رانگ وے
خاتون خانہ موٹر وے پر گاڑی ڈرائیو کررہی تھی کہ موبائل پر شوہرنامدار کی کال آئی۔ بیگم!ریڈیو پر خبر چل رہی ہے کہ موٹر وے پر سفر کرنے والے احتیاط سے ڈرائیو کریں کیونکہ ایک گاڑی تیزی سے رانگ وے پر آ رہی ہے۔ بیگم صاحبہ نے جواب دیا کہ ریڈیو غلط خبر چلا رہا ہے، یہاں تو سبھی گاڑیاں رانگ وے سے آ رہی ہیں۔ قارئین یہ لطیفہ حکومتی کارگزاری، پر ذہن میں آ گیا۔ تحریک انصاف نے عوام کی زندگیاں بدلنے کیلئے تبدیلی کے سفر کا آغاز کیا، توابتداسے ہی مسائل اور چیلنجز کی شاہراہ پر رائٹ وے کی بجائے اکثر رانگ وے جاتے ہوئے دکھائی دیتی۔ میڈیا نشاندہی کرتا تو کپتان، بیگم صاحبہ کی طرح ناراضی کااظہار کرتے کہ وہ نہیں باقی سب رانگ وے، پر ہیں۔ تبدیلی کے منتظر عوام کو تسلی دی جاتی کہ ابھی ذرا ہاتھ کچا ہے، گھبرانا نئیں۔ گاڑی جلد رائٹ وے پر ہوگی۔ ڈرائیور نے بھی اعتراف کیا کہ رانگ وے سے بچنے میں اڑھائی سال لگے مگر اب گاڑی درست رستے پر سفر کرتے ہوئے منزل مقصو د پر پہنچے گی۔ مختلف پالیسیوں اور فیصلہ سازی میں حکومتی گاڑی کا رانگ وے پر فراٹے بھرنا معمول بنتا گیا مگر قوم امید وابستہ کئے ہوئے تھی کہ ماہرڈرائیورگاڑی کو رائٹ وے پرلانے میں جلد کامیاب ہوجائے گا۔
دعاؤں اور امیدوں کے اسی سفر میں نومبر2020 کا موڑ بھی آیا۔ جب کابینہ کے سامنے پی ٹی وی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز اورچیئرمین کی تعیناتی کا ٹاسک آیا۔ وزارت اطلاعات ونشریات نے سمری وفاقی کابینہ میں پیش کرتے ہوئے ممتاز قانون نعیم بخاری کوچیئرمین پی ٹی وی تعینات کرنے کی سفارش کی۔ وفاقی کابینہ نے26نومبر2020کو پی ٹی وی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تعیناتی کیساتھ نعیم بخاری کوچیئرمین پی ٹی وی تعینات کرنے کی منظوری دیدی۔ منظوری کے عمل میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے اور عمر کی حد کو نظرانداز کیا گیا تھا۔ میڈیا نے اسی دن نشاندہی کر دی تھی کہ گاڑی ایک مرتبہ پھر رانگ وے پر چلی گئی ہے۔ پریشانی اس ہٹ دھرمی کی تھی کہ ڈرائیور میرٹ وقانون کی پاسداری کا علمبردار تھا اور سواری، آئین وقانون کی ماہر۔ سوال یہ ہے کہ حکومت میرٹ و قانون کی دعویدار سہی، لیکن صاحب فیضان بھی تو قانونی موشگافیوں کو باریک بینی سے جانتے ہیں، کیا مفاد کا طوق سب کچھ فراموش کر دیتا ہے؟
سبکی کے فوراً بعد وزارت اطلاعات ونشریات نے وزیراعظم کو نئی سمری کیساتھ ایک رپورٹ بھی ارسال کی۔ خاکسار کو موصول ہونیوالی دستاویز کے مطابق ڈیڑھ ماہ بعدوزارت اطلاعات ونشریات نے اپنامؤقف تبدیل کرلیا۔ صرف نعیم بخار ی ہی نہیں بلکہ دو اور ڈائریکٹرز سید وسیم رضا اور اصغر ندیم کوبھی برطرف کردیاگیاہے۔ ان ڈائریکٹرز کی تعیناتی کی منظوری بھی 26نومبر 2020کو دی گئی تھی۔
ادھر نعیم بخاری نے چیئرمین پی ٹی وی کی ذمہ داری سنبھالتے ہی پی ٹی وی پر اپوزیشن کو بلیک آؤٹ کرنے سمیت بلندوبانگ دعوے شروع کردئیے تھے۔ یکم جنوری2021کوبورڈ کا اجلاس طلب کرکے ایم ڈی پی ٹی وی عامر منظور کومعطل کردیا۔ ایم ڈی پی ٹی وی کو کمپنیز ایکٹ 2017کے سیکشن 190(1) کے تحت شو کاز نوٹس جاری کیا گیا۔ اپنی تعیناتی کے بعد ممتاز قانون دان نعیم بخاری سے ایک اور غلطی سرز د ہوچکی تھی کیونکہ نعیم بخاری نے ایم ڈی کو معطل کرنے کیلئے متعلقہ قانون کی پاسداری نہیں کی تھی۔ وزارت اطلاعات ونشریات نے وزیراعظم کو اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ایم ڈی پی ٹی وی کو معطل کرنا کمپنیز ایکٹ 2017کے سیکشن 190(1) کی خلاف ورزی ہے۔ مذکورہ سیکشن کے تحت بورڈ کے تین چوتھائی ممبران کا قرار داد کے حق میں ووٹ دینا ضروری ہے تاہم ایم ڈی پی ٹی وی کی معطلی کے وقت 7میں سے صرف 5ڈائریکٹرز اجلاس میں موجود تھے جو تین چوتھائی سے کم ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے مطابق بورڈ اور ایم ڈی کے عد م موجودگی کے باعث پی ٹی وی کے امور کو چلانا ناممکن ہے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کی سفارش پر وفاقی کابینہ نے راتوں رات ایم ڈی پی ٹی وی کی معطلی کے حکم نامے کو منسوخ کرتے ہوئے انہیں بحال کردیا۔
لگے ہاتھوں حکومت کی اک اورکارگزاری، بھی ملاحظہ فرمائیں۔ نومبر 2018میں وفاقی حکومت نے سعودی عرب میں پاکستان تحریک انصاف کے ایک عہدیدار ذوالقرنین علی خان کو بطورچیئرمین، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن نواز، دیا۔ ذوالقرنین علی خان اس نوازش سے قبل اسی کاروبار سے وابستہ تھے۔ 92نیوزنے مفادات کے ٹکراؤ کے معاملے کو اجاگر بھی کیا مگر ایک حکومتی شخصیت کے پرزور اصرار پر ذوالقرنین علی خان نے ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ تباہی سے دوچار سے یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے معاملات مزید خراب ہوگئے اورذوالقرنین علی خان کے خلاف وزیراعظم کو شکایات موصول ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ فیکٹ فائنڈنگ انکوائری کمیٹی قائم کی گئی۔ انکوائری رپور ٹ میں ذوالقرنین علی خان پر اختیارات کے غلط استعمال سمیت کرپشن کے 5سنگین الزامات درست ثابت ہوئے۔ موصوف نے یوٹیلٹی سٹورز کو اشیاء فروخت کرنے والی دو کمپنیوں کیساتھ تعلق کو خفیہ رکھا۔ اشیاء فروخت کرنے والی کمپنیوں کیساتھ معاملات طے کرنے کا اعتراف بھی کیا گیا۔ وفاقی حکومت نے انکوائری کمیٹی کی سفارش پر بالآخر ذوالقرنین علی خان کو برطرف کردیا ہے۔
ممتازقانون دان نعیم بخاری کی خلاف قانون تعیناتی، ـپھر عدالتی برطرفی اورچیئرمین یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن ذوالقرنین علی خان کی کرپشن پر برطرفی حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ نعیم بخاری اور ذوالقرنین علی خان کی صرف برطرفی کافی نہیں کیونکہ گڈگورننس، میرٹ، قانون کی پاسداری اور اقرباپروری کا خاتمہ، نئے پاکستان کی میراث قراردی گئی تھی۔ وزیراعظم کوخود احتسابی سمیت پوری ٹیم کو گمراہ کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کے ساتھ ساتھ ذوالقرنین علی خان کا کیس نیب کو بھجوانا ہوگا۔ اگر وزیراعظم نے ان دونوں معاملات سے پہلو تہی کی تو پھر قوم یہی سمجھے گی رانگ وے پر فراٹے بھرتی گاڑی کبھی منزل پر نہیں پہنچے گی۔