پاکستان مخالف ’’را‘‘ کی نئی وارداتیں
لداخ کے دو محاذوں پر چین کے ہاتھوں بھارت کی جو درگت بنی ہے اور ہنوز بن رہی ہے، بھارتی وزیر اعظم اپنے عوام اور ووٹروں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ وہ چین کے ہاتھوں بھارتی شکست اور پسپائی پر مسلسل کذب بیانی کر رہے ہیں۔ خود بھارتی میڈیا کے کئی اخبار نویس بھارتی وزیر اعظم اور اُن کے قریبی ساتھیوں کے جھوٹوں کے پول کھول رہے ہیں۔
عالمی میڈیا بھی بھارتی خفت کی پٹاری کھول رہا ہے۔ بھارت طاقتور اور فاتح چین کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکا لیکن ندامتوں اور شرمندگیوں سے بچنے کے لیے بھارتی مقتدر پارٹی ( بی جے پی اور آر ایس ایس)، بھارتی خفیہ ایجنسیاں اور انڈین اسٹیبلشمنٹ خاص منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے خلاف تہمتوں اور سازشوں کا نیا محاذ کھول چکے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ بھارتی عوام کی توجہ کسی اور طرف مبذول کی جا سکے۔ ایسا مگر ہو نہیں رہا۔
کئی ایسے شواہد منصہ شہود پر آئے ہیں جو بتاتے ہیں کہ بھارتی "را" اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی "این ڈی ایس" ایک بار پھر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پاکستان کے خلاف بروئے کار آ چکی ہیں۔ این ڈی ایس کو تو خاص تکلیف اور دکھ یہ ہے کہ پاکستان کی مدد سے افغانستان میں امن عمل (Peace Process) رفتہ رفتہ کامیابی سے ہمکنار کیوں ہورہا ہے۔ ایسا ہی مروڑ، اِسی کارن، بھارتی خفیہ ایجنسی"را" کے پیٹ میں بھی اُٹھ رہا ہے۔ سو، ہم ان دونوں کی دوستی کے اشتراک اور پاکستان مخالف بغض کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔
نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی کھسیانی بِلی جس طرح کھمبا نوچتی دکھائی دے رہی ہے، ہم یہ منظر اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ پچھلے ماہ کے آخری ہفتے بھارتی خفیہ ادارے نے پاکستان کے خلاف ایک بار پھر (رواں سال نویں بار) جاسوسی کے لیے اپنا ڈرون بھیجا۔ پاکستان نے اسے بھی مار گرایا۔ ابھی اِس واقعے کو چند دن ہی گزرے تھے کہ 29جون 2020 کو کراچی میں ہماری مرکزی اسٹاک ایکسچینج پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ حملہ آوروں کی تعداد چار تھی۔ سب جدید اسلحہ سے لیس اور اسلحہ بھی خاصی مقدار میں تھا۔
خدا کا شکر ہے کہ ہماری الرٹ سیکیورٹی فورسز نے چاروں دہشت گردوں کو جہنم واصل کرکے شہر اور ملک کو بڑے نقصان سے بچا لیا۔ اگرچہ اس ایکشن میں ہمارے کچھ جوان بھی شہید اور زخمی ہُوئے ہیں۔ دہشت گردوں کو جہنم رسید کرنے اور خود شہادت کا تاج پہننے والے سندھ پولیس اور سیکیورٹی کے ہمارے جوان ہمارے سروں کا تاج ہیں۔ سب کو ہمارا سلام اور سیلوٹ۔ کراچی اسٹاک ایکسچینج پردہشت گردوں کے اس حملے پر ساری دُنیا نے حملہ آوروں کی مذمت اور پاکستان سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے لیکن بھارتی بیان دل آزار تھا۔ بھارت کو اصل دکھ یہ ہے کہ اُس کے بھیجے گئے دہشت گرد ناکام و نامراد کیوں ہو گئے؟
ہم بھارت کے اس باطنی کرب کو سمجھ سکتے ہیں۔ کراچی کے اس سانحہ پر ہمارے کچھ ذمے داروں نے کہا: یہ حملہ بھارتی شرارت اور سازش ہو سکتی ہے۔ اس شکیہ جملے کا استعمال چہ معنی دارد؟ بھارت یقیناً اس واردات کا مرکزی کردار ہے ؛ چنانچہ کسی بھی شبہے اور شک کو رفع کرتے ہُوئے وزیر اعظم عمران خان نے قومی اسمبلی کے فلور پر اپنے خطاب میں بجا کہا ہے :" کراچی اسٹاک ایکسچینج حملے کا منصوبہ بھارت میں بنا۔ ہمارے شہدا نے دشمن کا ایک بڑا پلان ناکام بنایا ہے۔"
ہم سب پاکستانی اپنے وزیر اعظم کے ان الفاظ پر حق الیقین رکھتے ہیں۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، جنرل ندیم رضا، کا بھی اِسی ضمن میں ایک بیان یوں سامنے آیا ہے : " بھارت خطے کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔" بھارت مگر یاد رکھے کہ اُس کی طرف سے کوئی بھی پاکستان مخالف ایڈونچر زمین ہی چاٹے گی۔ بھارت بھی باطنی طور پر جانتا ہے کہ پاکستان لوہے کا چنا ہے۔ اسے چبانا یا نگلنا ممکن نہیں ہے؛ چنانچہ پاکستان کے خلاف بھارتی کمینگیاں جاری ہیں۔
کبھی بھارتی خفیہ ایجنسیاں نئی دہلی میں بروئے کار پاکستان ہائی کمیشن پر شرمناک اور بے بنیاد الزام عائد کرتی ہیں اور کبھی بھارتی اسٹیبلشمنٹ25ہزاربھارتیوں کو مقبوضہ کشمیر کے ( ناجائز اور غیر قانونی) ڈومیسائل عطا کرکے پاکستان کو زچ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ان اقدامات اور ہتھکنڈوں سے خود بھارتی منہ پر کالک ملی جا رہی ہے۔ بھارتی خبثِ باطن اور انڈین انٹیلی جنس اداروں کی شیطانیوں کے کارن اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کو اور نئی دہلی میں پاکستان ہائی کمیشن کو اپنے اپنے عملے میں جو پچاس فیصد کمی کرنا پڑی ہے، ان اقدامات سے بھارت کے حصے میں نیک نامی نہیں آنے والی اور نہ ہی بھارتی وزیراعظم پاکستان مخالف اپنے مفسدانہ اقدامات سے کشمیر بارے پاکستانی موقف میں کمزوری لا سکتا ہے۔
جولائی 2020 کے پہلے ہفتے ایک معاصر نے "را" اور بلوچستان کی ایک دہشت گرد و کالعدم جماعت کے باہمی تعلقات پر انکشافات کرتے ہُوئے لکھا: "دہشت گرد تنظیم بی ایل اے، جس نے پیر ( 29جون 2020ء)کو کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا تھا، کے بھارت سے تعلقات کا سب ہی کو پتہ ہے۔ صرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ہی یہ اعتراف نہیں کیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں بھارت کا ہاتھ ہے، بلکہ نئی دہلی میں میڈیا بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ بی ایل اے کے بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں "۔
بدقسمتی یہ ہے کہ کالعدم "بی ایل اے"کی پناہ گاہیں افغانستان میں بھی ہیں جہاں مبینہ طور پر بھارتی "را" اور افغان "این ڈی ایس" اسے ہر قسم کی اعانت فراہم کررہی ہیں۔ 2جولائی 2020ء کو اسی بنیاد پر پاکستان نے کالعدم "بی ایل اے" کی بھارتی پشت پناہی میں (افغان سرزمین سے) کراچی اسٹاک ایکسچینج کو دہشتگردی کا نشانہ بنانے پر اپنی گہری تشویشات سے پاکستان کے دَورے پر آئے امریکی صدر کے افغان ایلچی، زلمے خلیل زاد، کو بھی آگاہ کیا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی، کا یہ کہنا نہایت بجا ہے کہ بھارت میں داخلی انتشار بڑھ جائے تو وہ اپنی عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان میں دہشت گردی شروع کر دیتا ہے۔
امریکی جریدے "فارن پالیسی" نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں بھی پاکستان مخالف بھارتی خفیہ اداروں کی وارداتوں کا بالتفصیل ذکر کیا ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارتی وارداتوں اور گھاتوں میں بھارتی میڈیا بھی یکساں کردار ادا کررہا ہے۔ بھارتی میڈیا کو اس ضمن میں انڈین انٹیلی جنس اداروں کی پوری آشیرواد حاصل ہے ؛ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بغیر کسی ثبوت کے انڈین میڈیا پاکستان کے خلاف ہفوات بک رہا ہے۔ مثال کے طور پر اُس کا یہ جھوٹا دعویٰ کہ "چین، بھارت کے خلاف، پاکستان کا اسکردو ایئر بیس استعمال کررہا ہے۔"
چین کے ہاتھوں بھارت کی درگت بننے کے بعد بھارت اسقدر حواس باختہ ہو چکا ہے کہ اُسے دن کی روشنی میں بھی چین کے بارے میں ڈراؤنے خواب آ رہے ہیں۔ اسکردو والا خواب بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ افواجِ پاکستان کے ترجمان، میجر جنرل بابر افتخار، نے ابھی سختی سے اسکردو والے الزام کی تردید کی ہی تھی کہ بھارت نے پاکستان کے خلاف ایک اور تہمت گھڑ لی۔ اس تہمت میں انڈین میڈیا نے مزید مرچ مصالحہ بھرا۔
تہمت یہ تھی کہ " پاکستان گلگت بلتستان میں، ایل او سی پر، اپنے اضافی فوجی دستے تعینات کررہا ہے۔" یہ بھی نری بے بنیاد بات تھی۔ آئی ایس پی آر کے ڈی جی نے اس بھارتی دعوے کو بھی جھوٹا، غیر ذمے دارانہ اور حقیقت سے عاری قرار دیا۔ پاکستان کے خلاف جھوٹ تراشنے کی بھارتی مشینری دن رات کام کررہی ہے۔ جھوٹ کی یہ مشینری مودی جی کا زوال روک نہیں سکے گی۔