نیپال کے خلاف بھارتی تجاوزاتی ظلم
کیا یہ بدقسمتی نہیں ہے کہ بھارت کے ہمسائے میں بسنے والا ہر ملک بھارتی شر انگیزیوں سے محفوظ نہیں ہے؟ مقبوضہ کشمیر میں اس کے ظلم و جور ہر حد عبور کر چکے ہیں۔ بذریعہ افغانستان یہ پاکستان میں مداخلت کرتا اور بلوچستان میں خون بہاتا ہے۔
پاکستان میں رنگے ہاتھوں گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس ( کلبھوشن یادیو) کے اعترافات اس امر کی ایک بڑی مثال ہیں۔ ابھی گزشتہ روز پاکستان نے بھارتی جاسوس ڈرون مار گرایا ہے جو ہماری سرحدی حدود میں گھس آیا تھا۔ چین کے خلاف بھی تازہ بھارتی شرارتوں کا خمیازہ بھارت ہی کو سخت ندامت کی صورت میں بھگتنا پڑا ہے۔ برما بھی بھارت سے خاصا تنگ ہے۔ دُنیا کی واحد "خالص ہندو"ریاست، نیپال، بھی بھارتی زیادتیوں کی آئے روز شکار بنی رہتی ہے۔
اب تو بھارت نے نیپال پر جو نیا ظلم کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتی توسیع پسندانہ بھوک ختم نہیں ہونے پا رہی۔ بھارت نے تجاوزات کرتے ہُوئے چین اور بھارت کے درمیان واقع نیپال کے 300مربع کلومیٹر ہمالیائی پہاڑی علاقے پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ علاقہ لمپیادھورا، لیپولیکھ اور کالا پانی پر مشتمل ہے۔ بھارت نے اسی مقبوضہ علاقے میں خفیہ طور پر پہاڑی درّوں کو کاٹ کر 80کلومیٹر طویل سڑک بھی تعمیر کر لی ہے۔ اس اسٹرٹیجک سڑک کے راستے بھارتی تجارتی راستہ مختصر بھی ہُواہے اور بھارتی ہندو یاتریوں کو تبت میں واقع " مقدس جھیل مانسرور" تک پہنچنا بھی آسان تر ہو گیا ہے۔
اس سڑک کی تعمیر یوں خفیہ طریقے سے انجام دی گئی کہ نیپال کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی۔ شور اُس وقت مچا جب بھارتی وزیر دفاع، راجناتھ سنگھ، نے 8مئی2020ء کو اس سڑک کا افتتاح کیا۔ نیپالی حکومت اور عوام اس بھارتی تجاوزات پر سخت غم و غصے میں ہیں۔ پچھلے تین ہفتوں کے دوران نیپالی عوام تقریباً ہر روز ہی کھٹمنڈو میں بھارتی سفارتخانے کے سامنے India No Encroachmentکے پلے کارڈز اُٹھائے بھارت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ نیپالی وزیر اعظم اور وزیر دفاع کا بھارت سے احتجاج ساری دُنیا میں سناگیا ہے۔
بھارت اپنی طاقت کے زعم میں کمزور ہمسایہ ملک، نیپال، پر تجاوزاتی یلغار کرتے ہُوئے اُس کا مذکورہ رقبہ ہمیشہ کے لیے ہتھیانا چاہتا ہے۔ نیپال نے مگر بھارت کے سامنے سرنڈر کرنے اور بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی بات ماننے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ بھارت اپنے ’کمزور، ہمسائے کی اس جرأت وجسارت پر حیران بھی ہے اور پریشان بھی۔ بھارت کا تو خیال تھا کہ نیپالی حکومت اور عوام اُس کے تجاوزاتی ظلم کے خلاف چُوں بھی نہیں کریں گے۔ ایسا مگر ہو نہیں سکا ہے۔
22مئی2020ء کو بھارت کی پریشانیاں اُس وقت مزید بڑھ گئیں جب نیپال نے اپنے ملک کا نیا اور اَپ ٹُو ڈیٹ سرکاری جغرافیائی نقشہ دُنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ اس نقشے میں کالا پانی، لمپیا دھورا اور لیپو لیکھ کے علاقے واضح طور پر نیپال کا حصہ دکھائے گئے ہیں۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، انوراگ سری واستو، نے اس نقشے پر سخت ردِ عمل دیتے ہُوئے کہا: "یہ جعلسازی ہے۔ اور بھارت کے لیے قطعی ناقابلِ قبول۔" لیکن نیپال اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہے۔
نیپالی وزیر اعظم (کے پی شرما اولی)کے فارن پالیسی ایڈوائزر، راجن بھٹ رائے، نے ایک معروف بھارتی اخبار کو انٹرویو دیتے ہُوئے بڑی جرأت سے کہا: " ہمارا جاری کردہ نقشہ جعلی ہے نہ مصنوعی۔ ہم تاریخ کی بنیاد پر کھڑے ہیں۔ ہمیں جھٹلایا جا سکتا ہے نہ بھارت اپنی تجاوزات کو سچا ثابت کر سکتا ہے۔ ہمارا یہ نقشہ 1816ء کو ہونے والے Treaty of Sugauliپر مشتمل ہے۔ اسی تاریخی معاہدے کی اساس پر نیپال کی موجودہ جغرافیائی حدود طے کی گئی تھیں ؛چنانچہ کسی طور بھی کالا پانی، لیپو لیکھ اور لمپیا دھورا کے علاقوں پر بھارت اپنا حقِ ملکیت جتا نہیں سکتا۔ بھارت کو اگر کوئی شبہ ہے تو ہمارے ساتھ مذاکراتی میز پر بیٹھ جائے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔"بھارت مگر ابھی تک نیپالی حکام کے ساتھ میز پر آنے سے کترارہا ہے۔
بھارتی نیتااور انڈین اسٹیبلشمنٹ حیران ہیں کہ نیپال ایسا ’کمزور، ملک اُس کے سامنے ڈٹ کر کیسے کھڑا ہو گیا ہے؟ اُس کے لیے یہ بات بھی پریشانی کی ہے کہ تمام نیپالی اپوزیشن لیڈرز اپنے اپنے اختلافات پسِ پشت ڈال کر اپنے حکومتی موقف کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں اور بیک زبان بھارتی تجاوزاتی ظلم کے خلاف سخت احتجاجی آوازیں بلند کررہے ہیں۔ بھارت حیران ہے کہ نیپال کو یہ جرأت کہاں سے ملی ہے؟ آخر "بڑی سوچ بچار" کے بعد بھارت نے یہ "نتیجہ " اخذ کیا ہے کہ یہ چین ہے جو نیپال کی پشت پر کھڑا ہے اور وہی اُسے بھارتی تجاوزات کے خلاف کھڑا ہونے کی جرأت وہمت فراہم کر رہا ہے۔
مثال کے طور پر بھارتی آرمی چیف، ایم ایم نروانے، کا یہ کہنا کہ "اس بات کا بہرحال امکان ہے کہ نیپالی وزیر اعظم نے بھارت کے خلاف جو کچھ بھی کہا ہے، اسے چین کی اشیرواد حاصل ہے۔" اور جب نیپال نے یہ کہا کہ "نیپال میں داخل ہونے والی کورونا کی مہلک ٹرین بھارت سے آئی ہے" تو بھارتی میڈیا خاصا جزبز ہُوا تھا اور پلٹ کو کہا تھا کہ "یہ پٹی چین کی پڑھائی لگتی ہے۔"بھارت کو اس بات کا بھی خاصا درد ہے کہ نیپال، چین تعلقات میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟
اس پس منظر میں جب نیپالی علاقوں پر بھارتی تجاوزاتی ظلم پر نیپال نے سخت ردِ عمل کا مظاہرہ کیا تو اس نیپالی مزاحمت کو بھی بھارت نے چین کے کھاتے میں ڈال دیا ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انڈین اسٹیبلشمنٹ اور مودی حکومت کے اشاروں پر کٹھ پتلی کی طرح ناچنے والے بھارتی نجی ٹی وی کے مشہور اینکر پرسن، ارنب گوسوامی، نے خاص طور پر اِسی موضوع پر حالیہ دنوں میں کئی ٹی وی پروگرا م کیے ہیں جن میں اُس نے غیر مبہم الفاظ میں یہ الزامات لگائے کہ" نیپال دراصل چین کے اشارے پر بھارت کے خلاف اُٹھ کھڑا ہُوا ہے۔"ان الزامات کو "ثابت" کرنے کے لیے ارنب گوسوامی نے اپنے کئی ہمنوا چیلے چانٹے بھی بلا رکھے تھے لیکن یہ سب بھی مل کر نیپالی موقف کو رَد کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
نیپال سے شایع ہونے والے انگریزی اخبارات ( مثلاً: دی ہمالیان ٹائمز، دی رائزنگ نیپال، دی کھٹمنڈو پوسٹ) پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہر نیپالی شہری کالا پانی، لیپو لیکھ اور لمپیا دھورا پر بھارتی قبضے کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہُوا ہے۔ سی این این ایسے ممتاز امریکی میڈیا نے بھی بھارت کے اس غاصبانہ قبضے بارے مفصل رپورٹیں نشر کی ہیں۔ بھارتی میڈیا اس پر بہت شور مچارہا ہے۔
مشہور نیپالی نژاد بھارتی اداکارہ، منیشا کوئرالہ، نے اپنی ایک ٹویٹ میں اس بھارتی قبضے اور تجاوزات کے خلاف نیپالی عوام کے احتجاجات کی حمائت کی ہے تو پورا بھارتی میڈیا اُن کے خلاف ہاتھ دھو کر پیچھے پڑ گیا ہے۔ منیشا کوئرالہ کو بھارتی صحافی طنزیہ کہہ رہے کہ اگر نیپال سے اتنا ہی پیار ہے تو بھارتی فلم انڈسٹری میں نام اور دام کمانے کیوں آئی ہو؟ دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ منیشا کو جلد از جلد بھارت سے نکال باہر پھینکا جائے۔ بھارتی میڈیا اس لحاظ سے بڑا ہی بد لحاظ اور بیہودہ واقع ہُوا ہے۔ یہی بدتمیزی کا رویہ اُس نے ہمیشہ پاکستانی آرٹسٹوں سے بھی روا رکھا ہے۔
بھارت نے ایک طرف تو نیپال کی خود مختاری پامال کی ہے اور دوسری طرف بھارت ہی کے منفی روئیے سے نیپال اور بھارت کے درمیان سخت کشیدگی پائی جا رہی ہے۔ اس کشیدگی میں چین بھی شامل ہو گیاہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بجا ہی تو کہا ہے کہ مودی سرکار ہمسایہ ممالک کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔