اقتدار کا بھنور
میرٹ اور شفافیت پاکستان تحریک انصاف کا اولین منشور اور سب سے بڑا دعوی رہا ہے۔ اس دعوے کے اتنے نعرے لگے کہ عوام کوایسا گمان ہونے لگا کہ پاکستان تحریک انصاف ہی ملک کو درپیش مسائل اور چیلنجز سے چھٹکار ا دلا سکتی ہے۔ نئے پاکستان سے فلاحی ریاست کے قیام کاسفر، مہنگائی اور بدعنوانی کے عفریت کا خاتمہ صرف عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔
حکمرانوں کی کرپشن کے باعث روپے کی بے قدری، پیٹرولیم مصنوعات، چینی، آٹا، دالیں، گھی اور دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہوجاتا تھا تاہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں دیانتدار حکمرانوں اقتدار کی مسند پر فائز ہوں گے تو روپیہ کی قدر مستحکم، زرمبادلہ کے ذخائر میں ریکارڈ اضافہ اور مہنگائی کو بحیرہ عرب میں سمندر بُرد کردیا جائے گا۔ غیروں کے سامنے کشکول پھیلانے کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ جب حکمرانوں کی کرپشن کا خاتمہ ہوجائے گا تو اداروں کے مابین ہم آہنگی سے "سب ایک صفحے پر"کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کو اپنے نعروں اور وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے صوبائی ووفاقی سطح پر باصلاحیت اورپُرخلوص ٹیم درکار تھی۔ عمران خان کئی سالوں سے ایسی ہی انقلابی ٹیم تیار ہونے کامسلسل دعوی بھی کرتے چلے آرہے تھے۔ عوام کرکٹ ٹیم تشکیل دینے کے تجربات کی روشنی میں اُن کے دعووں پر پختہ یقین کر بیٹھی مگر وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد صوبائی و وفاقی سطح پر جو ٹیم تشکیل دی اُس کے نتائج روز روشن کی طرح عیاں ہوچکے ہیں۔ روپے کی بے قدری، مہنگائی، بدانتظامی، بد عنوانی، فیصلہ سازی اور میرٹ سے متعلق تمام تر دعووں کی اُلٹی گنگا بہہ نکلی ہے۔ اب اس گنگاکی لہریں شدت اختیار کرتے ہوئے سب کچھ بہانے کیلئے مضطرب دکھائی دے رہی ہیں۔
بلوچستان، آزاد جموں وکشمیر، پنجاب اورمرکزمیں کئے گئے غلط فیصلوں کے حالات سیاسی طوفان کی نشاندہی کررہے ہیں۔ سیاسی کشمکش، افواہوں اور سرگوشیوں کے باعث ہر روز عوام مہنگائی کی صورت میں خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ قومی مفاد میں پالیسی سازی کی راہ میں وزراء کے مابین اتفاق رائے قائم نہ ہونے سے مسائل گھمبیر ہورہے ہیں۔ صرف چار وزارتوں میں کوآرڈینیشن کے فقدان اور بے مداخلت کے نتیجے میں وزیراعظم عمران خان کی کاوشوں کو شدید دھچکا پہنچا ہے یہی وجہ ہے کہ 5ماہ قبل اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کو کنٹرول کرنے کیلئے شروع کی گئیں تمام کوششیں بے سود ثابت ہورہی ہے۔ صرف گندم اور چینی کی درآمد سے متعلق فیصلوں پر عملدرآمد میں تاخیر کے باعث قومی خزانے کو 20ارب روپے سے زائد نقصان پہنچ چکا ہے۔ اعلی سطحی اجلاس کے دوران ذمہ داران کے خلاف انکوائری کا فیصلہ کیا گیا مگر یہ انکوائری فائل ورک سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
دوسری جانب بلوچستان، پنجاب اور مرکز کے بعد آزاد کشمیر میں بھی سیاسی بُحران سراٹھاتا دکھائی دے رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے سردار عبدالقیوم نیازی کا آزاد کشمیر کیلئے بطور وزیراعظم انتخاب کرکے پارٹی رہنماؤں اور سیاسی مبصرین کو حیران کردیا تھا۔ اڑھائی کے ماہ دوران ہی آزاد کشمیر میں گورننس اور پالیسی سازی کے معاملات پر پارٹی میں شدید دراڑیں پڑگئیں ہیں۔ چند روز قبل وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم نیازی کی زیر صدارت پی ٹی آئی پارلیمانی پارٹی اور ٹکٹ ہولڈرز اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں اسپیکر چوہدری انوارالحق، سینئر وزیر سردار تنویر الیاس، وزیر خزانہ ماجد خان، وزیر خوراک علی شان سونی، وزیر جنگلات اکمل سرگالہ، وزیر زراعت و امور حیات میر اکبر خان، وزیر حکومت شاہدہ صغیر، مشیر حکومت اکبر ابراہیم، پارلیمانی سیکریٹری تقدیس گیلانی، سینئر پارلیمنٹیرین رفیق نیر نے شرکت ہی نہیں کی۔ ارکان کی غیر حاضری سیاسی بحران کا بیش خیمہ بن رہی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ پنجاب کی طرح آزاد کشمیر میں بھی سینئر افسران کے تقرر اور تبادلوں میں دو شخصیات کا سکہ چل رہا ہے۔ دو نوں شخصیات وزیر اعظم سردار عبدالقیوم نیازی کے قریبی عزیز ہیں۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر تعیناتی کے لیے مبینہ طور پر وزیراعظم کے بیٹے سردار ضرار اور بھتیجے سردار کمال افسروں کو انٹرویو کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ پہلا قدم اٹھاتے ہوئے گریڈ 20 کے افسر خالد کیانی کو او ایس ڈی بنا یا گیا پھر آزاد جمو ں وکشمیرکے سینئر ترین بیوروکریٹس کو کھڈے لائن لگا دیا گیا۔۔
آزاد جموں وکشمیر کی بیوروکریسی اور افسران سرکاری امور کی انجام دہی میں شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ ایسی مشکلات انہیں ماضی میں کبھی نہیں جھیلنی پڑیں۔ بیوروکریٹس نے اصولی فیصلہ کرلیا ہے کہ اگر سرکاری امور میں مداخلت اور دھمکیوں کا سلسلہ بند نہ ہوا تو وزیراعظم عمران خان کو خط لکھ کر صورتحال سے آگاہ کیا جائے گا۔ ایک تجویز یہ بھی زیر غور ہے کہ صدر آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو اعلی بیوروکریسی کی طرف سے ایک یادداشت بھیج کر تحفظات سے آگاہ کیا جائے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم نیازی کو نہ جانے کس نے مشورہ دیا ہے کہ آزاد کشمیر اسمبلی سے ایک ایسی قرارداد منطور کروائی جائے جس میں گلگت بلتستان کو علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہو۔ اس قرارداد کیلئے حمایت حاصل کرنے کیلئے وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم نیازی قانون ساز اسمبلی کے ارکان سے ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں۔
اگرچہ سینئر پارٹی ارکان نے تحفظات کا اظہارکرتے ہوئے وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم نیازی کو ایسا اقدام اٹھانے گریز کرنے کی تجویز دی ہے۔ اگر ایسی کوئی بھی قرارداد منظور ہوئی تو کشمیرکاز کو نقصان پہنچے گا۔ آزادکشمیر، صوبوں اور مرکز میں بے رحم سیاست اور اقتدار کا کھیل فیصلہ کن مرحلے کی جانب بڑھ چکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے رویے اور سوچ میں لچک ہی اقتدارکی کشتی کو بھنور سے نکالنے میں معاون ہوسکتی ہے ورنہ سیاسی طوفان میں پھنسی کشتی کے اُلٹنے کی بھاری قیمت وزیراعظم عمران خان سمیت مہنگائی کے چکی میں پستے عوام کو بھی چُکانا پڑے گی۔