5 فروری: یومِ یکجہتی کشمیراور عمران خان
وزیر اعظم عمران خان نے پچھلے سال ستمبر میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے سے پہلے پاکستان میں، کشمیر کے حوالے سے، ایک پُر اُمید بیان دیتے ہُوئے کہا تھا: "مَیں مقبوضہ کشمیر، مسئلہ کشمیر اور کشمیری بھائیوں کے لیے پوری دُنیا میں سفیر بنوں گا۔" اس اُمید افزا بیان کا سادہ مطلب یہی تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے لیے جہاں اور جتنا بھی ممکن ہُوا، وہ ہر عالمی فورم پر مظلوم کشمیریوں کے حق میں اپنی آواز بلند کریں گے۔ یقیناً اس آواز میں پوری پاکستانی قوم اور ہمارے تمام اداروں کی آواز بھی شامل ہے۔
یہی وہ شائد ایک مشترکہ صفحہ ہے جس پر ہم سب یکجا اور یک آواز ہیں۔ ویسے تو ہم گزشتہ کئی برسوں سے، ہر سال 5 فروری کے آتے ہی کشمیر اور کشمیریوں سے یکجہتی کا دن پورے جذبوں اور ایک آواز سے مناتے ہیں لیکن اس بار، پانچ فروری 2020 کو، یومِ یکجہتی کشمیر اس لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بیک جنبشِ قلم ختم کیے چھ مہینے گزر گئے ہیں۔ غاصب بھارت کا یہ ایسا ظلم ہے جس کی مذمت ساری دُنیا میں کی جا رہی ہے۔
چھ ماہ قبل نریندر مودی نے 5 اگست 2019 کو بھارتی آئین میں شامل مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت (آرٹیکل 370) کا خاتمہ کر ڈالا تھا۔ زیر قبضہ کشمیر اور مظلوم کشمیریوں کے بنیادی حقوق پر ایک اور ڈاکہ۔ 5 فروری2020کو بھارتی ڈاکہ زنی کی اس واردات کو پورے چھ مہینے ہو رہے ہیں۔ غصب اور جبر کے 180دن!! تب سے اب تک کشمیری ایک نئے جبرِ مسلسل کی سیاہ رات کے اسیر ہیں۔ مقبوضہ کشمیر مقفّل ہے۔ کشمیر ی میڈیا پہلے بھی مجبور اور محصور تھا لیکن پچھلے 180 دنوں سے اس پر حصار اور جبر کی دیواریں مزید بلند کر دی گئی ہیں۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ، کٹر ہندو مقتدر جماعتوں اور نئے بھارتی انتظامات نے مقبوضہ کشمیر کے میڈیا پر مکمل کابوس چڑھا رکھا ہے۔
انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولتوں پر کامل پابندیاں ہیں۔ ایران نے چند دنوں کے لیے اپنے چند شہروں میں محدود پیمانے پر انٹرنیٹ کی سہولت ختم کی تو امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کو اس پر سخت تکلیف ہُوئی تھی۔ ٹرمپ نے12 جنوری2020 کو اپنی ایک ٹویٹ میں ایرانی قیادت کو دھمکی دیتے ہُوئے تحکمانہ لہجے میں کہا تھا: "دنیا تمہیں دیکھ رہی ہے۔
سب سے اہم یہ کہ امریکا تم پر نگاہ رکھے ہُوئے ہے۔ اپنے ملک میں انٹرنیٹ بحال کرو اور صحافیوں کو آزادانہ کام کرنے دو۔" لیکن امریکی صدر کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی طرف سے انٹرنیٹ اور کشمیری صحافیوں پر مسلط کردہ سخت پابندیاں نظر نہیں آ رہی ہیں اور نہ ہی وہ بھارتی ہندو مقتدر قیادت کے بارے میں وہی لہجہ اختیار کرنے کی جرأت و جسارت رکھتا ہے جیسا لہجہ اُس نے ایرانی قیادت کے خلاف استعمال کیا۔ ایسے امریکا اور امریکی صدر سے، مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے، پاکستان اور پاکستانی کیا توقعات وابستہ کر سکتے ہیں؟
لیکن مقبوضہ کشمیر اور مظلوم کشمیریوں بارے امریکی صدر کی عدم توجہی کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان اور پاکستانی بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا بنے رہیں۔ ہمیں اپنی استطاعت اور استعداد کے مطابق کشمیری بھائیوں کے لیے ہر ممکنہ آواز بلند کرتے رہنا ہے اور کشمیریوں پر تنی دکھوں کی رات کی شدت کم کرنے کی سعی بھی۔ 5 فروری2020 کو پاکستان و آزاد کشمیر کے ساتھ ساتھ دُنیا بھر میں پھیلے کشمیری اور پاکستانی "یومِ یکجہتی کشمیر" کا اجتماعی انعقاد کر کے یہی پیغام دینا چاہتے ہیں۔ یہی توانا پیغام کہ ہم کشمیر کو بھُولے ہیں نہ کشمیریوں کو۔ پچھلے ایک سال کے دوران مسئلہ کشمیر اور محصور کشمیریوں کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ وہ دُنیا میں جہاں بھی گئے ہیں، انھوں نے کشمیریوں کی عذاب بنی زندگی کا ذکر ضرور کیا ہے۔
بھارتی جابرانہ ہتھکنڈوں کی مذمت بھی کی ہے اور آر ایس ایس کی مسلمان دشمن چھتری تلے بروئے کار بھارتی حکومت کے کشمیر مخالف اقدامات کو کھل کر دُنیا کے سامنے بھی رکھا ہے۔ بھارتی میڈیا پر نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ کشمیر کے بارے میں عمران خان کی کوششوں سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے پیٹ میں کیسے کیسے مروڑ اُٹھ رہے ہیں۔ ابھی پچھلے ماہ کے آخری ہفتے عمران خان کو ڈیووس ( سوئٹزر لینڈ) میں منعقدہ مختلف فورموں پر خطابات کا موقع ملا ہے تو بھی انھوں نے وہاں مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا اور کشمیری و بھارتی مسلمانوں پر بھارتی استبدادی ہتھکنڈوں کو بھی دُنیا کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔
یہ کہنا شائد مبالغہ نہ ہو گا کہ ملائیشیا کے وزیر اعظم جناب مہاتیر محمد اور ترکی کے صدرِ محترم طیب اردوان نے کھل کر جس طرح کشمیر کی حمائت کی ہے، اس میں عمران خان کی بھاگ دوڑ کا بھی حصہ ہے۔ خصوصاً ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد کی جرأت و ہمت کو سلام کہ انھوں نے کشمیریوں کی حمائت میں جس محکم لہجے میں بھارتی اقدامات کی مذمت کی ہے، خود تجارتی محاذ پر مالی نقصان بھی اُٹھایا ہے۔ بھارت نے ردِ عمل میں ملائیشیا سے پام آئل خریدنا بند کر دیا ہے (ملائیشیا نے پچھلے سال 12 ارب ڈالر مالیت کا پام آئل بھارت کو فروخت کیا تھا) بھارت نے ناراض ہو کر ملائشین پام آئل پر پابندیاں عائد کی ہیں لیکن اس کے باوجود مہاتیر محمد صاحب نے پروا نہیں کی ہے۔ اس پامردی پر ملائیشیا کے اس مردِ مومن کو کشمیریوں اور پاکستانیوں کا خصوصی اور محبت بھرا سیلوٹ!! یہ محبت اور تعاون ہم پر ملائیشیا کا قرض ہے۔
کشمیر پر عمران خان اور ہماری عسکری قیادت میں پاکستان کا جو اصولی موقف بروئے کار ہے، وطنِ عزیز کو اس کارن پاک بھارت تجارتی محاذ پر سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے (پاکستان سے بھارت کو ایکسپورٹ صرف 17 ملین ڈالر رہ گئی ہے۔ پہلے یہ ایکسپورٹ 213 ملین ڈالر تک چلی گئی تھی) پاکستان مگر اپنے اصولوں سے دستکش ہونے کے لیے تیار نہیں ہے: پہلے کشمیر کی بات اور پھر کوئی اور بات۔ ابھی چند دن پہلے (24 جنوری کو) اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن نے اپنے یومِ جمہوریہ کے حوالے سے ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا۔
بہت سی پاکستانی اعلیٰ سرکاری شخصیات کو اس کے لیے دعوت نامے جاری کیے گئے تھے لیکن کوئی بھی شریک نہیں ہُوا۔ خانصاحب کی حکومت نے یہ اقدام کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ جو بھارتی حکومت کشمیریوں پر مسلسل مظالم ڈھا رہی ہو، جس نے پچھلے تقریباً دو سودنوں سے مقبوضہ کشمیر پر نئی استبدادی پابندیوں کی سیاہ رات کا تنبو تان رکھا ہو، اُس بھارت کے یومِ جمہوریہ کے استقبالیہ میں شرکت کرنا چہ معنی دارد؟ اس اقدام کو بھی وزیر اعظم عمران خان کے اُس بیان کا حصہ سمجھنا چاہیے جس میں آپ نے کہا تھا: مَیں کشمیریوں کا عالمی سفیر بنوں گا۔ اور اب 5 فروری 2020 کو یوم یکجہتی کشمیر کی آمد آمد کے موقع پر عمران خان نے ایک دعوتی ٹویٹ یوں کی ہے :"پوری پاکستانی قوم کو 5 فروری کے یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر جوق در جوق شریک ہونے کی اپیل کرتا ہُوں۔
فاشسٹ مودی حکومت کے 9 لاکھ فوجیوں نے مقبوضہ کشمیر کے80 لاکھ باشندوں کو چھ ماہ سے سخت محاصرے میں جکڑ رکھا ہے۔" عمران خان کی اس ٹویٹ پر سرینگر میں اُن کے حق میں نعرے بھی لگائے گئے ہیں۔ یکم فروری 2020 کو ترک نیوز ایجنسی "اناطولیہ" کو دیے گئے اپنے خصوصی انٹرویو میں بھی خانصاحب کشمیریوں کے حق میں خوب بولے ہیں۔ کشمیراور کشمیریوں کی محبت میں عمران خان کی طرف سے دیے گئے ٹوئٹر پیغام اور تازہ انٹرویو کا اثر ہم عمل کے میدان میں دو دن بعد 5 فروری کو ملاحظہ کریں گے۔ اُمید ہے کہ پاکستانی جوق در جوق باہر نکلیں گے اور ہاتھوں کی زنجیر بنا کر ایل او سی کے پار اپنے پابہ زنجیر کشمیری بھائیوں کو اپنی محبتوں اور تعاون کا یقین دلائیں گے۔