Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Tanveer Qaisar Shahid
  3. Khakrob Walida Ka Rukn e Assembly Beta

Khakrob Walida Ka Rukn e Assembly Beta

خاکروب والدہ کا رکنِ اسمبلی بیٹا

بھارت کو ہم پاکستان کا "ازلی دشمن ملک" کہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں، مسئلہ مقبوضہ کشمیر سمیت، کئی تنازعات موجود ہیں۔ ان تنازعات کی اساس پر دو بڑی جنگیں اور کئی لڑائیاں بھی ہو چکی ہیں۔ فریقین کا اربوں کھربوں کا مالی اور لاتعداد جانی نقصان بھی ہوچکا ہے۔

جب کبھی پاکستان اور بھارت میں حالات کشیدہ ہوتے ہیں یا کوئی بڑا سیاسی واقعہ جنم لے رہا ہوتاہے، دونوں ممالک کے صحافی اور سیاستدان، بالعموم، دونوں ممالک کے اہلِ حَکم کو دشنام اور الزام دینا شروع کر دیتے ہیں۔ انتخابات کے دوران تو یہ پریکٹس اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہے۔

ابھی چند ہفتے قبل پانچ بھارتی ریاستوں میں صوبائی انتخابات ہُوئے ہیں تو ہم نے دیکھا اور سُنا کہ کئی بھارتی سیاستدان الیکشن جیتنے کے لالچ میں اپنے اپنے ووٹروں اور ورکروں کو پاکستان کے خلاف بڑھکاتے اور مشتعل کرتے رہے۔ دوبھارتی ریاستوں (اُتر پردیش اور مشرقی پنجاب) میں پاکستان مخالف جذبات اُبھارنے کی دانستہ کوششیں دیکھی گئیں۔ اُترپردیش میں یوگی ادیتیا ناتھ اور مشرقی پنجاب میں، دونوں سابق وزرائے اعلیٰ، پاکستان کے خلاف آگ اُگلتے اور آگ بھڑکاتے رہے۔

ابھی حال ہی میں (9مارچ کو) بھارت کی طرف سے " تکنیکی غلطی" سے جو میزائل پاکستانی علاقے، میاں چنوں، میں گرا ہے، اس خوفناک حرکت کو بھی پاکستان اور پاکستانی فراموش نہیں کر سکتے۔

سفارتی سطح پر بھارت نے اگرچہ اس " غلطی" پر پاکستان سے معافی مانگ لی ہے۔ یہ مگر ناکافی ہے۔ بھارت کو ابھی وہ تفصیلات پاکستان کو فراہم کرنی ہیں کہ یہ میزائل کیوں مبینہ " تکنیکی غلطی " سے فائر ہو کر پاکستان پر آ گرا؟ ہم بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے ذہنوں سے خوب واقف ہیں۔ اگر پاکستان کی طرف سے ایسا ہی کوئی میزائل " تکنیکی غلطی " سے فائر ہو کر بھارت پر جا گرتا تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور بھارتی میڈیا کبھی پاکستان کی معذرتوں کو قبول نہ کرتے۔

بھارت میں مگر کچھ خصوصیات اور اوصاف بھی ہیں۔ اِسے اگر "دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت" گردانا جاتا ہے تو اِس کی بھی کچھ وجوہ ہیں جن سے انکار ممکن نہیں ہے۔ جمہوری اقدار کی پائیداری، مضبوطی، مارشل لاؤں کی لعنت سے محفوظ رہنا، غریبوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں اور پسماندہ رہ جانے والی کھشتریہ طبقہ کے ہندووں کو مین اسٹریم سیاست اور معیشت میں بھرپور حصہ فراہم کرنا، بھارتی آئین و قوانیں جمہوری چہرے کے بڑے اوصاف ہیں۔

سب سے بڑھ کر الیکشن کمیش کا ادارہ ہے۔ بھارتی آئین نے اس ادارے کو خود مختاری اور طاقت دے کر اسے اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ شفاف الیکشن کرا سکے، یہی وجہ ہے کہ بھارت میں متعصب بی جے پی کی موجودگی کے باوصف بھارتی سیکولرازم مضبوط ستونوں پر کھڑا ہے۔

یہاں سیکڑوں نامور بھارتی سیاستدانوں کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جو انتہائی غریب گھروں کے نوجوان تھے لیکن انھیں بڑی سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ دیے گئے اور وہ ممبرانِ پارلیمنٹ بھی بنے، وزیر بھی بنے، وزیراعلیٰ بنے، گورنر بنے اور صدر بھی۔ جس لائق شخص نے بھارت کو متفقہ آئین دیا، وہ بھی تو ایک دلت یعنی اچھوت تھا۔

یہ بھارت ہے جہاں ایک نادار چائے فروش کا نادار بیٹا وزیر اعظم بنا ہے۔ اور اب بھارت ہی میں اِسی سلسلے کی ایک اور فخریہ اور روشن مثال سامنے آئی ہے۔ بھارتی پنجاب کے حالیہ صوبائی انتخابات میں ایک ایسا شخص بھی اسمبلی کا رکن(MLA) منتخب ہُوا ہے جس کی والدہ صاحبہ ایک سرکاری اسکول میں بطور خاکروب ملازمت کرتی ہیں۔

اس غریب، بہادر اور محنتی رکنِ اسمبلی کا نام ہے: لابھ سنگھ ہے۔ انھوں نے اپنے انتخابی حلقے (بھدوڑ، برنالہ) میں 38ہزار ووٹوں کی اکثریت سے مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ، چرنجیت سنگھ چنّی، کو شکستِ فاش دی ہے۔

لابھ سنگھ "عام آدمی پارٹی (AAP) کے رکن ہیں اور اِسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ اس پارٹی کا انتخابی نشان "جھاڑُو" ہے۔ AAPنے مشرقی پنجاب اسمبلی کی 117سیٹوں میں سے92سیٹیں بھاری اکثریت سے جیت کر سارے بھارتی پنجاب میں جھاڑُو پھیر دیا ہے۔ یہ وہ سیاسی جماعت ہے جس نے حالیہ الیکشنوں میں مشرقی پنجاب کے سابق پانچ وزرائے اعلیٰ کو عبرتناک شکست دی ہے۔ اب اِسی پارٹی کا منتخب شخص، بھگونت سنگھ مان، مشرقی پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا ہے۔

ہم جس منفرد اور قابلِ فخر شخص، بھارتی پنجاب کے رکنِ اسمبلی، ایم ایل اے لابھ سنگھ اُگوکے، کا خصوصی ذکرکررہے ہیں، اُن کی والدہ صاحبہ کا نام ہے:بلدیو کور۔ والد صاحب کا نام ہے: درشن سنگھ۔ درشن سنگھ ایک غریب شخص ہے۔ محض ایک دیہاڑی دار مزدور اور ایک جز وقتی ڈرائیور۔ رکنِ اسمبلی لابھ سنگھ کی والدہ، بلدیو کور صاحبہ، مقامی سرکاری اسکول میں خاکروب ہیں۔

وہ پچھلے22برس سے اِسی اسکول میں چپڑاسی اور خاکروبی کے متعینہ فرائض انجام دے رہی ہیں۔ لابھ سنگھ اُگو کے بھی اسی اسکول سے پڑھے ہیں جہاں اُن کی والدہ خاکروب ہیں۔ بھارت کے کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز نے بلدیو کور صاحبہ کے انٹرویوز کیے ہیں۔ وہ فخر سے کہتی سنائی دیتی ہیں: " مَیں نے حق حلال کی کمائی سے اپنے بچوں کو پالا پوسا ہے۔ (عام آدمی) پارٹی کا شکریہ جس نے میرے بیٹے کی محنت کو مانا اور ٹکٹ دیا۔

وہ اب عوام کی کرپا سے ایم ایل اے بن چکا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مَیں اپنی نوکری چھوڑ دوں گی۔ مَیں یہ محنت جاری رکھوں گی۔ "بلدیو کور نے اپنے اسکول کے صحن میں کھڑے ہوکر اور اپنے ہاتھ میں پکڑے جھاڑُو کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے سب سے بڑے بھارتی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا:" میرے بیٹے نے اِسی (جھاڑُو) سے امیروں اور تگڑوں کو ہرایا ہے۔ " بھارت بھر میں غریب اور محنت کش بلدیو کور اور اُن کے جھاڑُو کی گونج سنائی اور دکھائی دے رہی ہے۔

نَومنتخب ایم ایل اے، لابھ سنگھ اُگو کے، خود بھی ایک محنت کش اور غریب آدمی ہیں۔ وہ برنالہ ہی میں موبائل فونز کی مرمت کرنے والی ایک دکان میں مزدوری کرتے رہے ہیں۔

ساتھ سیاست بھی کرتے رہے۔ شاباش ہے"عام آدمی پارٹی " اور اس کے مرکزی صدر (اروند کجریوال) کو جنھوں نے ایک خاکروب والدہ کے خاک نشین بیٹے، لابھ سنگھ، کو پارٹی ٹکٹ دیا، اُس کے انتخابی اخراجات بھی برداشت کیے اور اس کے کندھے کے ساتھ اپنا کندھا ملائے رکھا۔ بھارت اور مشرقی پنجاب کی سیاست اور جمہوریت بجا طور پر ایک خاکروب والدہ کے بیٹے، لابھ سنگھ، کی کامیابی پر فخر کر سکتے ہیں۔

اور ہم جو مساوات اور برابری کے بلند آہنگ نعرے لگاتے رہتے ہیں، کیا ہمارے پاس ایسی کوئی ایک مثال بھی ہے؟ پاکستان کی قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں کوئی ایک رکنِ اسمبلی بھی ایسا پایا جاتا ہے جس کی والدہ لابھ سنگھ کی والدہ کی مانند محنت کش اور غریب ہو؟ کیا پاکستان کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں کوئی ایک ایسا رکن بھی موجود ہے جو لابھ سنگھ ایسا غریب فیملی بیک گراؤنڈ رکھتا ہو؟ یقیناً کوئی ایک بھی نہیں۔ ہماری ایک بھی سیاسی اور مذہبی جماعت ایسی فخریہ مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

ہماری "جمہوریت" کا حال تو یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان سیکڑوں کنالوں کے محلات میں رہتے ہیں۔ وہ غریبوں، محنت کشوں اور اُن کے بیٹوں کو اپنے برابر کیوں بٹھائیں گے؟ پھر ہماری جمہوریت اور سیاسی قائدین کا کوئی احترام سے نام کیوں اور کیسے لے؟ حالانکہ بنیادی اخلاقی تقاضا تو یہ ہے کہ لابھ سنگھ والی مثال ہمارے معاشرے سے اُٹھنی چاہیے تھی۔ مگر؟ ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ/ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے۔

Check Also

Siyasi Adam Istehkam Ka Bayaniya

By Irfan Siddiqui