پی ٹی آئی حکومت کی پہلی سالگرہ اور عوام
وطن عزیز پاکستان میں " تبدیلی" کے پرکشش نعرے اور وعدے کی بنیاد پر برسر اقتدار آنے والی " نیا پاکستان " بنانے کی دعوے دار حکومت کے قیام کو ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر ملک کے سیاسی افق پر بے یقینی اور معاشی میدان میں ابتری میں کوئی کمی واقع ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔
عام آدمی کے روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں میں صبح شام اضافے نے جینا حرام کرکے رکھ دیا ہے اور اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اپنی سفید پوشی کا بھرم توکجا جسم و جاں کا رشتہ کس طرح برقرار رکھے۔ کیفیت یہ ہے کہ بقول مرزا غالب:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا توکدھر جائیں گے
اس تلخ حقیقت سے تو کسی بھی شخص کو انکار نہیں کہ ابتری کی اس صورتحال کے ذمے دار ہمارے ماضی کے حکمران ہیں جن کی غلط پالیسیوں، عاقبت نااندیش، مجرمانہ غفلت اور لوٹ مارکا خمیازہ پوری قوم اور بالخصوص بے قصور اور بے بس عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ سارا ملبہ ماضی کی کرپٹ اور نا اہل حکومتوں پر گرا کر اپنا دامن چھڑا لیا جائے اور بے چارے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ گزشتہ عام انتخابات کے وقت پاکستان کے عوام کی حالت یہ تھی کہ بقول غالب:
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
عمران خان کی صورت میں مایوسی کا شکار عوام کو وہ مسیحا نظر آیا جس کی انھیں مدت دراز سے تلاش تھی۔ بس پھر کیا ہوا "اندھا کیا چاہے دو آنکھیں" والی کہاوت کے مصداق انھوں نے اپنے ووٹ عمران خان کی جھولی میں ڈال دیے اور انھیں وزیر اعظم بناکر ان کا دیرینہ خواب پورا اور اپنا قومی فریضہ ادا کردیا۔
پاکستان کے عوام کو وزیر اعظم عمران خان کی نیک نیتی اور ایمانداری پر آج بھی بھروسہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اب بھی ان کی جانب آس لگائے بیٹھے ہیں اور ان کے مخالفین کے بار بار اکسانے کے باوجود حکومت کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔ آسمان کو چھوتی ہوئی بے لگام مہنگائی اور تیزی سے بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے اور ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہو رہے ہیں اور ان پر نزع کی حالت طاری ہے۔ انھیں "میکرو" اور "مائیکرو" کی معاشی اصطلاحات سے بہلانا اور پھسلانا لاحاصل ہوگا۔ انھیں آئی ایم ایف کی شرائط و ہدایات سے بھی کوئی سروکار نہیں۔ انھیں تو محض اپنی روٹی سے غرض اور واسطہ ہے جو کہ ایک قدرتی تقاضا ہے کیونکہ:
بھوکے کو چاند میں نظر آتی ہیں روٹیاں
عوام روز افزوں بڑھتے ہوئے معاشی مسائل سے تنگ آچکے ہیں۔ ان کی قوت برداشت جواب دے رہی ہے اور انھیں مستقبل کے سہانے خواب دکھا دکھا کر مزید بہلایا نہیں جاسکتا۔ ان کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے۔ اب اگر ارباب اختیار نے مزید غفلت اور تاخیر کا مظاہرہ کیا تو حالات بگڑ جانے کا اندیشہ لاحق ہے جس سے ملک و قوم مخالف قوتیں فائدہ اٹھانے کی کوشش کرسکتی ہیں۔ پے درپے اکھاڑ پچھاڑ اور عجلتی اقدامات سے حکومت کی ناتجربہ کاری اور نااہلی کے عمومی تاثر کو تقویت حاصل ہو رہی ہے جو حکومت کی ساکھ کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ سیانوں کا قول ہے کہ لاکھ سے زیادہ ساکھ کو اہمیت حاصل ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کو اقتدار میں آئے ہوئے ایک سال ہوچکا ہے مگر اس کا بیانیہ تبدیل نہیں ہوا۔ اس کے بیشتر رہنماؤں کا لب و لہجہ ابھی تک وہی اپوزیشن والا ہے۔ یہ وہی انداز گفتگو ہے جس کے بارے میں غالب نے فرمایا ہے:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تُو کیا ہے
تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
اختلاف رائے کو خندہ پیشانی اور ضبط و تحمل سے برداشت کرکے جواباً برد باری اور شائستگی سے پیش آنا جمہوری نظام کا اولین تقاضا ہے۔ افسوس کہ ہمارے بعض ارکان پارلیمان آداب پارلیمان سے بھی واقف نہیں۔ ان ناشناسوں کو بھلا کون یہ بات سمجھائے کہ اے نادان دوستو!
دوستی پر ہی نہیں ہے موقوف
دشمنی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں
حکومت کی پالیسیوں اور طرز عمل پر تنقید اور احتجاج کرنا جمہوری نظام کے مطابق اپوزیشن کا بنیادی حق ہے جس سے اسے ہرگز محروم نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا اپوزیشن کے احتجاج پر حکومتی ارکان کا چراغ پا ہونا قطعی بے جا اور جمہوری تقاضوں کے عین منافی ہے۔ گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن کے احتجاج پر حکومت کی جانب سے جو ردعمل سامنے آیا تھا اسے جمہوری روایات کے شایان شان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت کی جانب سے ذرا سی بات کو انا کا مسئلہ بناکر اپوزیشن کو احتجاج کا موقع فراہم کرنا فہم سے بالاتر ہے۔
اس روش سے پارلیمان کا وقار اور تقدس پامال ہو رہا ہے جس سے جمہوریت کو خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ اس صورتحال کی ذمے داری اپوزیشن سے زیادہ حکومت اور خود وزیر اعظم پر عائد ہوتی ہے جنھیں عدم برداشت کو ترک کرکے Sportsman Spirit کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپوزیشن کے لیے ایک قابل تقلید مثال پیش کرنا چاہیے۔ ویسے بھی ہمارے وزیر اعظم کرکٹ کے ایک عظیم کھلاڑی ہیں جن کی عظمت کو ان کے حریف بھی کھل کر تسلیم کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے مملکت خداداد پاکستان کو بے تحاشا قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے اور اس کی افرادی قوت کی بھی پوری دنیا معترف ہے لیکن سیاسی مفاد پرستی اور سازشوں نے اسے کہیں کا نہیں چھوڑا حتیٰ کہ سانحہ سقوط مشرقی پاکستان کے نتیجے میں یہ ملک دولخت ہوگیا۔ افسوس صد افسوس کہ ہمارے سیاسی ناخداؤں نے اس عظیم سانحے سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ بڑے دکھ کے ساتھ محسن بھوپالی کے الفاظ میں کف افسوس ملتے ہوئے بس مجبوراً ہی کہنا پڑتا ہے :
نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا کر قوم کو ہیجان میں مبتلا کرنا ہماری سیاست کا معمول ہے۔ بظاہر ہر سیاسی تحریک یا احتجاج کا مقصد اور ہدف ملک و قوم کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوتا ہے مگر اس کا انجام مزید ابتری، بے یقینی اور انتشار میں اضافے کی صورت میں ہی نمودار ہوتا ہے۔ ملک کی موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف انتخابی دھاندلی، کرپشن، بدعنوانی اور مہنگائی کے خلاف احتجاج اور "تبدیلی" کے نام پر ہی گزشتہ عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے برسر اقتدار آئی تھی۔
مگر اس کی یہ کامیابی ابھی تک عوام کی زندگیوں میں کوئی قابل ذکر مثبت تبدیلی لاتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔ سچ پوچھیے تو بے چارے عوام پہلے سے بھی زیادہ پریشان حال ہیں کیونکہ روزبروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ان کی کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے۔ شاید اس کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ تبدیلی کی دعویدار حکومت کے پاس ملک و قوم کے مسائل کے حل کے لیے کوئی منظم منصوبہ بندی، جامع حکمت عملی اور بھرپور تیاری موجود ہی نہیں تھی۔
لاوا پک چکا ہے اور حزب اختلاف کی جماعتیں عوام کی پریشان حالی اور مایوسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کے خلاف سیاسی گٹھ جوڑ کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ آیندہ کسی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں ملک میں کوئی بہتر اور نمایاں تبدیلی آسکے گی۔ غالب اندیشہ یہ ہے کہ ایسی کسی بھی تحریک کا اصل مقصد ملک و قوم کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے نام پر صرف اپنا اُلّو سیدھا کرنا ہوگا اور اس کے نتیجے میں ملک کے سیاسی و معاشی استحکام کے لیے مزید خطرات پیدا ہوں گے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کی پہلی سال گرہ کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان کے لیے ہمارا مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے ساتھ محاذ آرائی پر اپنی توانائیاں ضایع کرنے کے بجائے اپنی تمام تر توجہ پریشان حال عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے پر مرکوزکریں۔