یاد رفتگاں
تبدیلی و تغیر ایک فطری عمل ہے۔ ہر آن بدلتی دنیا میں ہر شے تغیر پذیر ہے۔ بقول شاعر " ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں " چنانچہ ہماری زندگی کا رُخ بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ تبدیلی کے اس عمل کے نتیجے میں ہماری سوچ اور اپروچ بھی بدل رہی ہے اور ہمارا مزاج بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ ارتقا کے اس سفر میں بہت سی چیزیں ترک ہو رہی ہیں اور بعض نئی چیزیں ہماری زندگی میں داخل اور شامل ہو رہی ہیں۔
ریڈیو پاکستان کے ساتھ تقریباً 30 سالہ وابستگی کے دوران ہم نے اس بے مثال ادارے کے مختلف شعبوں میں، بڑے بڑے اسٹیشنوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن کے حوالے سے شاید یہی کہہ دینا کافی اور مناسب ہوگا کہ ہم نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں سربراہان مملکت سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ملکی اور غیر ملکی نامور شخصیات سے بالمشافہ ملاقات کا شرف بھی حاصل ہے۔
چونکہ موسیقی سے ہمیں خاص لگاؤ رہا ہے اس لیے اس کا تذکرہ سرفہرست بھی ہے اور آج کا موضوع بھی ہے۔ ویسے بھی موسیقی وہ جادو ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ جب تک تان سین اور حضرت امیر خسرو کے نام زندہ رہیں گے تب تک موسیقی اور موسیقاروں کے تذکرے اور چرچے بھی جاری و ساری رہیں گے۔ بعض مذاہب میں تو موسیقی کو عبادت کا درجہ حاصل ہے۔
اس حوالے اس وقت ہمیں انگریزی زبان کے ممتاز شاعر جان ڈرائیڈن کی ایک خوبصورت نظم بعنوان "A Song From Atlanta in Calydon" یاد آرہی ہے جس میں موسیقی کو مہد سے لحد تک انسانی زندگی کا احاطہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ انگریزی کے ایک اور مشہور و معروف شاعر پی۔ بی شیلے کی چھوٹی سی مگر بے حد متاثر کن نظم بعنوان "Music When………Voice Die" بھی موسیقی کی سحر انگیزی کی ترجمان ہے جسے بار بار پڑھنے کے بعد بھی انسان کا جی نہیں بھرتا۔ سب سے زیادہ اثرانگیز وہ نغمات ہوتے ہیں جو پرسوز ہوتے ہیں۔ بقول اقبال:
گانا اسے سمجھ کر خوش ہوں نہ سننے والے
دکھے ہوئے دلوں کی فریاد یہ صدا ہے
سر سنگیت کے حوالے سے گزشتہ ماہ دسمبر 2019 خصوصی اہمیت کا حامل تھاکیونکہ اس ماہ ملک کی مایہ ناز گلوکارہ اقبال بانو کی 81 ویں سال گرہ بڑی دھوم دھام سے منائی گئی اور ریڈیو سے اس موقع پر اس منفرد گلوکارہ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے خصوصی پروگرام بھی نشر کیے گئے جس میں ریڈیو پاکستان ہمیشہ کی طرح نمایاں اور پیش پیش رہا۔ اقبال بانو کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں :
کہ آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے
اقبال بانو کو ہم باجی اقبال بانو بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ عمر میں ہم سے ایک سال بڑی تھیں۔ ان میں اور ہم میں دو باتیں قدر مشترک کہی جاسکتی ہیں۔ ایک برصغیر کا تاریخی شہر دلی جہاں وہ 1938 میں پیدا ہوئیں اور جہاں ہم نے اپنی جوانی گزاری اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور دوسرے پاکستان اور ریڈیو پاکستان جس نے اقبال بانو اور ہمارے ٹیلنٹ کو چمکایا اور پروان چڑھایا۔ سریلی اور مدھر آواز کا جوہر اقبال بانو کے لیے عطیہ خداوندی تھا جسے انھوں نے اپنی محنت اور کاوش سے چار چاند لگا دیے اور اپنا لوہا منوایا۔ غزل ہو، گیت ہو یا کوئی اور صنف سخن اقبال بانو کی آواز اسے کیا سے کیا بنا دیتی تھی۔ ان کی آواز جادو سا جگاتی ہوئی آواز تھی جس کے بارے میں برجستہ کہا جاسکتا ہے:
اس گوہر ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
اقبال بانو کوئی عطائی گلوکارہ نہیں تھیں۔ انھوں نے گائیکی کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کلاسیکی موسیقی کے نامور فنکار استاد چاند خان کے زیر سایہ رہ کر حاصل کی اور اسے درجہ کمال تک پہنچایا۔ انھوں نے اپنی گلوکاری کا آغاز نوعمری ہی میں آل انڈیا ریڈیو پر اپنی دلکش آواز کا جادو جگاتے ہوئے کیا اور ابتدا ہی میں بڑی مقبولیت اور شہرت حاصل کی جس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا۔
سال 1952 میں ان کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا اور وہ دلی اور ہندوستان کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر ہجرت کرکے پاکستان آگئیں اور لاہور میں سکونت اختیار کرکے ریڈیو پاکستان، لاہور پر جلوہ گر ہونے لگیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے پلے بیک سنگر کے طور پر پاکستانی فلموں کے لیے بھی گانا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بلند مقام حاصل کرلیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے موسیقی کی محفلوں میں بھی اپنی گائیکی کی دھاک بٹھانا شروع کردی جس کی بدولت انھیں لازوال شہرت اور مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کا شمار صف اول کی گلوکاراؤں میں ہونے لگا۔ ان کی شہرت کے ڈنکے پاکستان کے باہر بیرونی دنیا میں بھی خوب زور و شور سے بجنے لگے۔ موسیقی کے شعبے میں ان کی غیر معمولی کارکردگی کے اعتراف میں انھیں 1974 میں حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے نوازا گیا۔
صدر جنرل محمد ضیا الحق کے دور حکمرانی میں 1985 میں لاہور اسٹیڈیم میں منعقدہ ایک محفل موسیقی میں سیاہ ساڑھی زیب تن کرکے فیض احمد فیض کا کلام گانے کی پاداش میں انھیں ٹی وی پر گانے سے روک دیا گیا جس سے ان کی شہرت اور مقبولیت میں کمی آنے کے بجائے مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ گویا یہ حکومتی پابندی اقبال بانو کے حق میں سزا کے بجائے خیرمستور ثابت ہوئی۔ سن 2009 کو اس عظیم گلوکارہ نے لاہور میں آخری سانس لے کر رخت سفر باندھا اور اس جہان فانی کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر ملک عدم کی راہ اختیار کی۔
29 دسمبر استاد چھوٹے غلام علی خاں کی برسی کے حوالے سے ایک یادگار دن تھا جو سن 1980 میں وفات پا کر لاہور کے مشہور قبرستان میانی صاحب میں آسودہ خاک ہوئے۔ زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔ واللہ کلاسیکی موسیقی کے یہ نابغہ روزگار عظمت کا بلند مینار، سادگی اور کسر نفسی کا شاہکار اور بے شمار اعلیٰ اوصاف کے آئینہ دار تھے۔
صاحب موصوف کا تعلق بھی اسی سوہنڑے شہر سے تھا جو ملکہ ترنم مادام نور جہاں کی جنم بھومی ہونے کے حوالے سے اپنی ایک مخصوص اہمیت اور شہرت رکھتا ہے۔ مرحوم جب ایک مرتبہ کراچی تشریف لائے تو احقر نے نہ صرف ریڈیو پاکستان کی ہندی سروس کے لیے نہ صرف ان کا خصوصی انٹرویو کیا تھا بلکہ ان کی آواز میں کلاسیکی موسیقی کے کئی نمونے بھی ریکارڈ کیے تھے۔
انٹرویو سے قبل میں نے استاد محترم سے ازراہ مذاق یہ سوال بھی کیا تھا کہ کلاسیکی موسیقی کے کلاکار گاتے ہوئے بری بری شکلیں کیوں بناتے ہیں کہ جن کو دیکھ کر وحشت اور کلاسیکی گائیکی سے نفرت و کراہیت پیدا ہوتی ہے۔ جواباً استاد مکرم نے یہ فرمایا تھا کہ آپ میری گائیکی کی ریکارڈنگ کے دوران جوتے ہاتھوں میں رکھیں اور جوں ہی میری شکل بگڑے فوراً جوتے میرے منہ پر بلاتامل رسید کردیں۔ چنانچہ چار و ناچار میں ریکارڈنگ کے دوران میں جوتے لے کر بیٹھ گیا۔ استاد کی شکل گاتے دوران اور بھی نکھر اور سنور گئی تھی اور یوں محسوس ہو رہا تھا گویا مسکرا رہے ہوں۔
ریکارڈنگ ختم ہونے کے بعد استاد نے مجھ سے یہ گلہ کیا کہ میں نے ان کے منہ پر جوتے کیوں نہیں مارے؟ میں نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ جناب آپ کے گانے کے دوران آپ کا چہرہ مزید نکھر اور سنور گیا تھا اور یوں لگ رہا تھا جیسے آپ مسکرا رہے ہیں۔ استاد نے فرمایا کہ کلاسیکی گائیکی کے دوران شکلوں کے بگڑنے کی وجہ کلاسیکی موسیقی نہیں بلکہ گلوکاروں کا گانے کا انداز ہے۔ استاد کا اصرار تھا کہ چونکہ بڑے غلام علی خاں اللہ کو پیارے ہوچکے اس لیے اب ان کے نام کے شروع میں لفظ "چھوٹے" کا لاحقہ غیر ضروری ہے لہٰذا اسے ہٹا دیا جائے اور انھیں استاد غلام علی کہا جائے۔
استاد غلام علی خاں سن 1910 میں قصور کے موسیقار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ موسیقی ان کی گھٹی اور خمیر میں شامل تھی جس کی ابتدائی تعلیم انھوں نے اپنے والد سے حاصل کی اور اس کے بعد اسے اپنی ذاتی صلاحیتوں اور کوششوں سے خوب نکھارا اور سنوارا۔ کلاسیکی موسیقی کی مختلف اصناف خصوصاً دھریہ، خیال اور غزل پر انھیں عبور حاصل تھا۔ ان کے مشہور شاگردوں میں بدرالزماں، فخرالزماں اور شاہدہ پروین کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
30 دسمبر کی تاریخ لافانی گلوکارہ کوثر پروین کی وفات کا زخم تازہ کردیتی ہے جو 24 سال کی جوان عمر میں سن 1967 میں داغ مفارقت دے کر اس جہان فانی کو چھوڑ کر ملک عدم روانہ ہوگئیں۔ یہ بھی عجب حسن اتفاق ہے کہ ان کے والد عنایت حسین اور ان کے شوہر علم دار اختر حسین بھی بلند پایہ موسیقار تھے جن سے کوثر پروین نے خوب اکتساب فیض کیا۔
کوثر پروین ایک ورسٹائل گلوکارہ تھیں جنھیں المیہ اور طربیہ گانوں پر یکساں عبور حاصل تھا۔ ان کی آواز نعتوں کے لیے بھی انتہائی موزوں تھی۔ ان کی آواز میں مولانا الطاف حسین حالی کی مشہور نعت "وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا" کو سن کر وجد طاری ہو جاتا ہے۔ کوثر پروین نے گلوکاری کا آغاز 1954 میں کیا تھا جس کے بعد بہت جلد فلمی دنیا میں ان کے نغموں کی دھوم مچ گئی۔