ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا ؟
گزشتہ تین ماہ سے معاشی سرگرمیوں میں بہتری کے باعث وزیراعظم اور انکی ٹیم خاصی مطمئن دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ عوام کو وعدوں کے مطابق تبدیلی میسرنہیں آسکی مگر آئندہ مالی سال کے بجٹ میں گرینڈ ریلیف کے حکومتی شادیانے بجانے کاسلسلہ جار ی ہے۔ معاشی ترقی کے اعداد وشمار پر معاشی ماہرین اور حکومت کے مابین اتفاق نہیں مگر عوام پھر بھی دل کو تسلی دئیے بیٹھے تھے کہ صورتحال اب بڑی تیز ی سے بہتر ہونے جارہی ہے۔ حکومت نے تین سال کے دوران عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کے پیش نظر تمام کڑے فیصلے کرلئے ہیں۔
معاشی مشکلات اور بجٹ خسارے کی پیش نظر وزارت خزانہ نے جنوری 2021میں ایک انوکھا پلان تیار کیا تھا۔ چار ماہ کی انتھک کوششوں اور متعلقہ اداروں کی کلیئرنس حاصل کرنے کے بعد یہ پلان تیار کیا گیا تھا۔ پلان کے مطابق وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے ایف نائن پارک کو گروی رکھ 500ارب روپے قرض لینا مقصود تھا۔ وزارت خزانہ کی سرکاری دستاویز وفاقی کابینہ کے اجلاس سے دو روز قبل میرے ہاتھ لگ گئیں۔ دستاویز پڑھنے کے بعد روزنامہ 92نیوز اور 92نیوز ٹی وی میں خبر بریک کی۔ پھر کیا تھا کہ سوشل میڈیا پرعوام نے وزیراعظم سے نوٹس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے ڈائی ہارٹ فالورز نے پہلی مرتبہ حکومتی پالیسی پرتنقید کے نشتر برسا دئیے۔ سوشل میڈیا سیل کے سربراہ نے وزیراعظم کو عوامی جذبات سے متعلق رپورٹ پیش کی۔ وزیر اعظم عمران خا ن 26جنوری کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزارت خزانہ کی ٹیم پر برس پڑے کہ ایف نائن پارک کیساتھ عوام کے جذبات جڑے ہوئے۔ یہ پارک کسی صورت گروی رکھ کر قرض نہیں لیا جائے گا۔ معاشی ٹیم نے بجٹ مشکلات کے پیش نظر موقف اپنایا کہ پارک کو علامتی طور پر چند برس کے لیے گروی رکھا جائے گا۔ حکومت یہ قرض واپس کردے گی اور پارک کی گروی رہنے کی حیثیت ختم ہوجائے گی۔ وزیراعظم اسلام آباد کے شہریوں کے جذبات کے خلاف کسی صورت جانے پر تیار نہیں تھے۔ وزیراعظم کو اندازہ تھا کہ اس اقدام سے اسلام آباد کے مکینوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی لہٰذا وزیراعظم نے وزارت خزانہ کی سمری مسترد کرتے ہوئے ہدایت کی کہ افسر شاہی اور با اثر شخصیات کے لئے 244ایکڑ پر قائم اسلام آباد کلب کو گروی رکھ کرقرض لینے کا نیا پلان کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے۔
وزارت خزانہ نے پانچ ماہ تک خاموشی اختیار کئے رکھی۔ دوسری جانب معاشی اشارئیوں میں بہتری کے دعوؤں کے بعد بعض وزراء کا موقف تھا کہ اب حکومت کو کسی سرکاری اثاثے کو گروی رکھ کرقرض لینے کی ضرور ت پیش نہیں آئے گی۔ اخراجات میں کمی اور ریونیو میں اضافے سے حکومت اپنے تمام اہداف کامیابی سے حاصل کرکے پاکستان کو حقیقی تبدیلی کی شاہراہ ہر گامز ن کردے گی۔ بس کچھ دن میڈیا اور عوام ذرا صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔ صبر وتحمل کی تلقین اور معاشی بہتری کے بلندوبانگ دعوؤں کی گونج میں وزارت خزانہ نے ایک اور سمری وفاقی کابینہ کو بھیج دی۔ پلان وہی پراناکہ حکومت کو بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ سرکاری اثاثے گروی رکھ کر قرض لینے کی منظوری دی جائے مگر اس مرتبہ پلان میں 500ارب روپے قرض لینا شامل نہیں تھا بلکہ 1ہزار 800ارب روپے قرض لینے کی سفارش کی گئی۔ اس مرتبہ وزارت خزانہ کی جانب سے رہن رکھنے والے اثاثوں کی نظر ثانی شدہ فہرست سے فاطمہ جنا ح پارک اسلام آباد کا نام خارج کرد یا گیا مگر افسر شاہی نے کمال چالاکی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے اسلام آباد کلب کو اس فہرست میں شامل کرنے سے اجتناب کیا۔ وہی افسر شاہی جو ایف نائن پارک کوعلامتی طور پر گروی رکھنے کی توجیہہ پیش کرتی تھی، جب اپنے زیر استعمال اسلام آبادکلب کوعلامتی طو رپر گروی رکھنے کی باری آئی تو تمام افسران پتلی گلی سے نکل گئے۔ وزارت خزانہ کی سفارش پروفاقی کابینہ نے ایم ون موٹر وے اسلام آباد تا پشاور ایم تھری موٹر وے پنڈی بھٹیاں تا فیصل آباد، اسلام آباد ایکسپریس وے، اسلام آباد، لاہور اور ملتان ائیرپورٹس گروی رکھ کر قرض لینے کی منظوری دیدی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سا لہ دور حکومت میں اثاثے رہن رکھ 501ارب روپے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے 435ارب روپے کا قرض حاصل کیا۔ تحریک انصاف کی حکومت اپنے اڑھائی سالہ دور حکومت میں سرکاری اثاثے گروی رکھ کر 762 ارب روپے قرض حاصل کر چکی ہے جبکہ 1ہزار800ارب روپے مزید قرض لیا جائے گا۔ بجٹ خسارے میں اضافے کے باعث تحریک انصاف کی حکومت کے قرض کی رفتار اورحجم میں ریکارڈ اضافہ ہواہے۔
ایک اور کارنامہ بھی جان لیجئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ماضی کی حکومتوں کی جانب سے بااثر شخصیات اور کمپنیوں کے قرض معاف کرنے پر انتہائی سخت موقف اختیار کئے رکھا مگر سٹیٹ بینک آف پاکستان کی سپیشل انسپکشن رپورٹ میں انکشاف ہو ا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دورحکومت میں بااثرشخصیات اور کمپنیوں کوچار بینکوں کی جانب سے 1ارب 24کروڑ روپے سے زائد قرض معاف کیا گیا ہے۔ سرکاری بینک کی جانب سے بعض افراد اور کمپنیوں کو نوازنے کیلئے خلاف ضابطہ قرض معاف کیا گیا۔ سٹیٹ بینک نے سرکاری بینک کو ایکشن لینے کی ہدایت کردی، ناکامی کی صورت میں بھاری جرمانہ عائد ہوگا۔ عوامی مفاد کے پیش نظر قرض معاف کرنے کی رپورٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں بھی جمع کروائی جائے گی۔ سرکاری بینک نے 28کیسز میں 27کروڑ روپے جبکہ تین نجی بینکوں نے 97کروڑ روپے معاف کئے۔ نئے پاکستان میں بھی اگر اربوں روپے کے قرض معاف ہونا تھے تو پھر تبدیلی کا نعرہ بلند کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ دو، داستانیں لکھنے کے بعد مرزا غالب یاد آگئے:
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ!
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا