آخر ی راؤنڈ
تمام تر سیاسی چیلنجز اور پیش گوئیوں کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے تین سال کی مدت پوری کرلی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اقتدار کی مسند پر فائز ہونے سے پہلے عوامی توقعات کے پیش نظر ملکی نظام میں اصلاحات جبکہ معاشی خوشحالی کیلئے کئی اعلانات کئے تھے۔ امیر اور غریب کیلئے ایک قانون نافذکرنے کا وعدہ کیا گیاتھا۔ وزیراعظم نے پوری قوم کو باورکروایا کہ وہ قومیں تباہ ہوگئیں جنہوں نے امیر اور غریب کیلئے الگ قانون بنارکھے تھے۔ احتساب اور تبدیلی کا عمل حکومت بننے کے پہلے 6 ماہ میں مکمل ہوگا۔ بااثر شخصیات کوقرض کی معافی نہیں ملے گی۔ پہلے 6 ماہ میں 6 ہزار ارب روپے کا ٹیکس جمع کیا جائے گا۔ ٹیکس چوری اور سرکاری وسائل میں خوردبرد کا خاتمہ ہوگاجس سے عام آدمی کو فائدہ ہوگا۔ مہنگائی میں کمی اور روپے کی قدر میں استحکام لایاجائے گا۔ بجلی کے نرخ کم کئے جائیں گے۔ 50 لاکھ گھر تعمیر کرنے کیساتھ 1کروڑافراد کو نوکریاں فراہم کریں گے۔ وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر، گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاؤسز کو تعلیمی اداروں میں تبدیل کردیں گے۔ پروٹوکول کلچر کا خاتمہ ہوگا اور تمام وزرائے عام آدمی کی طرح سفر کریں گے۔
وفاقی کابینہ کودوماہ قبل پاکستان تحریک انصاف کے دورحکومت میں زرعی ترقیاتی بنک سمیت چار بینکوں کی جانب سے بااثرشخصیات اور کمپنیوں کو 1ارب 24کروڑ روپے معاف کرنے کا نوٹس لینا پڑگیا کیونکہ وزارت خزانہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بااثر شخصیات نے سرکاری اور نجی بینکوں سے بھاری قرض معاف کروالیا ہے۔ سرکاری بینک سے قرض معاف میں قواعد کی دھجیاں بھی بکھیری گئی ہیں۔ زرعی ترقیاتی بینک کی طرف سے 249.5 ملین اور4.8 ملین کے قرضے معاف کرنے کے معاملے پر اتفاق نہیں کیا۔ سٹیٹ بینک نے بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پالیسی پرعملدرآمد کو یقینی بنائے اور سٹیٹ بنک کی معائنہ ٹیم اور ان کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ دوماہ گزرنے کے باوجود افسرشاہی اور بااثر شخصیات نے یہ رپورٹ پیش نہیں ہونے دی اور معاملہ سردخانے کی نذرکردیا گیا۔ سرکاری بینک کی جانب سے بعض افراد اور کمپنیوں کو نوازنے کیلئے خلاف ضابطہ قرض معاف کئے گئے۔ سٹیٹ بینک نے سرکاری بینک کو ایکشن لینے کی ہدایت بھی کی تھی۔ ناکامی کی صورت میں بھاری جرمانہ عائد کرنے کی وارننگ بھی جاری ہوئی۔
وزارت داخلہ کی جانب سے اعلیٰ سطح اجلاس میں چند روز قبل ایک ہوش ربارپور ٹ پیش کی گئی۔ جبکہ ایک رپورٹ وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی گئی جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، وفاقی وصوبائی وزرائ، مشیران اور سرکاری افسران کی سکیورٹی اور پروٹوکول پر سالانہ 7ارب روپے سے زائد رقم قومی خزانے سے خر چ کی جارہی ہے جس میں سے 4ارب روپے وفاقی، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں کی جانب سے خرچ کئے جارہے ہیں۔ کسی بھی حکومت کیلئے سرکاری ڈھانچے اور اداروں میں اصلاحات کیلئے ابتدائی دوبرس میں مؤثر حکمت علمی اور منصوبہ بندی کیساتھ تبدیلی کا بیج بویا جاتا ہے۔ مسلسل دیکھ بھال اور آبیاری کے بعد چوتھے سال کے دوران ملک قوم کو ثمرات ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اقتدار کا چوتھا سال شروع ہوچکا۔ کوئی بھی کھلاڑی میدان میں کبھی شکست سے دوچار نہیں ہونا چاہتا۔ بہترکارکردگی اور حکمت عملی پر نظرثانی ہی ایک کھلاڑی کی آخری راؤنڈ میں فتح یا شکست کا فیصلہ کرتی ہے۔
امیر اورغریب کیلئے الگ قانون اور غربت میں کمی کا نوحہ بھی پڑ ھ لیجئے۔ ڈی جی ایف آئی اے کو منڈی بہاؤالدین کے ایک غریب خاندا ن کی جانب سے دل دہلا دینے والی درخواست موصول ہوئی۔ جس کے مطابق درخواست گزار نے بیان کیا ہے کہ ان کا تعلق ہے ایک انتہائی غریب اور شریف فیملی سے ہے۔ انکا حقیقی بھائی غلام فرید ایک سال سے بطو ر ویٹر کام کر رہا تھا۔ غلام فریدنا معلوم ایجنٹوں نے یونان میں ملازمت کا جھانسہ دے 22جون 2021کو ایرا ن لے کر گئے۔ 24جون2021کو کوئٹہ پہنچ کر ویڈیو بھیجی گئی جس میں میرا بھائی شعیب اور دیگر لوگوں کیساتھ سفر کر رہا تھا۔ ایران پہنچنے سے پہلے شعیب نے 8000روپے رشید سے منگوائے۔ اس کے بعد ہمارا اپنے بھائی سے رابطہ نہیں ہوا۔ ایران سے کال آئی۔ کال کرنے والے نے اپنا نام میاں تصوربتایا۔ میاں تصور نے بتایا کہ آپ کا بھائی ایران میں موجود ہے۔ فوری طور پر 1لاکھ80ہزار روپے کا بندو بست کروجبکہ بقایا رقم ترکی پہنچنے کے بعد وصول کریں گے۔ اس نمبر پر میاں تصور نامی شخص سے تین بار رابطہ ہوا۔ پھر ایک وٹس ایپ پر پیغام موصول ہوا جس میں بھائی کی موت کی اطلاع دی گئی۔ بتایا گیا کہ تہران میں پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ کیا جائے۔ اس خبر کے بعد تہران میں پاکستانی سفارتخانے کے نمبرپر رابطہ کیا گیا۔
پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے اس نام کے کسی شخص کی موت اورمیت سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا گیا۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میر ے بھائی کو قتل کردیا گیا ہے۔ ان افراد کی جانب سے 70 کے لگ بھگ افراد کو منڈی بہاؤ الدین اور گجرات کے مختلف علاقوں سے لے جایا گیا تھا جن میں سے کچھ لوگ زخمی اور کچھ انتقال کرگئے ہیں۔ ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود ایف آئی حکام نے ایف آئی آر کا اندراج نہیں کیا۔ غریب خاندان پہلے عمر بھر کی جمع پونجی سے محروم ہوا اور اسکے بعدمحنت مزدوری کرکے خاندان کا پیٹ پالنے والا نوجوان زندگی کی بازی ہاری گیا۔ غلام فرید سمیت انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں موت کے منہ میں جانے والے افراد کے اہل خانہ ریاست مدینہ میں ایف آئی آر درج کروانے میں بھی ناکام ہوگئے۔ یہ خاندان دہائیاں دیتے ہوئے ایک ہی سوال پوچھ رہا ہے کہ اپنے پیاروں کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کریں؟