دِلدوز آوازیں
مصطفی کمال صاحب سندھی سیاست، خصوصاً کراچی کی سیاست کا ایک معروف نام ہیں۔ انھوں نے اربن پالیٹکس میں خاصی شہرت کمائی ہے۔ کراچی کی سیاست کے ایک سابق "اجارہ دار" کی موجودگی میں مصطفی کمال کا سر اُٹھانا اور اپنا وجود منوانا ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔
وہ "پاک سرزمین پارٹی" کے چیئرمین بھی ہیں۔ پچھلے سال عام انتخابات کے دوران "پاک سرزمین پارٹی" ایک بگولے کی طرح اُٹھی تھی لیکن کامیابی اس کا مقدر نہ بن سکی۔ شائد یہ اس کا پہلا امتحان تھا۔ اس شکست کے باوصف مصطفی کمال صاحب کسی نہ کسی شکل میں خود کو زندہ رکھے ہُوئے ہیں۔
گزشتہ روز انھوں نے کہا: "عمران خان کی حکومت عوام سے صرف پیسے نکلوانے والی پالیسیاں بنا رہی ہیں۔" مزید کہا: "پچھلے سترہ مہینوں کی حکومتی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو لگتا یہی ہے کہ ہمہ وقت حکومت کی نظریں عوام کی جیبوں پر ٹکی رہتی ہیں کہ یہ جیبیں کیسے خالی کروائی جائیں۔"
بعض اوقات ہوتا یوں ہے کہ کسی عام سے آدمی یا سیاسی لیڈر کی زبان سے کوئی ایک جملہ ایسا ادا ہو جاتا ہے کہ ساری حقیقتیں عیاں ہو جاتی ہیں۔ مصطفی کمال نے شائد روا روی میں یہ بات کہی ہے لیکن اُن کے اس جملے میں حکومتی فنانشل پالیسیاں سمٹ کر آ گئی ہیں۔ یہ ایک سادا سا جملہ درحقیقت اجتماعی سطح پر عوامی احساسات کی نمایندگی کر رہا ہے۔
کل کے بعد ایک نئے سال کا نیا آفتاب طلوع ہو گا۔ 2020ء نئی تمازتوں اور نئی اُمنگوں کے ساتھ اپنا چہرہ دُنیا پر روشن کرے گا۔ ایسے میں ہم اگر اپنے وطن اور اس کے تبدیلی والے حکمرانوں کے فیصلوں، چال ڈھال اور پالیسیوں کا جائزہ لیں تو عوامی سطح پر مایوسی اور ڈپریشن ہی کا احساس غالب نظر آتا ہے۔
یہ سال ایسا گزرا ہے جس نے واقعی معنوں میں عوام کو یقین دلایا ہے کہ تبدیلی کے نام پر اقتدار سنبھالنے والی اس حکومت کے پاس عوام کے ریلیف کے لیے کوئی پروگرام ہے نہ وہ عوام کے جھکے کندھوں پر مسائل و مصائب کا بوجھ کم کرنے کی استعداد رکھتے ہیں اور نہ ہی انھیں ان سے کوئی دلچسپی ہے۔ گزرے سال کے دوران تبدیلی والے حاکم یہ راگ تو الاپتے رہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے لیکن نئے اور کمر شکن ٹیکسوں کی وصولی کے لیے جبریہ ہتھکنڈے بروئے کار بھی لاتے رہے۔
تبدیلی کے دعووں کے دوران ہمارے حکمرانوں نے ہر قدم، ہمہ وقت یہی ایک کوشش کی ہے کہ عوام کی جیبیں کیسے خالی کروائی جائیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہمارے نئے حاکم آگے بڑھ کر عوام کی جیبوں میں جھانک کر دیکھتے کہ وہاں کچھ ہے بھی؟ اگر نہیں ہے تو اُن کی جیبوں میں گزر گزارے کے لیے سرکاری سرپرستی میں "کچھ" ڈالا جاتا کہ حکومت کا بنیادی فرض یہی ہے۔ اور تبدیلی والے حکمران بھی تو اِسی نعرے کے ساتھ سامنے آئے تھے: فلاحی مملکت کا عملی مظاہرہ!! لیکن فیصلے اس کے برعکس کیے گئے ہیں۔
اقدام یہ کیے گئے ہیں کہ عوام کی جیبوں کو ٹیکسوں اور روز افزوں مہنگائی کی صورت میں مزید کیسے خالی کروایا جائے۔ سال میں اتنے مہینے نہیں تھے جتنی بار بجلی، پٹرول، گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔
راہ چلتے کسی بھی شہری سے تبدیلی والے حکمرانوں کے بارے میں اگر فقط ایک سوال پوچھا جائے: گزرے سال میں حکومت نے کونسا ایک فیصلہ عوامی بہبود میں کیا؟ جواب نفی میں ملے گا۔ وطنِ عزیز کا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اگر اس حقیقت اور عوامی جذبات کو زبان دے کر شایع یا نشر کرتا ہے تو ہمارے تبدیلی والے حاکم آتش پا ہو جاتے ہیں اور بِلا جھجک کہہ دیتے ہیں کہ میڈیا میں "مافیا" موجود ہے جو حکومت کے راستے مسدود کر رہا ہے۔
ایسے "فتاوی" کی موجودگی میں بھلا کیا بات ہو سکتی ہے؟ کیا مناسب نہیں تھا کہ حکمران ملکی میڈیا کو ایک ہی باڑ پر رکھنے کے بجائے مافیا عناصر کی نشاندہی کر دیتے؟ اور اگر میڈیا عوام کو حقائق سے باخبر نہیں رکھتا تو پھر کیا بھاڑ جھونکے گا؟ اگر میڈیا عوام کو تصویر کے اصلی رخ دکھانے سے قاصر رہتا ہے تو وہ عوام کا اعتماد اور اعتبار کھو دے گا۔ پھر عوام نجی ٹی وی کیوں دیکھیں؟ اخبارات خرید کر کیوں پڑھیں؟ یاد رکھا جائے کہ نجی میڈیا کسی بھی حکومت اور حکمران کا بھونپو نہیں ہوتا۔
نیا منظر یہ ہے کہ میڈیا اگر تبدیلی دُنیا کا من پسند راگ الاپنے سے انکار کرتا ہے تو مختلف النوع تعذیبوں کا ہدف بنایا جاتا ہے۔ میڈیا اگر کسی بھی قسم کی زیادتیوں کی نشاندہی نہ کرے تو پھر کیا کرے؟ حکومت نے ظالمانہ ٹیکسوں اور مہنگائی کی شکل میں عوامی جیبیں صاف کرنے کے لیے جو نئے اقدامات کیے ہیں، اس کی چیخیں سننے اور سنانے سے انکار کر دیا جائے؟ بعض ٹیکس تو سیکڑوں گُنا ہیں اور ہوشربا ہیں۔
صرف ایک مثال اسلام آباد میں رجسٹرڈ کاروں کی ملاحظہ فرمائیے: پچھلے سال ایک ہزار سی سی تک کی گاڑی کاسالانہ ٹوکن ٹیکس1500 روپے تھا اور اب تبدیلی سرکار نے اس میں سیکڑوں گُنا اضافہ کر دیا ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ کمر ہی توڑ کررکھ دی ہے۔ اب ایک ہزار سی سی گاڑی کو پندرہ سو روپے کے بجائے 20 ہزار روپے یا 30 ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور اِسے "لائف ٹائم ٹوکن ٹیکس" کا نام دیا گیا ہے۔
فائلر کے لیے بیس ہزار روپے اور نان فائلر کے لیے تیس ہزار روپے۔ کہاں پندرہ سو روپے اور کہاں اب یہ بیس اور تیس ہزار روپے!! کیا انصافی حکومت اِسے انصاف کہہ سکتی ہے؟ اس پیش منظر میں عوام کا یہ شکوہ بجا ہے کہ سرکار کی نظریں ہر وقت عوام کی جیبوں پر ٹکی رہتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اس حکومت کو خدشہ ہے کہ نجانے کل کا سورج ہی نہ طلوع ہو، اس لیے آج ہی بطورِ ایڈوانس سیکڑوں گُنا زیادہ ٹیکس عوام کی ہڈیوں سے نکال لیا جائے۔
ادویات، اور خاص طور پر جان بچانے والی ادویات، کی قیمتوں میں تبدیلی سرکار نے بے پناہ اضافہ کر ڈالا ہے۔ دل، گردوں اور خون کے امراض کے شکار مریضوں سے زرا پوچھ کر تو دیکھیے۔ ایک قیامت کا سماں ہے۔
ایک حکومتی وزیر نے چند دن پہلے جب یہ اعلان کیا کہ وفاقی کابینہ نے 89 لائف سیونگ ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد کمی کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو وطنِ عزیز میں ڈاکٹروں کی نمایندہ تنظیم (پی ایم اے) نے اس خبر کو "جھوٹ" اور ’گمراہ کن" قرار دے دیا اور حکومت نے بھی اس کی تردید نہیں کی۔ تبدیلی حکومت کے بیانات پر یقین کرنے والے عوام پھر کہاں جائیں؟ بجا پوچھا جا رہا ہے کہ حکومت نے 89 ادویات کے نرخوں میں اگر پندرہ فیصد کمی کا فیصلہ کیا ہے تو اس فیصلے پر عمل کیوں نہیں کیا جا رہا؟ وزیر اعظم صاحب کے معاونِ خصوصی برائے صحت، ڈاکٹر ظفر مرزا، بھی اس بارے میں خاموش ہیں۔
بلڈ پریشر، امراضِ قلب، گردوں کے عوارض اور شوگر کے لیے ہر روز دوائی خریدنے والے کہاں فریاد لے کر جائیں؟ عوام کی جیبوں سے تو ہر روز پیسہ نکالا جا رہا ہے اور حکومت "گھبرانا نہیں " کا لالی پاپ دے کر سمجھتی ہے کہ سرکاری فرض ادا ہو گیا۔ حیرت انگیز امر یہ بھی ہے کہ بازار میں لائف سیونگ ڈرگز میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ ہو چکا ہے اور حکومت ابھی تک یہ فیصلہ فرما رہی ہے کہ 89 ادویات کی قیمتوں میں 15 فیصد کمی کی جائے گی۔ جو کمی رہ گئی تھی، وہ اب گیس کی قیمتوں میں 240 فیصد اضافہ کر کے پوری کر دی گئی ہے۔
نجی یونیورسٹیوں کو تو رکھیے ایک طرف کہ وہ تو حکومتی کنٹرول ہی سے باہر ہو چکی ہیں، سرکاری جامعات کی فیسوں میں بھی فی سمسٹر 20 ہزار روپے اضافہ سامنے آ چکا ہے۔ نادار اور زیریں متوسط طبقہ کے والدین کس دیوار سے سر ٹکرائیں؟ میڈیا اگر عوام کی یہ دلدوز اور دل خراش آوازیں سنانے کی جسارت کرتا ہے تو حکومت میڈیا کو "مافیا" کہہ دیتی ہے۔ چہ خوب!!