پائیداری کا پائیدان ؟
وفاقی حکومت کو درپیش مسائل تھمنے کا نام نہیں لے رہے۔ سیاسی چیلنجزہر دن نیا رُخ اختیار کرلیتے ہیں۔ مہنگائی، توانائی اور گڈ گورننس کے مسائل حکومت کی بقا کیلئے سنگین چیلنج ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے بعد نئے اورمضبوط پاکستان کی نویدسنائی گئی مگرلاہور میں منعقدہ سیاسی عشائیے اور آزاد گروپ کے قیام نے حکومتی صفوں میں پھر ارتعاش پیدا کردیا ہے۔ وزیراعظم کو اس بات کا مکمل احساس ہوچکا کہ مہنگائی کے طوفان کے سامنے بند باندھنے، پاور سیکٹر میں گردشی قرضے کو نکیل ڈالنے اورگڈگورننس کو فروغ دیئے بغیر ڈوبتی نیا پار لے جانا مشکل ہے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے وزیراعظم جنگی بنیادوں پر نتائج کے خواہاں ہیں مگر انکی ٹیم اور افسر شاہی کے ذاتی مقاصد ڈوبتی ناؤ کے لیے بھنور بنا رہے ہیں۔
وزیراعظم گڈگورننس کے سب سے بڑے داعی ہیں۔ گڈگورننس کے فروغ کیلئے متعدد اقدامات بھی کرچکے تاکہ قومی خزانے اور عوام کو ہر سال کھربوں روپے کے نقصان سے بچایا جاسکے۔ وزیراعظم کی اس مہم میں ایف آئی اے ہراول دستہ کا کردار ادا کرتے دکھائی دے رہی ہے۔ وزیراعظم کی کاوشوں سے ہی ایف آئی اے برسوں سے منتظر افسران کی میرٹ پر ترقی، خالی پوسٹوں پرنئی بھرتیاں، نئے سرکلز کا قیام، بجٹ میں قابل قدر اضافہ، روٹیشن پالیسی، تنخواہ اور مراعات میں اضافہ اور شفافیت جیسے اقدامات کئے گئے مگر ان تمام اقدامات کے ثمرات سے حکومت اور عوام یکسر محروم ہے۔ اس محرومی کی بنیاد ی وجہ ایف آئی اے کے ملک بھر میں 90فیصد سے زائد سرکلز کا ایڈہاک ازم پر چلایا جانا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا اور پرکشش تصور کئے جانے والا کراچی سرکل بھی مکمل طو رپرایڈہاک ازم کی زد میں ہے۔ یہی نہیں وزیراعظم سرکل انچارج کے اہم ترین عہدوں پر تعینات قائمقام افسران کا ریکارڈ منگوالیں توغیرمتعلقہ تجربے اور شعبے کے حامل ایسے افسران کے نام سامنے آئیں گے کہ بندہ سر پیٹ کر رہ جائے۔ ایڈہاک ازم پربرسوں سے تعیناتیوں کی بڑی وجہ 5سال تک افسران کی ڈپٹی ڈائریکٹرز کے عہدوں پر ترقی نہ ہونا اور اقرباپروری ہے۔ ڈی جی ایف آئی ا ے واجد ضیاء کی کاوشوں کے نتیجے میں فروری میں بالآخر وزارت داخلہ میں ڈیپارٹمینٹل پروموشن کمیٹی کا اجلاس ہوا اور پانچ سال سے ترقی کے منتظر افسران کو میرٹ پر پروموٹ کیا گیا۔ یہ خبر ایڈہاک ازم کے متوالے افسران کو قطعی پسند نہ آئی اور پھر وہ ہوا جس کا ڈر تھا۔ وزارت داخلہ نے اڑھائی ماہ گزرنے کے باوجود ترقی پانیوالے افسران کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا، یوں معاملہ پھر طول پکڑ رہا ہے۔ امید ہے وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید اوروفاقی سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر ایف آئی اے کو کمزور کرنے والے عناصر کو شکست دیتے ہوئے وزیراعظم کے ایڈہاک ازم کے خاتمے اور گڈگورننس کے فروغ کے مشن کو کامیاب بنائیں گے۔ اس مشن میں پی ایس او ٹو سیکرٹری داخلہ نقیب ارشد بھی کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ نقیب ارشد کراچی تا گلگت بلتستان تک جاری چہ میگوئیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔
کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے مگر روشنیوں کے شہر، میں بجلی کا کمزور نظام بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ سپریم کور ٹ آف پاکستان نے عوامی مشکلات کے پیش اس معاملے کا نوٹس لیا اور یہ معاملہ بدستور عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اب وزارت نجکاری نے سرکاری دستاویز میں انکشاف کیا ہے کہK الیکٹرک سسٹم میں بہتری لانے کیلئے بھاری سرمایہ کاری درکارہے جبکہ ابراج گروپ سسٹم کی بہتری کیلئے مطلوبہ سرمایہ کاری کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ نیا سرمایہ کارہیK الیکٹرک انفراسٹرکچر میں مطلوبہ سرمایہ کاری کرکے عوام کی مشکلات دور کرسکتا ہے اور نیا سرمایہ کارچینی کمپنی شنگھائی الیکٹرک پاور ہے۔ یہ کمپنی 2016سے K الیکٹرک کے 66فیصد حصص خریدنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کررہی ہیں مگر وزارت نجکاری کی جانب سے نیشنل سیکورٹی سرٹیفیکٹ نہ ملنے کے باعث معاملہ لٹکا ہوا ہے۔ ابراج گروپ میں سعودی سرمایہ کاری موجود ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے بعد Kالیکٹرک کی چینی کمپنی شنگھائی الیکٹرک پاور کو فروخت میں پانچ سال سے حائل رکاوٹ ختم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ وزارت نجکاری نےK الیکٹرک اور سرکاری اداروں کے مابین 400 ارب روپے کی ادائیگیوں اور وصولیوں کا تنازع حل کرنے کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ریٹائرڈ جج کوثالث مقرر کرنے کی سفارش کی ہے۔ ثالثی کیلئے ڈرافٹ معاہدہK الیکٹرک نے تیار کیا ہے۔ پاور ڈویژن نےK الیکٹرک کے تیار کردہ ثالثی معاہدے کے ڈرافٹ پر ایکویٹی اور شفافیت کے اصولوں سمیت پانچ تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ مگر ایک بات طے ہے کراچی کے اطراف میں بجلی کے نئے پاور پلانٹس سے اضافی بجلی کی پیداوار شروع ہوچکی ہے۔ بلاتعطل اور سستی بجلی کراچی میں صنعتی پہیے کی رفتار تیزاور عوام کیلئے سکھ کا باعث بنے گی۔ اس سارے عمل میں شفافیت کی پاسداری اور پاور ڈویژن کے اعتراضات دور نہ ہوئے تویہ اقدام حکومت کیلئے کڑاامتحان ثابت ہوگا۔
دوسری جانب نیب نے پہلی مرتبہ دو سی پیک منصوبوں کے خلاف انکوائری شروع کردی ہے۔ ساہیوال اور پورٹ قاسم کول پاور منصوبہ نیب کے ریڈار پر ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے قائم کردہ آئی پی پیز انکوائری کمیشن نے دونوں پاور منصوبوں کی اضافی لاگت پرکئی سوالات اٹھائے تھے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی کے مطابق گزشتہ حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر مالی فوائد حاصل کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ پاور پلانٹس کی تنصیب کی اجازت دی گئی۔ انہی نکات پر نیب بھی اس معاملے کی چھین بین کررہا ہے۔ نیب ٹیم ساہیوال کول پاور پلانٹ میں اپوزیشن لیڈرمیاں شہباز شریف جبکہ پورٹ قاسم کول پاورپلانٹ میں میاں نوازشریف کا مالی مفاد کا کھوج لگانے کی کوشش کررہی ہے۔ نیب نے پاور ڈویژن سے متعلقہ دستاویز طلب کرلی ہیں۔ جانے نیب کی اس کھوج میں چین کا کیا ردعمل آئے گا؟ سی پیک منصوبوں کی سست روی اور حکومتی دلچسپی پر چین پہلے ہی دل گرفتہ ہے۔ بقول مصطفی خان شیفتہ:
اتنی نہ بڑھا پاکیء داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ!