اپنے ہیرو عمران خان سے نوجوان طلبا کے مطالبات
کچھ دن قبل ہم نے دیکھا کہ اچانک پورے پاکستان میں "طلبا یکجہتی مارچ" کے زیر عنوان مخصوص طلبا و طالبات نے اجتماعی طور پر جلسے بھی کیے اور جلوس بھی نکالے۔
سوال کیا جارہا ہے کہ آیا ان طلبا جلوسوں کو تمام طلبا کے نمایندہ جلوس کہا جا سکتا ہے؟ اُن کے جلسوں اور نعروں کی گونج میں " انقلاب" کا ذکر بھی تھا اور سرخ پرچموں کی بہار بھی۔ طلبا کے ان جلسوں اور جلوسوں میں کچھ ایسے مظاہر اور نعرے بھی سامنے آئے ہیں جو نہ ہوتے تو زیادہ مناسب تھا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ان مظاہروں اور نعروں کی بنیاد پر کئی طالب علموں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔
وفاقی وزیر، فواد چوہدری، نے کہا ہے کہ طلبا پر قائم کیے گئے مقدمات ختم کر دینے چاہئیں۔ بلاول بھٹو زرداری صاحب نے بھی ان مقدموں کی مخالفت کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ طلبا کے خلاف کریک ڈاؤن بند کیا جائے۔ سندھ اسمبلی میں تو طلبا یونینز کی بحالی کا بِل بھی پیش کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ یہ نوجوان طبقہ ہے۔ انھیں ناراض اور مشتعل کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ نوجوان طبقہ تو ویسے بھی جناب عمران خان اور پی ٹی آئی کا اصل اور اساسی اثاثہ ہے کہ نوجوان طبقے کے تعاون و طاقت ہی سے عمران خان برسرِ اقتدار آئے ہیں۔ جواں جذبوں سے سرشار یہ طلبا مگر چاہتے کیا ہیں؟
اُن کا حکومت سے سرِ فہرست سادہ مطالبہ یہ ہے کہ ساڑھے تین عشرے قبل جبریہ طور پر ملک بھر کی جامعات اور کالجز میں طلبا یونینز پر جو پابندیاں عائد کی گئی تھیں، اب یہ پابندیاں ختم کی جائیں تاکہ یونیورسٹیوں میں اسٹوڈنٹس کو درپیش متنوع مسائل کا اطمینان بخش حل نکالا جائے۔ بھاری بھر کم فیسوں اور کمترین سہولتوں نے بھی طلباکی زندگیاں اجیرن بنا رکھی ہیں لیکن کہیں بھی شنوائی نہیں ہو رہی۔ کیا یونیورسٹیوں کی ان قیامت خیز فیسوں کی موجودگی میں غریب یا متوسط طبقہ کے والدین اپنے اہل اور لائق بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔ فارغ التحصیل اعلیٰ تعلیم یافتہ اکثر نوجوان طبقہ بے روزگارہے۔
وہ کہاں جائے؟ملک بھر سے طلبا و طالبات اپنے منفرد اسلوب میں 29نومبر2019 کو مظاہرے کرتے سامنے آئے ہیں اور اپنے محبوب وزیر اعظم عمران خان کو اپنے مطالبات پیش کیے ہیں۔ لیکن طلبا کے ہاتھوں میں لہراتے سرخ پرچم اور اُن کے نعروں کی شدت پاکستان ایسی نظریاتی مملکت سے مطابقت نہیں رکھتی۔ افسوس مگر یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کا کوئی بھی ذمے دار طلبا سے مکالمہ کرنے باہر نہیں نکلا۔
وزیر اعظم عمران خان کی اپنی کابینہ کے چند ارکان (مثال کے طور پر ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور چوہدری فواد حسین) نے بھی بین السطور اپنی ٹویٹس میں طلبا یونینز کی بحالی کا عندیہ دیا ہے۔ محترمہ شیریں مزاری نے تو ٹویٹ کرتے ہُوئے اپنے اُن 13برسوں کو بھی یاد کیا ہے جب وہ اسلام آباد کی ایک جامعہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی تھیں اور طلبا یونینز بھی جاری تھیں۔
ڈاکٹر صاحبہ نے لکھا: " طلبا یونینز پر پابندی سے نقصان ہی ہُوا ہے۔" جناب عمران خان کی اپنی کابینہ کے کم از کم دو سینئر ارکان نے تو اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران طلبا یونینز کی سیاست میں سرگرم حصہ لیا۔ آج سیاست میں اُن کی وہی تربیت کام آ رہی ہے جو انھوں نے اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں طلبا یونینز کی سیاست سے حاصل کی۔ وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے راولپنڈی کے ایک کالج میں طلبا یونین سازی میں ہنگامہ خیز حصہ لیا اور کم ازکم دو حکمرانوں کے خلاف کئی ہنگامے بھی اُٹھائے۔ اس سلسلے میں اُن کی سوانح حیات "فرزندِ پاکستان" گواہ ہے۔ خانصاحب کے وزیر مذہبی اُمور مولانا نور الحق قادری بھی ایک طلبا تنظیم ( اے ٹی آئی ) کا معروف نام رہے ہیں۔ پنجاب میں صوبائی وزیر اور پی ٹی آئی کے مرکزی لیڈر، میاں محمود الرشید، بھی طلبا یونین کی سیاست اور اسلامی جمیعت طلبا کے ایک متحرک کارکن رہے ہیں۔
اگر خان صاحب اپنے مذکورہ وزرا سے ملک بھر کی جامعات میں طلبا یونینز کی بحالی اور طلبا کے مطالبات بارے مشورہ فرمائیں تو یقیناً انھیں درست مشورہ ہی ملے گا۔ وزیر اعظم طلبا کے ان مظاہروں سے لاتعلق نہیں رہ سکتے تھے؛ چنانچہ خان صاحب نے اس حوالے سے دوٹویٹس کیں۔ اپنی پہلی ٹویٹ میں لکھا:"جامعات مستقبل کی قیادت کی تیاری کرتی ہیں اور طلبا یونینز اس سارے عمل کا لازمی جزو ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان کی جامعات میں طلبا یونینز میدانِ کارزار کا رُوپ دھار گئیں اور جامعات میں دانش کا ماحول مکمل طور پر تباہ ہو کر ہ گیا۔" جناب وزیر اعظم کی اس ٹویٹ کا ایک مطلب تو یہ اخذ کیا گیا ہے کہ فی الحال پی ٹی آئی حکومت جامعات میں طلبا یونینز بحال کرنے نہیں جارہی ہے۔ اپنی دوسری ٹویٹ میں عمران خان نے یوں لکھا:" ہم دُنیا کی صفِ اوّل کی دانشگاہوں میں رائج بہترین نظام سے استفادہ کرتے ہُوئے ایک جامع اور قابلِ عمل ضابطہ اخلاق مرتّب کریں گے تاکہ ہم طلبا یونینز کی بحالی کی جانب پیش قدمی کرتے ہُوئے انھیں مستقبل کی قیادت پروان چڑھانے کے عمل میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کے قابل بنا سکیں۔" اس ٹویٹ کے بین السطور میں طلبا کو "لارا" لگا دیا گیا ہے۔
نہ تو دُنیا کی " صفِ اوّل کی دانشگاہوں سے بہترین نظام سے استفادہ" ہوگا اور نہ "کوئی قابلِ عمل ضابطہ اخلاق مرتّب " ہو گا اور نہ ہی طلبا یونینز بحال ہوں گی۔ یعنی نہ نو من تیل ہوگا، نہ رادھا ناچے گی۔ ویسے بارہ سال قبل ( نومبر2007 میں ) پنجاب یونیورسٹی (لاہور) میں آمد کے موقع پر عمران خان سے ایک مذہبی طلبا تنظیم کی طرف سے جس شدید بد سلوکی کا مظاہرہ کیا گیا تھا، خان صاحب یقیناً اسے آج تک نہیں بھُولے ہوں گے۔ یہ ایسا تلخ تجربہ تھا جس کی یاد عمران خان کو باور کرواتی ہوگی کہ جامعات میں طلبا یونینز کی بحالی کسی صورت میں نہیں کی جانی چاہیے۔ بھٹو صاحب مرحوم بھی جامعہ پنجاب آئے تھے تو اُن کا بھی طلبا یونین کے کچھ طلبا سے تلخ مکالمہ ہُوا تھا۔
پچھلے 39برسوں کے دوران جو طلبا یونیورسٹیوں سے پڑھ کر فارغ ہُوئے ہیں، وہ تو جانتے ہی نہیں کہ طلبا یونینز اور طلبا کے حقوق کیا شئے ہیں؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ آیا نجی یونیورسٹیوں میں بھی طلبا یونینز کو اُودھم مچانے کی اجازت دی جائے گی؟ ماضی میں طلبا یونینز سے وابستہ کئی افراد نے کئی ایسے اقدامات بھی کیے جن سے والدین میں بددلی پیدا ہُوئی۔
یہ اس لیے ہُوا کہ طلبا یونینز پر کسی کا سرے سے چیک اینڈ بیلنس نہیں تھا۔ ہماری کئی مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے بھی اپنے مفادات و مقاصدکے حصول کے لیے طلبا یونینز کو استعمال کیا۔ ان خامیوں کا بآسانی تدارک کیا جا سکتا ہے۔ 29نومبر کو ملک بھر میں عجیب و غریب لباس میں ملبوس "طلبا حقوق کی بازیابی" کے نام پر جو مظاہرے کیے گئے ہیں، ان پر بعض حلقوں کی جانب سے بجا طور پرشبہات اور تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ برطانیہ اور جرمنی کے نشریاتی اداروں نے "طلبا یکجہتی مارچ" کو جس طرح اچھالا ہے، اس نے بھی شبہات کو جنم دیا ہے۔ کچھ نقاب پوش چہرے بھی( طلبا کے نام پر) اپنا لُچ تلنے اور پاکستان کی قومی سلامتی کو بلڈوز کرنے کے لیے میدان میں آ نکلے ہیں۔ ان عناصر پر کڑی نظر رکھنے کی بے حد ضرورت ہے۔