سوچ اور رویے آخر کب بدلیں گے؟
وزیراعظم عمران خان سمیت ماضی میں ہر وزیراعظم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اورتاجروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کیلئے قائل کرنے میں مصروف رہے ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی مالی آسودگی حاصل کرنے کے بعدسب سے بڑی تمنا وطن عزیز میں کاروبار کی خواہش ہے۔ وطن کی مٹی اوراپنوں کی محبت انہیں ترقی یافتہ ممالک میں تمام ترکامیابیوں اور آسائشوں کے باوجود چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ ملک کی تقدیر سنوارنے کے بہت سے منصوبے بناتے ہیں مگر بیشتر اپنے منصوبوں پر عملدرآمد میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ 73سال گزرنے کے باوجود سرکاری افسران کا رویہ اور سسٹم تبدیل کیوں نہیں ہوسکا؟ یہ جاننے کیلئے ہمیں محمد صفدراعوان کیس کا جائزہ لینا ہوگا۔
قیام پاکستان کے بعد سیالکوٹ کے رہائشی محمد صفدر اعوان کو اپنے والدین کے ہمراہ افریقی ملک یوگنڈاشفٹ ہونا پڑا۔ پورے خاندان نے یوگنڈا میں دن رات محنت کی۔ اللہ نے رزق میں برکت ڈالی۔ یوگنڈا میں گاڑیوں کی ورکشاپ میں کئی افریقی اور غیرملکی بھی کام کرنے لگے۔ صفدراعوان جب ورکشاپ میں افریقی اوردیگر ملازمین کوکام کرتا دیکھتے تو سوچتے کاش یہ ورکشاپ پاکستان میں ہوتی۔ بے روزگاری سے دوچار پاکستانی بھائیوں کو ملازمت کے مواقع میسر ہوتے۔ عزیرواقارب اور دوستوں کی محفل ہوتی۔ لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے۔ اسی دوران صدر ایوب خا ن نے اعلان کردیاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے اثاثے پاکستان لائیں۔ پاکستان میں کاروبار کرکے ملک کی خدمت کریں۔ رقم پاکستان لانے پر حکومت باضابطہ بونس دے گی۔ وطن لوٹنے کیلئے بیتاب محمد صفد راعوان کو اپنے خوابوں کو عملی شکل دینے کا موقع میسر آچکا تھا۔ یوگنڈا میں سب کچھ فروخت کیا۔ جمع پونجی اکٹھی کرکے ایک خطیر رقم بینکنگ چینل کے ذریعے پاکستان ٹرانسفر کر دی۔ 1961میں محمد صفدر اعوان اسلام آباد شفٹ ہوئے۔ اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہناتے ہوئے گاڑیوں کا بزنس شروع کردیا۔ حیران کن طور پر محمد صفدر اعوان نے 60 کی دہائی میں ٹیکس ریٹرن فائل کیں۔ ذمہ داری شہری کی حیثیت سے وہ یوگنڈا میں بھی وہ باقاعدگی سے ٹیکس ریٹرن فائل کرتے تھے۔ ایک دن راولپنڈی ٹیکس آفس سے نوٹس آگیا۔ صفدر اعوان پریشانی کے عالم میں ٹیکس حکام کے دفتر پہنچ گئے۔
صفدر اعوان کو ٹیکس افسر نے 6گھنٹے انتظار کروانے کے بعد کل دوبارہ آنے کا کہا۔ صفدر اعوان کو بڑا دکھ ہوا۔ انہوں نے قانون کی پاسداری کرتے پورے ٹیکس ریٹرن فائل کئے۔ پاکستان میں کاروبار کو فروغ دے رہے تھے کہ لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں۔ اسلام آباد میں بیرون ملک اور اندرون ملک دیگر تاجر بھی کاروبار کیلئے آئیں مگر ٹیکس حکام کارویہ ناقابل فہم تھا۔ خیر صفدر اعوان اگلے روز دوبارہ ٹیکس آفس پہنچ گئے۔ ٹیکس افسر کے دفتر کے باہر انہیں انتظار کرنے کا کہا گیا۔ تین گھنٹے انتظار کیا تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ صفدر اعوان نے ٹیکس افسر کے کمرے میں جانے کا فیصلہ کیا۔ کمرے میں پہنچے تو موصوف خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ تعارف کے بعد ٹیکس افسر نے انکوائری شروع کردی۔ کاروبار کیلئے رقم کا بندوبست کیسے ہوا؟ جواب دیا یہ رسیدیں جو یوگنڈا سے بینکنگ چینل کے ذریعے رقم پاکستان لانے کا ثبوت ہیں۔ ٹیکس افسر نے ایک کتاب اٹھائی اور متعلقہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ رقم پاکستان منتقل کرنے کیلئے ٹیکس کی ادائیگی لازم تھی، آپ نے ٹیکس ادا نہیں کیا۔ آپ جرمانے کیساتھ ٹیکس ادا کریں یا پھر رقم واپس یوگنڈا ٹرانسفر کردیں۔ یہ بات صفدر اعوان کیلئے قیامت سے کم نہ تھی۔ صفدر اعوان نے صدر ایوب کی پالیسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ تو رقم پاکستان منتقل کرنے پر بونس کے حقدار تھے مگر انہوں نے بونس کلیم نہیں کیاکہ خزانے پر بوجھ نہ بنیں۔ آپ ایسے حوصلہ شکنی کیسے کرسکتے ہیں؟ صفدر اعوان کا لب ولہجہ دیکھنے کے بعد ٹیکس افسر نے کہا چلیں دیکھتے ہیں اس معاملے کو، آپ تشریف لے جاسکتے ہیں۔ چند دن گزرے تو اسی ٹیکس افسر نے اپنی گاڑی مرمت کیلئے صفدر اعوان کے شوروم پر بھیج دی اور یوں بلاوجہ ٹیکس انکوائری کا معاملہ ختم ہوگیا مگر بدقسمتی سے 60 برس گزرنے کے باوجود سرکاری افسران کی حوصلہ شکنی کی روش بدلی اور نہ ہی سسٹم۔ صفدر اعوان سمیت سینکڑوں پاکستانی ہرروز یہی شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
وزیراعظم نے اپنے مشیروں کو خصوصی ٹاسک سونپا کہ پاکستان میں کاروبار میں آسانیا ں پیدا کرنے کیلئے اصلاحات کی جائیں۔ چند بڑے کاروباری گروپس کو درپیش مشکلات کا حل نکالنے کیلئے ایس ای سی پی سمیت کے قوانین میں تبدیلیاں کی گئیں جبکہ عام پاکستانی شہری کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ باقی مشکلات آپ ایک طرف رکھئیے، پاکستان میں گھریلو سمیت کمرشل اور انڈسٹریل بجلی وگیس کنکشن کا حصول کس قدر ناممکن بنادیا گیا ہے اس کا اندازہ بجلی وگیس کمپنیوں کے دفاتر میں خوار ہونیوالے افراد کی حالت سے لگایا جاسکتا ہے۔ تمام مسائل حل کرنایقینا حکومت کے بس کی بات نہیں لیکن سرکاری افسران کا قبلہ اور سسٹم ٹھیک کر نا حکومت کے اختیار میں ہے۔ کئی صاحب استطاعت افرادعوام کودرپیش مسائل حل کرنے کے لیے اپنی جیب سے خرچ کرنا چاہتے ہیں مگر سرکار ی ادارے اورافسران سینہ ٹھونک کر سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ محمد صفدر اعوان کے کاروبار نے اسلام آباد میں خوب ترقی کی۔
محمد صفدر کے سامنے سرسبزوشاداب اسلام آباد اجڑتاجارہا ہے۔ اسلام آباد میں پارکنگ کی جگہ نہیں۔ انتظامیہ کو کئی سالوں سے پیشکش کررہے ہیں کہ وہ مفت میں پارکنگ پلازہ تعمیر کرنے کیلئے تیار ہیں جہاں ریوالونگ سینما کی سہولت بھی ہوگی، اور گرین بیلٹس پر گاڑیوں کی پارکنگ کا سلسلہ ختم ہوجائے۔ حادثات کی روک تھام کی وجہ بڑی وجہ گاڑیوں کی فٹنس ہے۔ ہرتین سال بعد گاڑیوں کی فٹنس چیک ہونی چاہیے۔ گاڑیوں کی فٹنس چیک کرنے کیلئے مفت سسٹم لگانے کو تیار ہیں۔ فٹنس سرٹیفکیٹ کی شرط کے ذریعے حادثات میں 50فیصد تک کمی لائی جاسکتی ہے۔ یہ ماڈل بعد میں صوبے بھی فالو کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ مگر سرکاری افسران اور سسٹم کسی صورت یہ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بیورو کریسی کی بڑی"کارگزاری" بس یہی ہے کہ انکی ذاتی کار محمد صفدر اعوان جیسے پاکستانیوں کی ورکشاپ سے مفت میں ٹھیک ہوتی رہے؟