عیدالاضحی پر چند پیارے مرحومین کا تذکرہ
عید ہو یا شبِ بارات، ہر خوشی اور مسرت کے موقعے پر اپنی وہ پیاری اور محترم ہستیاں ضرور یاد آتی ہیں جو پچھلی عید کے موقعے پر ہمارے ساتھ تھیں لیکن اب عدم آباد جا چکی ہیں۔ عیدین کے موقع پر اُن کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
پچھلی بار یہی عیدالاضحی کے گرم اور حبس آلود ایام تھے جب میرے بہت عزیز اور پیارے دوست کامریڈ عنایت نے بڑی اپنایت کے ساتھ اپنے گھر میں مجھے مدعو کیا تھا۔ اُن کا پورا اسمِ گرامی میاں عنایت اللہ تھالیکن شہر اور تحصیل بھر میں کامریڈ عنایت کے نام سے معروف تھے۔ اپنی درویشی، سادہ مزاجی اور بے لوثی کے کارن یہ خطاب اُن کے نام کا جزوِ ناگزیر بن چکا تھا۔
کامریڈ عنایت ذوالفقارعلی بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور اب بلاول بھٹو زرداری کے سچے جیالے تھے۔ پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کی محبت میں کئی بار جیل یاترا بھی کی، تشدد بھی برداشت کیا لیکن بھٹوز کی محبت سے دستکش نہ ہُوئے۔ ظاہری اور باطنی، دونوں معنوں میں سچے کامریڈ۔ مزدوری پیشہ کامریڈ ہمارے چھوٹے سے شہر میں اخبارفروش تھے۔ کئی اخباروں کی ایجنسیاں اُن کے پاس تھیں۔ جوان تھے تو خود سائیکل پر سارے شہر، ارد گرد کے دیہاتوں اور قصبات میں اخبارات تقسیم کرنے جاتے۔
سالخوردہ ہُوئے تو چند جوان ملازم رکھ لیے۔ یوں کامریڈ عنایت کے نام اور محنت کا غلغلہ ساری تحصیل میں تھا۔ مجھے نہیں معلوم کب اُن سے میری دوستی اور محبت کا آغاز ہُوا۔ شاید اخبارات، جرائد اور کتابوں کی معرفت۔ کچہری تحصیل کے بالمقابل ایک چھوٹاسا ٹھیہ لگا رکھا تھا۔ مجھے جب کبھی اپنے آبائی شہر جانا ہوتا، سرما و گرما میں، میر ا صبح کا ٹھکانہ کامریڈ عنایت کے اسی ٹھیئے پر ہوتا جس کے سامنے ایک بَد رَو بہتی تھی۔ گھنٹوں وہیں گزر جاتے۔ وہیں میرے سب صحافی اور وکیل دوست آتے اور حیرت سے مجھے کہتے: یار، تم اس بد رَوکنارے بیٹھ کر کیسے کئی کئی گھنٹے گزار لیتے ہو؟ یہ باتیں کامریڈ عنایت صاحب بھی سنتے اور ہنس دیتے۔
سامنے کے ریستوران سے اپنی نگرانی میں بنائی مزیدار چائے کی چسکی لیتے اور بلند آواز سے کہتے: تنویر صاحب کی اس محبت پر مجھے بھی حیرانی ہوتی ہے۔ وہ دوپہر کا کھانا تناول کررہے تھے کہ پیغامِ اجل آگیا۔ دل کا دَورہ اسقدر شدید تھا کہ موت کے فرشتے نے روٹی کا لُقمہ بھی چبانے کا موقع نہ دیا۔ دکھ اس بات کا ہے کہ کامریڈ کے جنازے کو کندھا بھی نہ دے سکا۔ اُن کے صاحبزادے، میاں اظہر عنایت، سے فون پر دل کا غبار ہلکا تو کرلیا تھا لیکن بہت سا غبار بادل بن کر اب تک دل پر چھایا ہُوا ہے۔
دل پر چھائی اس غبارآلود فضا میں پروفیسر مدثر حسن قاسمی صاحب بھی بے طرح یاد آ رہے ہیں۔ کورونا کا مسموم موسم انھیں کھا گیا۔ ہمہ دَم مسکراتے چہرے کے ساتھ، نہایت شریف النفس اور شائستہ مزاج پروفیسر مدثر حسن قاسمی صاحب سے لاتعداد ملاقاتیں رہیں۔ وہ لاہور میں نہیں چنیوٹ میں رہتے تھے جہاں کے ایک سرکاری کالج میں آپ عربی زبان و ادب کے پروفیسر تھے۔ چونکہ ادب نوازی کے ساتھ آرٹسٹ مزاج بھی تھے، اس لیے اکثر چنیوٹ سے پی ٹی وی لاہور آتے رہتے تھے۔
پی ٹی وی پر ہی اُن سے پہلی ملاقات ہُوئی تھی۔ پی ٹی وی کے کئی ڈراموں میں نہایت اچھے کردار ادا کیے۔ خود بھی ڈرامے پروڈیوس کرنے کی طرف متوجہ ہُوئے۔ بہت سا پیسہ انویسٹ کر دیا۔ پھر ان سیریل ڈراموں کو ایک نجی ٹی وی پر چلانے کے لیے ایک معروف "ٹھیکیدار" سے سودا کیا۔ وہ مدثر قاسمی صاحب کے لاکھوں روپے بھی کھا گیا اور ڈرامے بھی۔ افسوس، بسیار کوشش کے باوجود مَیں نہ اُن کے پیسے واپس دلا سکا اور نہ ہی اُن کے ڈرامے۔ ایک روز جب انھوں نے مجھے بتایا کہ معروف دانشور، صوفی اور فلسفی، جعفر قاسمی صاحب، اُن کے والدِ گرامی ہیں تو مدثر صاحب سے محبت و عقیدت دو چند ہو گئی۔
انھوں نے اپنے عظیم اور ذہین والد صاحب کے لکھے گئے درجن بھرمضامین یکجا کرکے "محشرِخیال" کے نام سے ایک نہایت خوبصورت کتاب بھی شایع کی تھی۔"ایکسپریس" کے انھی صفحات پر مجھے اس ذہن کشا تصنیف کا ریویو لکھنے کا اعزاز بھی ملا۔ چند سال پہلے مَیں شدید بیمار پڑا توراولپنڈی کے ایک اسپتال میں میری عیادت کرنے تشریف لائے۔ اُن کے ساتھ اُن کی صاحبزادی بھی تھیں۔ مدثر حسن قاسمی صاحب کی شخصیت اور چہرہ یاد آ رہا ہے اور دل بہت اداس ہے۔ کوئی ایک ماہ پہلے کورونا کا وائرس اس وحشت سے اُن پر حملہ آور ہُوا کہ جان ہی لے کر ٹلا۔
اِنہی ایام میں ہماری معروف اور اعلیٰ ماہر تعلیم، محترمہ زہرہ خاتون چوہدری، انتقال کر گئیں۔ اُن کی عمر82سال تھی۔ دل کا حملہ اتنا کارگر تھا کہ جانبر نہ ہو سکیں۔ اپنے بیٹے کے ہاتھوں میں جان دے دی۔ بلا مبالغہ زہرہ خاتون چوہدری نے سیکڑوں نہیں، ہزاروں نہیں، لاکھوں بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔ وہ خود ایک مہذب، نیک اور اعلیٰ تربیت یافتہ خاتون تھیں، اس لیے بطورِ ماہر تعلیم جہاں تشریف لے گئیں، بطورِ ہیڈ مسٹریس و پرنسپل جہاں بھی تعینات ہُوئیں، اپنی زیر نگرانی بچیوں کی اخلاقی تربیت کی طرف خصوصی توجہ مرکوز رکھتیں۔
انھوں نے اپنے زیر نگیں ہر اسکول میں بچیوں کو نیکی اور اسلامی تہذیب کا خاص درس دیا۔ اُن سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے والی قوم کی لاتعداد بیٹیاں آج اپنے پاؤں پر کھڑی ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں بروئے کار ہو کر باعزت روزی کما رہی ہیں۔ میری دونوں ہمشیرگان نے محترمہ زہرہ خاتون چوہدری سے تعلیم و تربیت حاصل کی اور محکمہ تعلیم سے وابستہ ہو کر اپنے خاندان اور بچوں کی کفالت کے قابل ہُوئیں۔ زہرہ خاتون ہمارے پس ماندہ اور غریب خطے میں روشنی اور اُمید کی ایک دمکتی کرن تھیں۔
انھوں نے اپنے زیر تعلیم ہزاروں بچیوں کو سکھایا کہ جس طرح مَیں نے نہایت نامساعد حالات میں تعلیم حاصل کی اور آج بہت سوں کے لیے روشنی کا مینارہ اور استعارہ ہُوں، اِسی طرح آپ بھی وطنِ عزیز کا بیش بہا سرمایہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ زہرہ خاتون اس لحاظ سے بھی خوش قسمت تھیں کہ اُن کے والد گرامی (عبدالحمید چوہدری) بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، اُن کے سسر ( حاجی فضل دین چوہدری) بھی اور اُن کے شوہر محمد افضل چوہدری ایڈووکیٹ بھی۔
محمد افضل ایڈووکیٹ کچھ عرصہ کے لیے رکن پنجاب اسمبلی بھی رہے۔ وہ1988ء میں صرف 45سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اُن کی غیر موجودگی میں زہرہ خاتون چوہدری نے تنِ تنہا اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم بھی دلوائی اور احسن اسلوب میں اُن کی گھر گرہستی کا اہتمام بھی کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ نہایت فیاضی کے ساتھ بہت سے تہی دستوں کی دستگیری کرتی رہیں۔ اُن کا بیٹا، عتیق چوہدری، بینک افسر ہے اور ایک بیٹی والدہ صاحبہ کے نقشِ قدم پر چل کر ماہر تعلیم بن چکی ہیں۔ محترمہ زہرہ خاتون چوہدری کا فیض ِ علم تا قیامت جاری رہے گا۔ انشاء اللہ۔ ہم سب اُن کی مغفرت کے لیے دعا گو ہیں۔