عمران خان ریلیف فنڈ اور برطانوی پاکستانی مسلمان
تقریباً ایک ہفتہ قبل وزیر اعظم جناب عمران خان نے کورونا وائرس کے حوالے سے پیدا ہونے والے نئے اور سنگین مسائل کے متنوع موضوعات پر اسلام آباد میں چند اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہُوئے جہاں حسبِ معمول ملک کی پتلی معاشی حالت کا ذکر کیا، وہیں یہ بھی اعلان کیا تھا کہ وہ کورونا وائرس کے متاثرین کی دستگیری کے لیے ایک خصوصی ریلیف فنڈ قائم کررہے ہیں۔
وزیر اعظم قوم سے اپنے تازہ خطاب میں اب اس فنڈ کا قیام بھی عمل میں لاچکے ہیں۔ انھوں نے کوروناوائرس آزمائش کے جاری لمحات میں قوم سے اپیل کی ہے کہ وہ بڑھ چڑھ کر اس فنڈ میں عطیات دیں۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ ہم سب اُن کی آواز پر لبیک کہیں گے لیکن ہم یہ بھی اُمید رکھتے ہیں کہ خانصاحب خود، اُن کی کابینہ کے ارکان اور آس پاس موجود انتہائی دولتمند افراد بھی ایثار سے کام لیتے ہُوئے اس فنڈ میں فوری طور پر نمایاں ترین حصہ ڈالیں گے۔
عمران خان کے عظیم دوست ترک صدر، جناب طیب اردوان، نے بھی کورونا وائرس کے متاثرین ترک شہریوں کی امداد کے لیے ایک فنڈ قائم کیا ہے تو سب سے پہلے اپنی 7تنخواہیں اس فنڈ کو عطیہ کی ہیں۔ اس کے بعد اُن کے وزراء نے بھی کئی کئی ماہ کی تنخواہیں اس فنڈ میں دی ہیں۔ یہ انتہائی اعلیٰ مثال ہے۔ ہم سب پاکستانی پی ٹی آئی کی حکومت کے اعلیٰ وابستگان سے بھی ایسی ہی قابلِ فخر مثال قائم کیے جانے کی توقع رکھتے ہیں۔
برطانیہ میں مقیم کئی پاکستانی خاصے خوشحال اور متمول ہیں۔ یہ برطانوی عوام اور خصوصاً برطانوی مسلمانوں کی بھی خدمت کررہے ہیں اور برطانوی حکومت سے بھی خوب تعاون کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جس روز عمران خان نے مذکورہ فنڈ قائم کرنے کا ذکر کیا، اُسی روز برطانیہ میں بسنے والے پاکستانی نژاد باکسر (عامر خان)کی طرف سے ایک خوش کن اعلان سامنے آیا۔
عامر خان نے بیان دیا :" برطانیہ میں کورونا وائرس کے مریض بڑھ رہے ہیں۔ اسپتالوں میں جگہ کم پڑ رہی ہے ؛ چنانچہ مَیں برطانیہ میں 60ہزار مربع فٹ پر کھڑی اپنی چار منزلہ ملکیتی عمارت برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروسز (NHS) کو دینے کے لیے تیار ہُوں تاکہ کورونا متاثرین کی طبّی مدد کی جا سکے۔" اگرچہ "این ایچ ایس" نے ابھی یہ پیشکش قبول نہیں کی ہے لیکن سرکاری طور پر باکسر عامر خان کا بہت شکریہ ادا کیا ہے۔ عامر خان باکسر نے کورونا وائرس کے پاکستانی متاثرین کی مدد کے لیے بھی مبینہ طور پر 4کروڑ روپے عطیہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ایسے میں ہم بجا طور پر دیگر پاکستانی نژاد برطانوی مسلمانوں سے بھی توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ وزیر اعظم عمران خان کے فنڈ کو نظر انداز نہیں کریں گے۔
برطانیہ میں بروئے کار دو مسلمان فلاحی اداروں کی طرف سے بھی اِسی ضمن میں حوصلہ افزا اعلانات سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک " مسلم ہینڈز " کے نام سے معروف ہے اور دوسرا " المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ" کے زیر عنوان خدمات انجام دے رہا ہے۔ دونوں فلاحی اداروں کے سربراہان اور بانیان پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان ہیں۔ اوّل الذکر کے بانی سید لختِ حسنین اور ثانی الذکر کی اساس رکھنے والے عبد الرزاق ساجد ہیں۔
لخت حسنین صاحب نے بیرونِ ملک کے علاوہ پاکستان میں بھی تہی دستوں کی مالی فلاح اور مفت تعلیم پھیلانے کے میدان میں کئی ادارے قائم کررکھے ہیں جب کہ عبدالرزاق ساجد کا فلاحی ادارہ میانمار اور بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی اب تک ہزاروں مستحق افراد کے لیے آنکھوں کی نئی روشنی کا پیغام بنا ہے۔ ابھی حال ہی میں رزاق صاحب نے لندن میں بہت سے ڈونرز کی موجودگی میں یہ فخریہ اعلان کیا ہے کہ انھوں نے پاکستان میں ایک لاکھ غریب اور مستحق افراد کی آنکھوں کے کامیاب اور مفت آپریشن کرنے کا ٹارگٹ حاصل کر لیا ہے۔ الحمد للہ۔
"المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ " کے چیئرمین تو کاکسز بازار ( بنگلہ دیش ) کے مختلف کیمپوں میں بے یارومددگار پڑے روہنگیا مسلمانوں تک راشن پہنچانے کا آپریشن شروع بھی کر چکے ہیں۔ وہ اپنے ساتھیوں اور والنٹیئرز کے ساتھ برطانیہ کے مختلف شہروں ( خصوصاً لندن میں ) آن کال درخواست پر کھانے پینے کی اشیائے ضروریہ ضرورتمندوں تک مفت پہنچا رہے ہیں۔
راقم نے ایک ویڈیو کلپ میں خود دیکھا ہے کہ عبدالرزاق ساجد کے خواتین و حضرات ساتھی خورونوش کے تھیلے مختلف لوگوں کے گھروں کی دہلیز پر رکھتے ہیں اور پھر دروازے پر دستک دے کر چند فٹ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ گھر والے دروازہ کھولتے ہیں تو دہلیز پر رکھی انتہائی ضرورت کی چیزیں دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ کورونا وائرس کی قیامت میں گھری انسانیت کی خدمت بھی ہورہی ہے اور خاموشی سے دینِ اسلام کا پیغام بھی پہنچ رہا ہے۔
عبدالرزاق ساجد نے مجھے بتایا کہ وہ لندن میں خاص طور پر اُن افراد تک خوراک کے تھیلے لے کر تیزی سے پہنچ رہے ہیں جو بے گھر اوربے روزگار ہیں، جو معذور بھی ہیں اور ضعیف العمر بھی۔ لاہور شہرمیں بھی ریلیف کے لیے اُن کے متعدد آپریشن شروع ہو چکے ہیں۔ وہ پکا پکایا کھانا بھی فراہم کررہے ہیں اور خشک راشن بھی۔ غزہ ( فلسطین) اور ترکی میں شامی مہاجرین کے کیمپوں میں بھی "المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ"کے کارکنان امداد پہنچانے میں سرگرم ہو چکے ہیں۔
ہم اُمید کرتے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان کے قائم کردہ فنڈ میں تمام سمندر پار پاکستانی جوق در جوق حصہ لیں گے۔ وطنِ عزیز میں مگر اس فنڈ میں حصہ لینے والوں کی رفتار اور تعداد فی الحال سست اور کم ہے۔ سستی اور نیم دِلی حکومت کی طرف سے بھی ہے۔
"ایکسپریس نیوز" کے پروگرام"ایکسپرٹس" میں شریک ایک سینئر تجزیہ کار نے بھی گزشتہ روز یہ بات کہی ہے کہ کورونا وائرس کے انسداد کے حوالے سے حکومت نیم دِلی سے کام کررہی ہے۔ خان صاحب کے قائم کردہ فنڈ میں حصہ لیتے ہُوئے شائد لوگ بھی متردد ہیں۔ اس کی وجہ کہیں ماضی میں قائم کیے گئے " قرض اتارو، ملک سنوارو" اور " ڈیم کی تعمیر " کے حوالے سے قائم کیے گئے فنڈز میں عوام کو پہنچنے والے پے بہ پے دھچکے اور صدمے تو نہیں ہیں؟ اس صدمے کا احساس شائد وزیر اعظم کے ذہن میں بھی موجود ہے۔ اِسی لیے انھوں نے یقین پیدا کرنے کے لیے یہ بھی کہا ہے کہ اس فنڈ کا صحیح استعمال بھی ہوگا اور بعد ازاں اس کا آڈٹ بھی کیا جائے گا۔ اللہ کرے ہمارے عوام خانصاحب کے اس بیان پر یقین بھی کرلیں۔