ڈاکٹر ذاکر نائیک، حدما اور بھارتی خوف
جھوٹے اور ایڑھی پر گھوم جانے والے کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی۔ جھوٹا مگر بلا کا ڈھیٹ بھی ہوتا ہے۔ اپنے مقاصد اور طے کردہ اہداف کے حصول کے لیے جھوٹا شخص ہر کام کر گزرتا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور اُن کے آزو بازو میں فروکش منڈلی میں یہ خصائص بدرجہ اتم موجود ہیں۔ اس منڈلی نے حال ہی میں بھارت کے ممتاز عالمِ دین اور عالمی شہرت یافتہ مبلّغِ اسلام، ڈاکٹر ذاکر نائیک، کو جو پیشکش کی ہے، اس نے ثابت کیا ہے کہ مودی اور اُن کے چند ایک قریبی ساتھیوں کا اوڑھنا بچھونا دھوکہ دہی اور جھوٹ ہے۔
اس پیشکش نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مودی نے (مقبوضہ) کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بارے بھارتی آئین میں درج شِق 370 کو ختم کر کے درحقیقت ایک بہت بڑا فراڈ بھی کیا اور بھارتی عوام سے جھوٹ بھی بولا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم، بھارتی ہندوتوا اور انڈین اسٹیبلشمنٹ کے جھوٹوں کا براہِ راست ہدف بننے والے ڈاکٹر ذاکر نے مگر مودی "جی" کے نئے جال کا شکار بننے سے صاف انکار کر دیا ہے۔
پچھلے کچھ عرصہ سے ڈاکٹر ذاکر نائیک بے بنیاد الزامات کا ہدف بنے ہُوئے ہیں۔ اُن کی بھارت میں غیرموجودگی کے دوران اُن کے خلاف عدالت نے فیصلے بھی سنائے ہیں، اُن کے بینک اکاؤنٹس منجمد ہیں اور ممبئی اور دلّی میں اُن کی جائیدادیں بھی ضبط کی جا چکی ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک بھارت سے نکل کر سعودی عرب چلے گئے۔ وہاں سے وہ ملائیشیا چلے گئے۔ گزشتہ تین برس سے وہ ایک جلاوطن کی حیثیت میں وہیں مقیم اور خاموش ہیں۔ تبلیغِ اسلام کی سرگرمیاں مگر ملائیشیا میں بھی جاری ہیں۔
11جنوری2020 کو مشہور بھارتی ہفت روزہ جریدے THE WEEKنے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بارے میں ایک انکشاف خیز اسٹوری شائع کی ہے جس نے مودی حکومت کے جھوٹوں کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ مفصل خبر میں بتایا گیا ہے کہ نریندر مودی اور بھارتی وزیر داخلہ، امیت شا، نے اپنے چند وچولوں کی معرفت ملائیشیا میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے رابطہ کر کے کئی خفیہ ملاقاتیں کیں۔ ان ملاقاتوں میں ڈاکٹر ذاکر صاحب کا "تعاون" حاصل کرنے کی انتھک کوششیں کی گئیں اور اس "تعاون" کے بدلے میں اُنہیں پیشکش کی گئی کہ اُنکے خلاف قائم کیے گئے تمام مقدمات بھی ختم کر دیے جائیں گے، ضبط شدہ جائیدادیں و منجمد اکاؤنٹس بحال کر دیے جائیں گے اور بھارت واپسی کے لیے اُنہیں "محفوظ راستہ" (Safe Passage) بھی دیا جائے گا۔
اس مہربانی کے بدلے میں مگر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو کرنا کیا ہو گا؟ بھارتی جریدے "دی ویک" نے انکشاف کیا ہے کہ مودی اور امیت شا کی درخواست یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو مقبوضہ کشمیر اور کشمیریوں کے خلاف مودی کے فیصلوں کی حمایت کرنا ہو گی اور آرٹیکل 370 کے خاتمے کے حق میں بیان دینا ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی اس خبر کی تصدیق کر دی ہے اور کہا ہے کہ "مَیں نے مودی، امیت شا اور اُن کا پیغام لانے والوں کو صاف انکار کر دیا ہے۔"
ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب نے یہ بیان بھی دیا ہے :"کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آرٹیکل 370کا خاتمہ ظلم، ناانصافی اور غیر آئینی اقدام ہے۔ کشمیریوں سے دغا کرنے والوں کی مَیں کیسے حمایت کر سکتا ہُوں؟ "۔ اب تو ذاکر صاحب نے ایک مختصر ویڈیو پیغام میں بھی اس خبر کی تصدیق کر دی ہے۔ معلوم نہیں کہ ڈاکٹر ذاکر صاحب کو آیندہ ایام میں اس بیان کی پاداش میں کیسے عذابوں سے گزرنا پڑے گا لیکن فی الحال اس بندئہ خدا نے پامردی اور استقلال کے ساتھ حق، سچ اور مظلوموں کا ساتھ دیا ہے۔
نریندر مودی اور اُن کے دغا باز ساتھیوں (از قسم امیت شا، اجیت ڈوول، راجناتھ سنگھ، یوگی ادیتیہ ناتھ، موہن بھگوت)نے جھوٹ کی اساس پر جس گھناؤنے کھیل کا آغاز کیا تھا، اب وہ ان کے پاؤں کی زنجیر بنتا جا رہا ہے۔ یہ کھیل چاہے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ تھا اور خواہ کروڑوں بھارتی مسلمانوں کے خلاف وضع کیے گئے نئے امتیازی قوانین (CAA اور NRC)۔ یہ اقدامات بھارتی اسٹیبلشمنٹ، مودی حکومت اور متعصب ہندو لیڈروں کے لیے گرداب بن گئے ہیں۔ اور گرداب و بھنور میں گھرنے والوں کا مقدر صرف غرقاب ہونا ہوتا ہے۔
ڈُوب کر معدوم ہونا۔ بھارتی قیادت اس گرداب سے نکلنے کی کوششیں تو بہت کر رہی ہے لیکن کامیابی نہیں مل رہی۔ بھارت کبھی خلجان کا شکار ہو کر اور عالمی اصولوں کو پامال کرتے ہُوئے ایل او سی پر بمباری کر کے ہمارے شہریوں کو شہید اور زخمی کر رہا ہے اور کبھی متنوع سازشیں اور تخریبی کارروائیاں کرتے ہُوئے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ کبھی وہ اپنے نئے آرمی چیف ( مکند نروانے) کی زبانی پاکستان کے خلاف گیدڑ بھبکیاں دیتا ہے۔ ہر جگہ پر اسے منہ کی کھانا پڑ رہی ہے۔ خاص طور پر جب اسے ترنت افواجِ پاکستان کی طرف سے تیاری کا جواب ملتا ہے۔ بھارت کے ہر شہر میں عام بھارتیوں نے جس عزم کے ساتھ مودی کے خلاف بغاوت، للکار اور چنوتیوں کے پرچم بلند کیے ہیں، اس نے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں اُڑا رکھی ہیں۔
ایسے میں نریندر مودی، بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور انڈین سیکیورٹی فورسز پر ایک نیا عذاب نازل ہُوا ہے۔ یہ عذاب بھارتی ریاست "چھتیس گڑھ" کی طرف سے آیا ہے۔ ماؤ نواز نکسالی حدما (Hidma) کی شکل میں۔ تین کروڑ آبادی کی حامل چھتیس گڑھ ریاست میں پچھلی کئی دہائیوں سے علیحدگی کی مسلح تحریکیں چل رہی ہیں۔ درجنوں بار نہیں، سیکڑوں بار دِلّی سے بھجوائی گئی سیکیورٹی فورسز، فوج اور نکسالی و ماؤنواز علیحدگی پسندوں میں خونی تصادم ہو چکے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال سے علیحدگی پسندوں کا سربراہ، پولا سری نواس، بھارت سرکار کے لیے درد سری کا باعث بنا ہُوا تھا۔
انڈین گورنمنٹ اُس کے سر کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے بھی رکھ چکی تھی۔ وسط دسمبر2019میں پولا سری نواس (عرف رمانا) پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ اور اب جنوری 2020کے پہلے ہفتے "حدما" کو اس وسیع و عریض اور نہایت موثر تحریک کا سربراہ بنایا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا ہمیں بتا رہا ہے کہ حدما کئی لحاظ سے پولا سری نواس سے زیادہ جنگجو اور بھارت سے زیادہ نفرت کرنے والا ہے۔ حدما اب تک درجنوں بھارتی سیکیورٹی فورسز کو قتل کر چکا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حدما کے نام سے پورے چھتیس گڑھ میں پولیس اور سیکیورٹی فورسز (خصوصاً CRPF والے) تھر تھر کانپتے ہیں۔
اُسے "سُکما" قبیلے کا "ہارڈ ٹاسک ماسٹر " اور علیحدگی پسندوں کا Brutal Commanderکے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ حدما ہی وہ کمانڈر ہے جس نے 2013 کو ایک ہی دن ایک بھارتی سیاسی جماعت کے 27 کارکنوں سمیت لیڈر مار ڈالے تھے کہ وہ چھتیس گڑھ کے لیے آزاد یِ وطن کی تحریک کی مخالفت کرتے پائے گئے تھے۔ اس واردات کے چار سال بعد، 2017ء میں، حدما نے CRPF (سینٹرل ریزرو پولیس فورس) کے 25 جوان گھیرا ڈال کر قتل کر دیے تھے۔ اس کارروائی کی بازگشت پورے بھارت میں سنائی دی گئی تھی۔ اور اب چھتیس گڑھ میں "سکما" قبیلے کا یہی حدما علیحدگی پسندوں کی طاقتور تنظیم (سی پی آئی ماؤسٹ) کا سربراہ بنا ہے تو بھارتی سیکیورٹی فورسز کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ حدما کی شکل میں قدرت نے بھارت کو سزا دینے کا بندوبست کر دیا ہے۔