عمران خان ترک صدر کی پیروی کر سکتے ہیں؟
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس، نے پاکستان کے چار روزہ دَورے میں دو باتیں بڑی اہم کہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ "دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی کامیابیاں مثالی اور غیر معمولی ہیں " اور دوسری یہ کہ "پاکستان کا دہشتگردی کے عفریت سے نجات حاصل کر کے سیاحت کی طرف سفر کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
اسلام آباد جو چند سال قبل کسی قلعے کی مانند لگتا تھا، آج اِسے اقوامِ متحدہ کے اسٹاف کے لیے فیملی اسٹیشن قرار دے دیا گیا ہے۔" پاکستان کے حق میں جناب انتونیو گوتریس کے ان الفاظ کی بازگشت ساری دُنیا میں سنائی دی گئی ہے۔ یقیناً اس کے مثبت نتائج بھی نکلیں گے۔
پُر امن پاکستان عالمی سیاحوں کے لیے حقیقی جنت ہے۔ ایک غیر ملکی جریدے (سی این ٹریولر) نے پاکستان کو 2020 کا بہترین عالمی سیاحتی مقام قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم جناب عمران خان کی بھی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ عالمی سیاحوں کی توجہ پاکستان کی طرف موڑی جا سکے۔ ہر عالمی فورم پر عمران خان صاحب پاکستانی سیاحت کی تبلیغ کرتے سنائی دیتے ہیں۔
وزیر اعظم کے دوست اور سیاحت کے لیے اہم صوبے (خیبرپختوخوا) کے سنیئرصوبائی وزیر بھی کہہ چکے ہیں : "حکومت کی اولین ترجیحات میں سیکیورٹی، ویزے کے مسائل حل کرنا اور سیاحت کے لیے بنیادی انفرااسٹرکچر کا قیام ہیں۔ سیاحوں کو ملک میں آمد پر ویزے کی سہولت دی جا رہی ہے۔ غیر ملکی شہریوں کو صرف حساس سرحدی علاقوں میں جانے کے لیے این او سی درکار ہوتے ہیں۔ حکومت نے حال ہی میں 14نئے سیاحتی مقامات کے قیام کی منظوری دی ہے۔ چار نئے سیاحتی زونز بھی بنائے جا رہے ہیں۔" ہمارے دشمن بھی مگر تاک میں ہیں کہ پاکستان کو عالمی سیاحوں کی نگاہوں کا مرکز نہ بننے دیا جائے۔
پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں جب برطانوی شہزادہ ولیم اور اُن کی اہلیہ، کیٹ میڈلٹن، پانچ روز کے لیے پاکستان کی سیاحت پر آئے اور اُن کا جس شاندار انداز میں سواگت کیا گیا، اس نے بھی دُنیا بھر میں پاکستان کا مثبت امیج اجاگر کرنے میں خاصی معاونت کی۔ اس برطانوی شاہی جوڑی نے اسلام آباد، لاہور اور چترال میں گز ارے ایام سے جس اسلوب میں لطف اُٹھایا، اس کا پیغام بھی دُنیا بھر میں پہنچا۔ شہزادہ ولیم اور کیٹ میڈلٹن کا یہ دَورہ اس لیے بھی ہمارے لیے اہم ترین تھا کہ ٹھیک 13 سال بعد کسی برطانوی شاہی جوڑے نے پاکستان میں قدم رکھا تھا۔ اس سے پہلے شہزادہ چارلس اور اُن کی اہلیہ، کمیلا پارکر، نے 2006 میں پاکستان کا دَورہ کیا تھا۔
شہزادہ ولیم اور کیٹ میڈلٹن نے اپنے انٹرویوز میں بھی کھلے دل سے تسلیم کیا کہ پاکستان پُر امن ملک ہے اور یہ کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات تو عالمی سیاحوں کے لیے بانہیں کھولے ہُوئے ہیں۔ اب فروری2020کے وسط میں جس والہانہ اندازمیں برطانوی شہزادی بیٹرس، اسپین کے سابق وزیر اعظم جوز ماریا آزنر اور اٹلی کے سابق وزیر اعظم میٹیو رینزی پاکستان کی سیر کو آئے ہیں تو یہ دراصل برطانوی شہزداہ ولیم اور اُن کی اہلیہ کیٹ میڈلٹن کے دَورئہ پاکستان کے حق میں دیے گئے پیغامات کا نتیجہ ہے۔
اچھا ہُوا کہ ان تینوں معزز عالمی سیاحوں کا استقبال وزیر اعظم کے مشیرِ خصوصی برائے اوورسیز پاکستانیز، سید ذوالفقار بخاری، نے کیا۔ جناب وزیر اعظم نے اُن کے ساتھ چائے بھی پی۔ بتایا گیا ہے کہ یہ تینوں عالمی شہرت کے حامل سیاح درحقیقت پاکستان میں اسکائی ٹرپ (Ski Trip) پر آئے تھے۔ معروف امریکی گلوکار مائیکل جیکسن کے بھتیجے، جعفر جیکسن، نے بھی پاکستان کی مہمان نوازی کی خوب تعریف کی ہے۔
بھارت اگر 2019 میں صرف "تاج محل" دیکھنے والے غیر ملکی70 لاکھ سیاحوں سے 200 کروڑ روپے کما سکتا ہے تو پاکستان ایسا کارنامہ کیوں انجام نہیں دے سکتا؟ خدا کا شکر ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور وزیر اعظم عمران خان کی کوششوں سے دربارکرتار پور صاحب کو ایک بے نظیر شکل دی گئی ہے۔ اس کا شہرہ دُنیا میں سنائی دے رہا ہے۔ عالمی سکھ کمیونٹی پاکستان کی ستائش کر رہی ہے۔ گزشتہ روز یو این سیکریٹری جنرل، انتونیو گوتریس، بھی وہاں گئے اور پاکستان کی تعریف کی۔ اِسی پیمانے پر اگر صدیوں پرانے کٹاس راج کے مندروں کی طرف بھی توجہ دی جائے تو دُنیا بھر کے ہندو سیاحوں کو ہم اپنی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔
دربار کرتار پور صاحب اور کٹاس راج کے منادر کے بارے میں سلیم بیگ صاحب (جب وہ "ڈیمپ" کے ڈی جی تھے) کی بنائی گئی بے مثل ویڈیوز کو اگر دُنیا بھر میں بروئے کار پاکستانی سفارتخانوں کے توسط سے متعارف کروایا جائے تو یہ اقدام بھی عالمی سیاحوں کو پاکستان کی طرف متوجہ کر سکتا ہے۔ بلوچستان کے پہاڑوں اور سندھ کے صحرائی علاقوں میں موجود سیکڑوں سالہ پرانے مندروں کی اگر از سرِ نَو تزئین کی جائے اور وہاں پہنچنے کے لیے اچھی ٹرانسپورٹ و رہائش کے لیے مناسب ہوٹلوں کا بندوبست ہو جائے تو وطنِ عزیز میں لاکھوں غیر ملکی سیاحوں کا تانتا بندھ سکتا ہے۔ یہ مہمات مگر انجام دے کون؟
سیاحت کے میدان میں ہمارے کئی مسلمان برادر ملک جس طرح اربوں ڈالر کما رہے ہیں، ہم ان سے بھی سبق لے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر : ترکی!! پچھلے دنوں عظیم ترک صدر طیب اردوان نے پاکستان کا دو روزہ دَورہ کیا تو وزیر اعظم عمران خان نے اُنکی موجودگی میں خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا: "ہم ترقی کے لیے ترکی سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔" بہت کچھ تو چھوڑئیے، اگر ہم ترکی سے سیاحت کے میدان ہی میں سبق سیکھ لیں تو بڑی بات ہو گی۔
9 فروری2020 کو ترک نیوز ایجنسی "اناطولیہ" نے یہ حیرت انگیز خبر دی کہ پچھلے سال (2019میں ) 5 کروڑ عالمی سیاح ترکی آئے تھے اور ترکی نے ان سے 35 ارب ڈالر کمائے۔ معروف ترک اخبار "حریت" کا کہنا ہے کہ جناب طیب اردوان کی حکومت کا ٹارگٹ یہ ہے کہ 2020میں ترکی میں 5 کروڑ 70 لاکھ عالمی سیاحوں کو سہولت دی جائے گی۔ کیا جناب عمران خان اس میدان میں طیب اردوان کے نقشِ قدم پر چل سکتے ہیں؟ ؟