نقب زنی
وزراء، کارکن اورپڑھی لکھی کلاس وزیراعظم عمران خان کی دیانت کے گن گاتے نہیں تھکتی مگر قومی خزانے اور عوام سے وارداتوں کا سلسلہ کیوں نہیں تھم رہا؟ عمران خان سے سب سے بڑی یہی امید تھی کہ قومی خزانے اور عوام کی جیبوں پر کوئی ڈاکا نہیں ڈال سکے گا۔ مافیاز خان کی ٹیم تک رسائی کا سوچ بھی نہیں سکیں گے۔ لوٹ مار والوں کا عدالتوں میں کڑا احتساب ہوگا مگر خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے فوجداری مقدمات خلاف قانون کابینہ میں حل ہونا شرو ع ہوگئے ہیں۔ کیا حکومت نے رولز آف بزنس میں ترمیم کرکے عدالت کے اختیارات کابینہ کوتفویض کردئیے ہیں؟ گزشتہ ہفتے ملتان میں معروف شاعر وادیب شاکر حسین شاکر اوردیگر ملتانی دوستوں کیساتھ سجی میں محفل میں سب کا یہی سوال تھا۔ دوبرس کے دوران قومی خزانے سے گیس انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ سرچار ج کی مد میں ملک بھر کے کسانوں سمیت عوام سے وصول شدہ 430 ارب روپے میں سے صنعتکاروں کو 50فیصد رقم معاف کرنے، گندم، آٹا، ا دویات اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے وقلت سمیت کئی سنگین وارداتیں ہوئیں۔ 29اگست 2019کو روزنامہ 92نیوز میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے 215ارب روپے بااثر صنعتکاروں کو معاف کرنے کی خبر اس خاکسار نے بریک کی۔
پھر میڈیااور اپوزیشن نے حکومت کو اس قدر آڑے ہاتھوں لیا کہ وزیراعظم کو احساس ہوا کہ قومی خزانے میں نقب لگ چکی۔ فوری اجلاس بلاکر صدارتی آرڈیننس پر عملدرآمد روکنے کے احکامات جاری کردئیے۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا، سماعتیں ہوئیں اور عدالت نے 20فروری کو فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت یہ فیصلہ آج سنائے گی۔ اس معاملے کے بعد وزیراعظم نے ناراضی کم کرتے ہوئے میڈیاکی خبروں پر توجہ دینا شروع کی تو نقب زنی کرنے والوں کی وارداتیں ناکام ہونے لگی ہیں۔ ای سی سی نے 15جولائی کو وزیر بحری امور علی زیدی کے انتہائی قریبی دوست عاطف رئیس اور انکی کمپنی ایل ایم کے آر کے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے درج ایف آئی آر واپس لینے کی منظوری دی تھی۔ روزنامہ 92نیوزنے 24جولائی کو عاطف رئیس کے خلا ف مقدمہ واپس لینے کی منظوری سے متعلق خبر بریک کی۔ یہ خلاف ضابطہ اقدام وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کے دیگر ارکان تک92نیوز کے ذریعے پہنچا تو وفاقی کابینہ نے عاطف رئیس کے خلاف ایف آئی آر واپس لینے کے فیصلے کی توثیق کرنے سے انکار کردیا۔ یوں وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی کا اپنے قریبی دوست چیف ایگزیکٹو آفیسر ایل ایم کے آر عاطف رئیس کے خلا ف درج مقدمہ ختم کروانے کا منصوبہ ناکام اورمیرٹ وغیر جانبداری کی بالادستی ہوگئی۔
دوسری حالیہ واردات بھی جان لیجئے۔ پٹرولیم ڈویژن نے غیرموزوں امیدوار احسن خان کو پاکستان کی سب سے بڑی آئل ریفائنری پارکو کا خلاف ضابطہ ایم ڈی تعینات کروانے کا منصوبہ بنایا کیونکہ احسن خان کا تعلق ایک تگڑے وفاقی وزیر سے تھا۔ ماہر کنسلٹنٹ نے احسن خان، ـ اکبر علی خان اور سید زوار حیدر کو چیف ایگزیکٹو آفیسر پارکو آئل ریفائنری کے عہدے کے لیے غیرموزوں قراردیا تو وزیر پٹرولیم عمر ایوب اور معاون خصوصی پٹرولیم ڈویژن ندیم بابر نے اپنی ہی وزارت کی چار رکنی کمیٹی قائم کرکے ماہر کنسلٹنٹ کی رائے مسترد کرتے ہوئے احسن خان کو نمبر ون امیدوار کے طور پر شامل کردیا۔ وزیراعظم آفس کی ہدایت پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے بھی پٹرولیم ڈویژن کے فیصلے کودوٹوک انداز میں مسترد کرتے ہوئے تینوں امیدواروں کو دوبارہ اہل قرار دینے کی مخالفت کردی۔ سمری حتمی منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی گئی تو وزیراعظم اور کابینہ ارکان نے پٹرولیم ڈویژن کی منصوبے کو خاک میں ملاتے ہوئے موزوں امیداوار شاہد محمود خان کو پارکو کا ایم ڈی تعینات کرنے کی منظوری دیدی۔ ان دونوں اقدام سے واضح ہوگیا ہے کہ وزیراعظم نے کابینہ ارکان پر اندھا اعتماد کرنے کا سلسلہ ختم کردیا ہے۔ اب شاید نقب زنی اتنی آسان نہیں ہوگی۔ نیویارک میں پی آئی اے کے روز ویلٹ ہوٹل پر بااثر شخصیات نے کئی برس سے نظریں جمائی ہوئی ہیں۔ کبھی نجکاری تو کبھی لیز آپشن پر بات کی گئی مگر اصل کھیل سرکاری دستاویز میں اب سامنے آیا ہے۔ چیئرمین پی آئی اے انوسٹمنٹ لمیٹڈ نے وفاقی حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ موجودہ حالات میں روز ویلٹ ہوٹل چلانا نا ممکن ہے۔ ہوٹل کارپویشن کی جانب سے جے پی مورگن سے5.05فیصد شرح سود پر 105ملین ڈالر قرض حاصل کیا گیا ہے۔ اپریل 2021تک قرض کی ادائیگی کی جانی ہے۔ سالانہ شرح سود 60لاکھ ڈالر کے قریب ہے۔
جے پی مورگن کی جانب سے 68.25ملین ڈالر کا قرض ایم ایس ڈی پی سی او ایف پارٹنر، کو فروخت کر دیا گیا ہے۔ جے پی مورگن کی جانب سے ایم ایس ڈی پی سی او ایف پارٹنرکو قرض کے حصے کو فروخت کرنے سے روز ویلٹ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے کیونکہ گزشتہ کچھ برس سے ایم ایس ڈی پی سی روز ویلٹ سائٹ کی تعمیر کیلئے مشترکہ منصوبے کیلئے بیتا ب ہے۔ ہدف حاصل کرنے کیلئے ایم ایس ڈی کی جانب سے فائدہ حاصل کرنے کی سرتوڑ کوششیں شروع کردیں ہیں۔ پی آئی اے انتظامیہ کے مطابق ایم ایس ڈی کی جانب سے روز ویلٹ ہوٹل کے قرض کا اہم حصہ حاصل کیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں قرض کی عدم ادائیگی کی صورت میں روز ویلٹ ہوٹل کو حاصل کیا جا سکے۔ بورڈنے روز ویلٹ ہوٹل کا آپریشن بند کرنے کی تجویز سمیت تمام یونین اور غیر یونین ملازمین کو 20ملین ڈالر کی رقم ادا کرکے ملازمت سے فارغ کرنے کی سفارش کردی ہے۔ ای سی سی نے بورڈ کی سفارش مانتے ہوئے 105ملین ڈالر جاری کرنے کی منظوری دیدی ہے مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ 105ملین ڈالر کے قرض سے روز ویلٹ ہوٹل اور ملک وقوم کو کیا فائد ہوا؟ عوامی توقعات کی روشنی میں وزیراعظم عمران خان نے قومی خزانے میں نقب زنی کرنے والوں کا ہاتھ روکنے کا سلسلہ تو شروع کردیا ہے مگر ایسے عناصر کو بے نقاب کرکے جب تک ضابطے کی کارروائی عمل میں نہیں لائے جائے گی، وارداتئے باز نہیں آئیں گے۔