فالس فلیگ آپریشن اور ٹارچر سنگھ
26 جنوری2020کو، ہر سال کی طرح، بھارت اپنا "یومِ جمہوریہ" منارہا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اِس بار بھارت اپنے یومِ جمہوریہ والے دن یا اس سے پہلے پاکستان کے خلاف کوئی واردات ڈالنا چاہتا ہے۔ بھارتی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں تواتر سے یہ مذموم خبریں اور تبصرے نشر ہو رہے ہیں کہ "عین ممکن ہے 26 جنوری کو یا بھارتی یومِ جمہوریہ کے انعقاد سے قبل ہی پاکستان کی طرف سے بھارت پر کوئی "دہشتگردانہ" حملہ کر دیا جائے۔" اس بھارتی پروپیگنڈے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے جعلی بھارتی بیانیے کا مقصد مگر کیا ہے؟ اندازہ ہے کہ یہ جھوٹی اور بے بنیاد خبریں چلا کر بھارتی اسٹیبلشمنٹ، بھارتی خفیہ ادارے اور آر ایس ایس کی پاکستان دشمن چھتری تلے کام کرنے والے بھارتی طاقتور سیاسی گروہ پاکستان کے خلاف کسی "فالس فلیگ آپریشن" کی راہ ہموار کررہے ہیں۔
بھارت اگر ایسی احمقانہ حرکت کریگا تومنہ کی کھائے گا۔ اُسے انڈین ائر فورس کے پائلٹ، ابھی نندن، کا انجام ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے۔ بھارت دراصل اسرائیل کے نقشِ قدم پر چلتے ہُوئے پاکستان کے خلاف "فالس فلیگ آپریشن" کے منصوبے بنا رہا ہے۔ اسرائیل نے 1954 میں مصر کے خلاف اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے "فالس فلیگ آپریشن" کیا توسہی لیکن سخت نقصان بھی اُٹھایا تھا۔ اس آپریشن کے نتیجے میں دونوں ممالک کے درمیان خونی تصادم کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔"فالس فلیگ آپریشن" میں اسرائیل نے مصر کے آٹھ یہودی شہریوں کو استعمال کیا تھا۔ یہ یہودی گرفتار بھی ہُوئے اور بعدازاں ان میں سے دو کو قاہرہ میں پھانسی بھی دی گئی۔
انتقام لینے کے لیے اسرائیل نے مصر کے39 شہریوں کو شہید کر دیا تھا۔ یوں اسرائیل اور مصر کے درمیان ایک طویل المدتی کشیدگی کا خونی آغاز ہُوا جس نے مشرقِ وسطیٰ کے کئی دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ تو کیا بھارت بھی پاکستان کے خلاف کوئی "فالس فلیگ آپریشن" کا اقدام کرکے پورے جنوبی ایشیا کا امن تباہ کرنا چاہتا ہے؟
حال ہی میں ریٹائر ہونے والے بھارتی آرمی چیف (بپن راوت) بھی پاکستان کے خلاف ایسے آپریشن کی زہر افشانیاں کرتے رہے ہیں اور اب نئے انڈین آرمی چیف، جنرل مکند نروانے، بھی آتے ہی پاکستان کے خلاف گیدڑ بھبکیاں دے رہے ہیں۔ نہ بپن راوت اپنے عزائم میں کامیاب ہُوئے تھے اور نہ ہی یہ نروانے "صاحب" کامیاب ہوں گے۔
انشاء اللہ۔ افواجِ پاکستان نے جنرل نروانے کی دھمکیوں کا جو ترنت جواب دیا ہے، اُمید ہے بھارتی افواج اور نریندر مودی تک یہ پیغام پہنچ گیا ہوگا۔ اس کے باوجود ہمیں بھارتی شیطنت پر نظر رکھنا ہوگی۔ بھارت نے پہلے 5 اگست 2019ء کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اور پھر بھارتی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین (CAAاورNRC) بنا کر جس طوفان، عوامی ناراضی اور بغاوت کو از خود دعوت دی ہے، وہ اب شعلہ جوالہ بن چکی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ سارا بھارت وزیر اعظم اور مقتدر بی جے پی کی انسانیت دشمن پالیسیوں کے کارن جل رہا ہے تو ایسا دعویٰ بے جا نہیں ہوگا۔ یہ آگ درحقیقت بھارتی وزیر اعظم کے عزائم کی شکست ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں دلبرداشتہ اور شکست خوردہ ہیں۔ انھیں اور اُن کے تشدد پسند و متعصب حواریوں کو اس شدید ردِ عمل کی قطعی توقع نہیں تھی۔
ظاہر ہے نریندر مودی اور اُن کے جملہ صلاح کار (دراصل مفسدین) چاہیں گے کہ بھارت کے اندر پھوٹ پڑنے والی اس عوامی بغاوت اور طیش کو کسی بھی صورت میں فرو کیا جائے۔ بھارتی عوام کے جذبات کا رُخ موڑنے اور اپنا سیاسی اُلو سیدھا کرنے کاآسان طریقہ یہی ہے کہ بھارت کوئی بہانہ بنا کر، فالس فلیگ آپریشن کی شکل میں، پاکستان کے خلاف ہلہ بول دے۔ اِسی سلسلے میں ایک بہانہ تراشنے کی کوشش کی بھی جا چکی ہے۔ لیکن یہ کوشش اپنی خام منصوبہ بندی کی اساس پر ناکام ہو گئی۔ پاکستان کے خلاف یہ سازش 11جنوری 2020 کو بے نقاب ہُوئی۔ اُس روز (مقبوضہ) جموں و کشمیر پولیس کے ایک ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس آفیسر، دیوندر سنگھ، رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔
موصوف دو کشمیری نوجوانوں (رفیع راٹھور اورنوید مشتاق) کو اپنی ذاتی گاڑی میں بٹھا کر سری نگر سے جموں منتقل کر رہے تھے۔ یہ انتہائی مشکوک آپریشن تھا۔ مخبری ہونے پر دیوندر سنگھ کے خلاف ناکے لگائے گئے۔ اس آپریشن کی نگرانی خود مقبوضہ کشمیر کے آئی جی پولیس، وجے کمار، کررہے تھے۔ پاکستانی میڈیا میں بھی اس بارے کچھ خبریں شایع ہو چکی ہیں، لیکن اس بارے جو تفصیلی رپورٹ 16جنوری 2020کو ایک بھارتی اخبار کی انویسٹی گیشن رپورٹر، انورادھا بھسین جموال، نے شایع کی ہے، وہ بہت انکشاف خیز ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دیوندر سنگھ کسی اعلیٰ ترین بھارتی اتھارٹی کی ایما پر دونوں مذکورہ مشکوک کشمیریوں کو اپنے ساتھ لے جارہے تھے تاکہ اُن سے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے "کچھ کام" کروائے جا سکیں۔ اور یوں ان "کاموں " کے بہانے پاکستان کے خلاف فالس فلیگ اسٹرائیک کی راہ ہموار کی جا سکے۔
بھارتی صحافی، انورادھا بھسین جموال، اپنی انکشاف خیز رپورٹ میں لکھتی ہیں کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ، دیوندرسنگھ، ایک جرائم پیشہ پولیس آفیسر ہے۔ اغوا کاری، بھتہ خوری، دہشتگردوں سے تعلقات اور ماورائے عدالت قتل کرنا اُس کا مشغلہ ہے۔ اُس نے 1990میں دورانِ ٹریننگ ہی منشیات اسمگلنگ کے کاروبار میں حصہ لیا تھا اور پھر دھر بھی لیا گیا تھا۔
مقبوضہ جموں و کشمیر کی سول سوسائٹی کی تیار کردہ رپورٹ Structure Of Violence کے مطابق دیوندر سنگھ نے اپنے چار پولیس اہلکاروں کے ساتھ جون2000 میں ممتاز کشمیری رہنما اور کاروباری شخصیت، اعجاز احمد بزاز، کو اغوا کیا اور پھر بھیس بدل کر مغوی بزاز کے خاندان والوں سے بھاری رقم بٹورنے کی کوشش کی۔ اور جب اُسے مطلوبہ رقم نہ ملی تو اُس نے مغوی اعجاز احمد بزاز کو تشدد کر کے قتل کر دیا تھا۔ بعد ازاں پریس کانفرنس کر کے کہا گیا کہ بزاز پولیس مقابلے میں مارا گیا ہے۔ تشدد اور ٹارچر دیوندر سنگھ کی عادتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ اِسی وجہ سے اُسے مقبوضہ کشمیر کی پولیس میں "ٹارچر سنگھ" کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ دیوندر سنگھ عرف ٹارچر سنگھ (جواب بھارتی تحقیقاتی ادارےNIAکی تحویل میں ہے) بار بار بھیانک جرائم کے ارتکاب کے باوجود کیوں گرفتار کیا جا سکا نہ اُس کے خلاف کوئی محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جا سکی؟ معلوم ہُوا ہے کہ اُسے ابتدا ہی سے مقبوضہ کشمیر میں متعین اعلیٰ ترین ہندو پولیس افسروں کی آشیرواد حاصل رہی ہے۔ وہی اُسے بار بار " معاف" کرتے رہے۔ ان اعلیٰ ترین پولیس افسروں میں ڈائریکٹر جنرل پولیس کے راجندر اور ایس پی وید کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ یہ سرپرستی دانستہ تھی کہ دیوندر سنگھ مقبوضہ کشمیر میں آزادی پسند کشمیری نوجوانوں کے خلاف متعدد وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔ یوں اُس کے جرائم سے صرفِ نظر کی جاتی رہی۔ کہا گیا ہے کہ یہ دیوندر سنگھ ہی تھا۔
جس نے ممتاز کشمیری رہنما، افضل گرو، کے خلاف جھوٹے الزامات تیار کیے اور آخر کار افضل گرو کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا۔ افضل گرو نے اپنی اہلیہ محترمہ (تبسم)کو پھانسی سے قبل جو خفیہ دو خط لکھے، اُن میں کہا گیا تھا کہ دیوندر سنگھ نے ایک خفیہ جگہ پر اُن پر سخت تشدد کیا تھا اور انھیں بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کرنے پر اکسایا تھا۔ افضل گرو کی ظالمانہ اور بہیمانہ پھانسی پر مشہور بھارتی دانشور، ارُن دھتی رائے، نے لکھا تھا کہ افضل گرو کی شہادت بھارتی جمہوریت پر ایسا دھبہ ہے جسے کئی برساتوں سے بھی نہیں دھویا جا سکتا۔ اور اب 26جنوری سے پہلے پہلے پاکستان کے خلاف فالس فلیگ آپریشن کی بھارتی سازش میں یہی دیوندر سنگھ بروئے کار آنے والا تھا لیکن قسمت نے یاوری نہیں کی۔