مریم نواز شریف کے بغیر اپوزیشن کی اے پی سی؟
وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے دو دن قبل لاہور کے مضافات میں "کالا خطائی " کے مقام پر "راوی فرنٹ اربن پراجیکٹ منصوبے" کا سنگِ بنیاد رکھنے کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے فرمایا: "اپوزیشن جماعتوں کی اے پی سی ناکام رہے گی۔
وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن کی سیاست صرف ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔" حکومتی ارکان کوعثمان بزدار کا یہ بیان بنیادی طور پر درست محسوس ہوتا ہے۔ اُن کی فطری خواہش بھی ہے کہ 20 ستمبر 2020 بروز اتوار حکومت مخالف کثیر الجماعتی کانفرنس (APC) ناکام ہی ہو گی۔ لیکن ان تمام تر ممکنہ اور متوقع ناکامیوں کے باوصف اے پی سی حکومت اور اعیانِ حکومت کے اعصاب پر بوجھ کیوں بنتی جا رہی ہے؟ اگر یہ "بے وقت کی راگنی" ہے تو اس "راگ" سے کسی کی نیند اچاٹ کیوں؟ اپوزیشن کو اپنا چاؤ پورا کرنے کی پوری اجازت دی جانی چاہیے۔
حکومت اگر اس "بے وقت کی راگنی" کو اتنا ہی بے معنی اور بے وقعت خیال کررہی ہے تو پھر ڈر کاہے کا؟ دیکھ لینا چاہیے کہ اس میدان میں گھوڑا کتنی طاقت دکھاتاہے۔ اگرچہ یہ "گھوڑا" آگے بڑھتے ہُوئے جھجک اور ابہام کے تفکرات میں بھی گھرا ہے۔
آل پارٹیز کانفرنس، پاکستان پیپلز پارٹی کی میزبانی میں منعقد ہونے جا رہی ہے۔ گزشتہ روز اِسے ہر رخ سے کامیاب بنانے اور اس کے انتظام و انصرام کا جائزہ لینے پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری خود لاہور آئے۔ اِس سے قبل قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کراچی میں سیلاب زدگان کی خبر گیری کے لیے کراچی گئے تو اِس بہانے سابق صدرِ پاکستان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے بھی ملے۔
یہ ملاقات در حقیقت اے پی سی ہی کے حوالے سے تھی۔ حکمرانوں، اُن کے بعض خاص مشیروں اور اے پی سی کو "بے وقت کی راگنی" قراردینے والوں کے دل و دماغ اور طبیعتوں پر شہباز شریف اورآصف زرداری کی یہ ملاقات بڑی گراں گزری ؛ چنانچہ ہم نے اُن کی اس گرانی کو یوں بھی محسوس کیا کہ حزبِ اختلاف سے اختلاف کرنے والوں نے اس ملاقات کے پس منظر میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت کو کئی مہنے ترمینے بھی دیے ( کچھ عرصہ قبل جب محترمہ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی اسلام آباد میں ملاقات ہُوئی تھی تو بھی مخالف سیاسی قوتوں کی جانب سے ایسے ہی بیانات کے گولے داغے گئے تھے)یہ طعن درازی ماضی کے حوالے سے تھی۔
حکمرانوں اور اُن کے آزو بازو میں بیٹھے مشیرانِ کرام نے عوام کو یاد دلانے کی کوشش کرتے ہُوئے کہا: یہ وہی ملاقاتی ہیں ناں جو ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑنے کے دعوے کرتے رہے ہیں؟ عوام کو یاددلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں یاد ہے سب ذرا ذرا۔ عوام کے حافظے کو اتنا بھی ضعیف اور نحیف نہ سمجھا جائے۔
عوام کو تو یہ بھی یاد ہے کہ آج کے حکمرانوں کے سیاسی و اتحادی طاقت سمجھے جانے والے بہت سے ارکان ایسے بھی ہیں جن سے ہمارے موجودہ حکمران دُور رہنے کی قسمیں کھاتے رہے تھے۔ وقت کے جبر نے مگر اُن کے چاک چاک سینے سے "سینہ چاکانِ چمن" کو ملا دیا۔ سو، سچی بات یہ ہے کہ عوام نے شہباز، زرداری کے بارے میں حکمرانوں کے طعنوں مہنوں پر کان نہیں دھرا۔ حکومت نے عوام کی ریلیف اور بہبود کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا ہوتا تو شائد عوام "اے پی سی" منعقد کرنے والوں کے بارے میں حکومت کی بھی کچھ سن لیتے۔
پچھلے کچھ دنوں سے نون لیگ کی نائب صدر، محترمہ مریم نواز شریف، جس طرح سیاست اور سوشل میڈیا پر پھر سے عملی طور متحرک نظر آ رہی ہیں، خیال یہ تھا کہ دو روز بعد منعقد ہونے والی "اے پی سی" میں وہ مرکزی کردار ادا کریں گی۔ حکومت کی اصل حریف نون لیگ ہی ہے ؛ چنانچہ مریم نواز اور اُن کی سیاسی سرگرمیاں حکومت کے نشانے پر ہیں۔
ایک خاص اسٹرٹیجی کے تحت یہ درفنطنی چھوڑی گئی ہے کہ اگرشہباز شریف کی مبینہ " معروفِ عالم مفاہمت "کے بالمقابل مریم نواز کی اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں تو نون لیگ "شین لیگ" اور "میم لیگ" میں تقسیم ہو جائے گی۔
عوام جانتے ہیں کہ ایسے بیانات کا اصل مخرج کیا ہے۔ اس کے برعکس احساس یہ ہے کہ عوام مریم نواز شریف کو اپنی آرزوؤں کا مرکز بناتے جا رہے ہیں۔ اے پی سی میں شرکت کنندگان کے حوالے سے پہلے خبر آئی کہ مریم نواز صاحبہ اس میں ضرور شریک ہوں گی۔ لندن کی ڈیٹ لائن سے خبر شایع ہُوئی کہ میاں نواز شریف نے مریم نواز کو اے پی سی میں شرکت کی اجازت دے دی ہے۔ گزشتہ روزمگر مبینہ طور پر نون لیگ کی طرف سے، اے پی سی میں شرکت کے حوالے سے، جن سات افراد کی فہرست جاری کی گئی ہے۔
ان میں مریم نواز کا اسمِ گرامی شامل نہیں ہے۔ قیادت شہباز شریف کریں گے اور اُن کے ساتھ شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ محمد آصف، مریم اورنگزیب اور امیر مقام ہوں گے۔ یہ سب لوگ اپنی اپنی حیثیت میں نہایت اہم ہیں۔ مریم اورنگزیب کی شرکت اس لیے ضروری تھی کہ وہ نون لیگ کے مرکزی میڈیا کا چہرہ ہیں۔ اے پی سی میں مگر مریم نوازشریف کی شرکت سے جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں، ان توقعات کو دھچکا لگا ہے۔
اورجنھوں نے یہ توقعات وابستہ کی تھیں، انھیں بلاشبہ مایوسی ہُوئی ہے۔ کسی مبالغے کے بغیرکہا جا سکتا ہے کہ مریم نواز شریف اگر اے پی سی میں شریک ہوتیں تو وہ یقیناً ملکی اور غیر ملکی میڈیا کا مرکزِ نگاہ ٹھہرتیں۔ اُن کے الفاظ میڈیا میں تحرک اور تحریک پیدا کرتے۔
مریم نواز شریف کے والد صاحب، چچا اور کزنز کو جتنی مختلف الجہت اور متنوع آزمائشوں اور دباؤ کا سامنا ہے، اس پیش منظر میں اُن کی اے پی سی میں عدم شرکت ہی شائد بہتر حکمت ہے۔ گزشتہ روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں نون لیگ کو پھر شکست ملی ہے۔ اس بات کا غصہ بھی ہے ؛ چنانچہ ایک نون لیگی قائد یہ کہتے سنائی دیے ہیں کہ "اے پی سی بہت گرم ہوگی۔" العزیزیہ ریفرنس کیس میں نواز شریف کو حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد ہو گئی ہے۔
عدالت کے ایک حکم کے مطابق، 22ستمبر تک نواز شریف عدالت میں پیش نہ ہُوئے تو انھیں مبینہ طور پر مفرور قرار دے دیا جائے گا۔ نون لیگ کا اس پر جو ردِ عمل سامنے آیا ہے، کم دلچسپ نہیں ہے:" عدالتی فیصلے کا احترام ہے مگر نواز شریف علاج کے بعد ہی لندن سے واپس آئیں گے۔" تصادم سے گریزاں نون لیگ نے یہ کہہ تو دیا ہے لیکن اس کے باوجود نون لیگ کے سر سے خدشات و خطرات کی تلوار ہٹی نہیں ہے۔
مریم نواز کے کزن، حمزہ شہباز شریف، قید بھی ہیں اور مبینہ طور پر کورونا کے مریض بھی۔ شہباز شریف اور نون لیگ ناراض ہو رہے ہیں کہ حمزہ میاں کو اسپتال کی سہولت کیوں نہیں دی جا رہی۔ لاہور کے چیئرنگ کراس میں اِسی حوالے سے ایک احتجاجی جلوس بھی نکالا گیا ہے۔ خود میاں شہباز شریف بھی کئی ریفرنسوں اور کیسوں میں پھنسے ہُوئے ہیں۔ یہ ریفرنس اُن کے پاؤں کی زنجیریں بن گئے ہیں۔
یہ زنجیریں انھیں آزادی کے ساتھ حکومت کے خلاف کوئی قدم اُٹھانے سے باز رکھ رہی ہیں۔ بیس ستمبر کی اے پی سی میں اُن کے حلیف، آصف علی زرداری، کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔ ان حالات میں محترمہ مریم نواز کے بغیر منعقد ہونے والی "اے پی سی" اپوزیشن کا کم امتحان نہیں ہے۔