آخر کب تک؟
راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل کی دُھول ابھی چھٹی نہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں ایک نئے اسکینڈل نے جنم لے لیا ہے۔ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے دونئے سیکٹرز تعمیر کرنے کیلئے 1985میں ایف 12اور جی 12سیکٹر کیلئے اراضی ایکوائر کی۔ اس اراضی پر مقدمات شروع ہونے اور سی ڈی اے کی ترجیحات بدلنے کے باعث سیکٹرز کی تعمیر لٹک گئی۔ وفاقی حکومت نے یہ دونوں سیکٹر فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاوسنگ اتھارٹی کے حوالے کردئیے تاکہ سرکاری افسران اور ملازمین کی رہائشی ضرورت پوری کرنے کیساتھ عام شہریوں کو بھی رہائش کی بہتری سہولیات مسیر آسکیں مگر ایف جی ای ایچ اے کے افسران اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹوں نے اس منصوبے کو بھی نہیں بخشا۔ ایف جی ای ایچ اے کے افسران کی واردات کا نشانہ بننے والا ٹھلہ سیداں کے رہائشی ملک محمد عمران نے 26مئی کوانصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہاوسنگ طارق بشیر کے سامنے تحریری شکایت پیش کی:
"میں ٹھلہ سیداں کا رہائشی ہوں۔ میرے 116نمبر گلی میں مکان موجود تھے جن کا بی یو پی نمبر 956ہے۔ میرے والد کا نام تبدیل کرتے ہوئے فرضی نام محمد عمران ولد محمد طفیل درج کیا گیا۔ ساری کارروائی وزارت ہاؤسنگ کے پٹواری کی جانب سے کی گئی ہے۔ پٹواری نے اپنے رشتہ دار کو بی یو پی نمبر956میں ڈال دیا گیا ہے۔ میری جانب سے 2017سے وزارت ہاؤسنگ میں درخواست دی گئی تاہم تاحال شنوائی نہیں ہوئی۔ وزیر ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے معاملے کا نوٹس لیں اور پٹواری کو بلا کر انکوائری کریں "۔
وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے فوری طور پر اس معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دیدیا۔ وفاقی سیکرٹری ہاؤسنگ عمران زیب نے معلومات حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کیا تو ہوشربا انکشافات سامنے آگئے۔ نیب لاہور کو مطلوب فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاوسنگ اتھارٹی کے نائب تحصیلدار سمیت 6افسران نے اسلام آباد کے دو نئے سیکٹرایف 12 اور جی 12 سیکٹر کی سینکڑوں کینال اراضی حقیقی مالکان سے اپنے رشتے داروں اور دوستوں کے نام پر پاور آف اٹارنی حاصل کرکے اربوں روپے کی ادائیگیوں کا سلسلہ شروع کروایا۔ ایف جی ای ایچ اے نے ہائیکورٹ کے فیصلے کی روشنی میں اراضی مالکان کو 72لاکھ 33ہزار500روپے فی کینال ادائیگی کی منظوری دی تاہم سرکاری افسران اور انکے انویسٹردوستوں نے اراضی مالکان پر دباؤ ڈال کر20سے 30لاکھ روپے فی کینال ادائیگی پر قائل کرکے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے نام پر پاورآف اٹارنی حاصل کئے۔
متاثرین کی شکایت پر وفاقی وزیر ہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ نے نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی فیڈرل ہاؤسنگ اتھارٹی کو 76کروڑ روپے کی ادائیگی سے روک دیا ہے۔ بنیادی طور پر پاور آف اٹارنی کے ذریعے 15ارب روپے سے زائد رقم حقیقی مالکان سے اینٹھنے کا پلان تیار کیا گیا تھا۔ وفاقی وزیرہاؤسنگ طارق بشیر چیمہ اور سیکرٹری ہاؤسنگ عمران زیب نے پاور آف اٹارنی کے بجائے تمام اراضی مالکان کو براہ راست ادائیگیوں کا حکم دیتے ہوئے ذمہ دار افسران کے خلاف انکوائری کی ہدایت کردی ہے۔ ڈی جی طارق رشید کی ہدایت پر ایف 12اور جی 12کے حقیقی مالکان کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ عدالت کے فیصلے کی روشنی میں مقررہ کردہ ریٹ پر وصولی کیلئے ایف جی ای ایچ اے سے براہ راست رابطہ کریں۔ راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ عوامی مشکلات کے باعث بنانے کا فیصلہ کیا گیاتھا۔ منصوبہ کی تعمیر تو شروع نہیں ہوئی مگر ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کے ہاتھوں عوام لُٹ گئے۔ ایف 12اور جی 12منصوبہ بھی عوام کی سہولت کے پیش نظر تعمیر کرنے کافیصلہ ہوا مگر یہ سہولت، بھی سرکاری افسران اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹوں کے کھیل کی نذر ہورہی ہے۔ نیب کی حالیہ کارروائیوں کے باوجود سرکاری افسران کا کھیل نہ جانے کب ختم ہوگا؟
دوسری جانب وفاقی دارالحکومت کو محفوظ بنانےقبضہ مافیا کا خاتمہ، حادثات اور جرائم کنٹرول کرنے کیلئے آئی جی اسلام آباد قاضی جمیل الرحمان نے انتھک کوششوں سے ایک مربوط پلان تشکیل دیدیا ہے۔ اسلام آباد میں کارچوری اور ڈکیتی کی 90فیصد سے زائد وارداتوں میں خیبر پختونخوا اور پنجاب میں مقیم افراد ملوث ہوتے ہیں۔ یہ افراد اسلام آباد میں کارروائی کرنے کے بعد فرار ہوجاتے تھے۔ ایسے مجرمان کے پی کے بعض علاقوں کو سیف ہیون، تصور کرتے تھے۔ آئی جی اسلام آباد کی ہدایت پر ناصرف خیبرپختونخوا اور پنجاب کیساتھ مجرما ن کا ڈیٹاشیئر کیا گیا بلکہ کئی مجرمان کو اسلام آباد پولیس نے کے پی کے میں چھاپہ مارکرسیف ہیون، سے گرفتار بھی کیا ہے۔ اسلام آباد میں پولیس افسران اپنی کارکردگی خراب ہونے کے خدشے کے پیش نظرزیادہ ایف آئی آر درج نہیں کرتے تھے مگر آئی جی اسلام آباد قاضی جمیل الرحمان نے ہر شہری کی درخواست پر قواعد وضوابط کے مطابق ایف آئی آر کا اندارج لازم قرار دیدیا ہے۔ پولیس افسران کی کارکردگی کی راہ میں زیادہ ایف آئی آر کا اندارج رکاوٹ نہیں بنے گا۔ قبضہ مافیا کی سرکوبی کیلئے پہلی مرتبہ نیا سسٹم تشکیل دیدیا گیا ہے جس کے تحت 15میں ایک خصوصی ڈیسک اور فورس قائم کردی گئی ہے۔ سیف سٹی پراجیکٹ کے 19 سو سے زائد کیمروں سے پورے شہر اور مضافاتی علاقوں کی نگرانی ممکن نہیں۔ ان کیمروں سے جرائم کو ٹریس کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔
گزشتہ ایک ماہ میں ٹریفک اشاروں کی خلاف ورزی پرقریباً 15 ہزار ڈرائیورز کووارنگز بھی اسی سسٹم کی بدولت بھیجی گئی ہیں۔ روزانہ 2 سو کے قریب ای چالان ٹریفک سگنلز کی خلاف ورزی اور اوور سپیڈ پر پاکستان پوسٹ کے ذریعے گاڑی مالکان کے گھروں میں بھیجے جا رہے ہیں۔ آئی جی اسلام آباد کے نئے پلان کو تمام افسران اور سٹیک ہولڈرز نے خلوص دل کیساتھ نافذکردیا تو یقین مانئے اسلام آباد واقعی مثالی دارالحکومت بن جائے گا۔