور صحت عامہ کے معیار کو بہتر بنانے کی تمام مہمیں ختم ہوگئیں مگر چند سال قبل بین الاقوامی ذرایع ابلاغ میں یہ خبریں شایع ہوئی تھیں کہ طالبان نے اپنے زیر انتظام علاقوں میں پولیو کے کارکنوں کو بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی اجازت دیدی ہے، یوں افغانستان میں پولیو کے مرض کا پھیلاؤ کچھ عرصہ کے لیے محدو دہوا۔ اب افغانستان میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے اور افغانستان کی حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے بعد یہ امید ہوچکی ہے کہ افغانستان میں پولیو کے خاتمہ کے لیے مؤثر اقدامات ہوں گے۔
پاکستان میں 90ء کی دہائی میں عالمی ادارہ صحت نے پولیو کے مرض کے خاتمہ کے لیے گھر گھر قطرے پلانے کی مہمیں منظم کرنے کے لیے تجویز پیش کی۔ کہا جاتا ہے کہ ڈبلیو ایچ او نے اس مہم کے لیے ماہرین اور دوائی کی فراہمی کا بھی اہتمام کیا مگر پولیو کے قطرے پلانے کی مہم شروع ہونے پر رجعت پسند حلقوں نے منفی مہم شروع کردی۔ پہلے قبائلی علاقوں میں پولیو کے قطرے پلانے والے کارکنوں پر حملے ہوئے جن میں متعدد کارکن شہید ہوئے۔
یوں ملک میں پولیو کے قطرے پلانے والے کارکن خطرناک صورتحال کا شکار ہوگئے۔ معاملہ صرف قبائلی علاقوں اورخیبر پختون خوا تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ بلوچستان میں کوئٹہ اور سندھ میں کراچی شہر بھی پولیو کے کارکنوں کے لیے خطرناک بن گیا۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں کئی کارکن شہید ہوئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ بعض مولوی حضرات نے اپنی تقاریر میں یہ کہنا شروع کیا کہ امریکا پاکستان کے بچوں کو نامرد بنانا چاہتا ہے۔
اس پروپیگنڈہ سے صرف ناخواندہ افراد ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ انتہائی تعلیم یافتہ افراد بھی اس پروپیگنڈہ کا حصہ بن گئے۔ ا س ضمن میں بعض مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے دہرا رویہ اختیار کیا۔ ان جماعتوں کے رہنما کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ٹی وی چینلز پر تو پولیو کے خاتمہ کی مہم کی حمایت کرتے رہے مگر اپنے آبائی علاقوں میں یہ رہنما پولیو کے خاتمہ کی مہم کے خلاف رائے عامہ کو گمراہ کرتے ہیں۔ ان ہی عناصر نے سوشل میڈیا کے ذریعے غیر سائنسی پروپیگنڈہ کیا۔ حقائق کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف جماعت اسلامی نے پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کی مکمل حمایت کی، بلکہ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم الخدمت خود یہ مہم منظم کرتی رہی۔
پولیو کے مرض کی روک تھام کے اقدامات کی نگرانی کرنے والے آزاد مانیٹرنگ بورڈ (I.B.M) کی ایک رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ پاکستانی ریاست کی پولیو کے مرض کے خاتمہ کے لیے Political Willنہیں ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے پولیو کے مرض کے خاتمہ کے لیے سیاسی قوتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی اور حکومت کی کارکردگی کے تجزیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مرض کو فٹ بال بنایا گیا ہے۔
آئی بی ایم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2017ء اور 2018ء میں پاکستان پولیو پروگرام زیادہ موثرتھا۔ پولیو کے خاتمہ کے لیے بل گیٹس ہر سال پاکستان کو کئی ارب روپے فراہم کرتے ہیں۔ بل گیٹس نے بھارت، بنگلہ دیش اور افریقی ممالک کو بھی امداد دی تھی۔ بعض صحافیوں کا یہ خیال بھی ہے کہ حکومت کی پولیو کے مکمل خاتمہ میں دلچسپی اس لیے نہیں ہے کہ اگر پولیو ختم ہوگیا تو پھر یہ اربوں روپے کی امداد بن ہوجائے گی۔ پاکستان میں پولیو کا مرض ختم نہ ہوا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان پر سفری پابندیاں لگا دی جائیں۔