بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب
اس میں کوئی شک نہیں کہ وادی کشمیر فردوس ارضی ہے۔ بقول شاعر:
اگر فردوس بر رُوئے زمیں است
ہمیں است، و ہمیں است و ہمیں است
فارسی زبان کے درج بالا خوبصورت اور حقیقت آمیز شعر کا سادہ اور سلیس اردو ترجمہ یہ ہوا:
اگر جنت کہیں ہوتی زمیں پر
یہیں ہوتی، یہیں ہوتی، یہیں پر
لیکن افسوس صد افسوس کہ بھارت کے مسلسل ناجائز اور غاصبانہ تسلط نے اس وادی جنت نظیر کو جہنم کدہ اور قید خانہ بنادیا ہے۔ مقبوضہ وادی اور اس میں بسنے والے مظلوم کشمیری حریت پسندوں کی دکھ بھری اور رقت آمیز داستان انتہائی پرسوز بھی ہے اور طویل بھی۔
کہاں تک سنو گے، کہاں تک سنائیں
قصہ مختصر 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے وقت خطے کے بٹوارے کے بنیادی اصول طے کرنے کے لیے وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ 3 جون کو ایک تاریخی اجلاس ہوا جس میں کانگریس اور مسلم لیگ کے علاوہ سکھوں کے نمایندے بھی شریک ہوئے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس اجلاس میں تقسیم سے متعلق اپنا منصوبہ پیش کیا جس کی اولین بنیاد برصغیر پاک و ہند کو مسلم اکثریت والے علاقوں اور ہندو اکثریتی علاقوں پر مشتمل دو الگ الگ آزاد اور خودمختار مملکتوں میں تقسیم تھی جب کہ کچھ جگہوں پر وہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق ان کے حق خود ارادیت کے ذریعے اس بات کا فیصلہ کرنا تھا کہ وہ اس تقسیم کے تحت بھارت کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا پاکستان کا؟
برصغیر کی تقسیم سے متعلق 3 جون 1947 کے فارمولے کے تحت ریاستوں کی آزادی اور الحاق کے لیے جو اصول طے ہوئے تھے، ان سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا تھا لیکن جب کشمیریوں کو ان کے حق خود ارادیت کا موقع نہیں دیا گیا تو انھوں نے 19 جولائی 1947 کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کی اور اس کے ساتھ ہی جموں وکشمیر اسمبلی کے مسلم اراکین نے الحاق پاکستان کا اعلان کردیا اور ریاست گیر تحریک برپا کر دی جسے طاقت کے زور پر کچلنے میں جابر و ظالم ڈوگرہ راج نے کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔
انصاف کے قاتل فرنگی آقاؤں نے اس نازک موقع پر بھارت کا ساتھ دیا اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ریڈکلف کی پشت پناہی وکشمیری مہاراجہ ہری سنگھ کی حمایت سے طے پانے والے ایک نام نہاد معاہدے کی آڑ لے کر غاصب بھارت نے 26 اکتوبر 1947کوکشمیر میں اپنی فوج اتار دی جس کا مقصد کشمیریوں کو بزور طاقت ان کے حق خود ارادیت سے محروم کرنا تھا۔
بھارت کی اس ننگی جارحیت اور برصغیر کی تقسیم کے فارمولے کی صریحاً خلاف ورزی پر بانی پاکستان قائد اعظم کا شدید ردعمل ایک جائز اور فطری امر تھا۔ چنانچہ عظیم قائد نے تنگ آمد بہ جنگ آمد کے اصول کے مطابق کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیتے ہوئے بھارتی جارحیت کے جواب میں کشمیرکو بھارت کے چنگل سے آزاد کرانے کی کوشش کی اور قائم مقام آرمی چیف جنرل گریسی کو پاکستانی افواج کو آگے بڑھانے کا حکم دیا جس کی جنرل گریسی نے تعمیل نہیں کی۔
اس فیصلہ کن موڑ پر پاکستانی مجاہدین نے پیش قدمی کرکے کشمیر کا وہ حصہ آزاد کرا لیا جو آج آزاد کشمیر کہلاتا ہے۔ بھارت کشمیر کو اپنے ہاتھ سے نکلتا ہوا دیکھ کر فوراً UNO میں پہنچ گیا جس کے بعد اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے لیے ایک مشترکہ قرارداد منظور کرلی گئی جس کی رو سے عالمی تنظیم نے مسئلہ کشمیر کا حل کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی بنیاد پر تجویز کیا جسے پاکستان اور بھارت دونوں نے منظور کرلیا اور اس قرارداد پر عملدرآمد کی ذمے داری اقوام عالم کے ادارے نے سنبھال لی۔ مگر افسوس صد افسوس کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ نے سرد خانے میں ڈال دیا جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگیں بھی ہوئیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ آج مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے اسے ظلم و ستم کا ایک آتش فشاں بنادیا ہے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 27 اکتوبر 1947 کو اپنے ایک بیان میں یہ کہا تھا کہ کسی بھی ریاست کے الحاق کے متنازع ہونے کی صورت میں مسئلے کا حل اس ریاست کے عوام کی مرضی کے مطابق کیا جائے گا۔ اس کے چار دن بعد پنڈت جواہر لعل نہرو نے لیاقت علی خان کے نام اپنے ایک ٹیلی گرام میں اعلانیہ طور پر یہ کہا تھا کہ ہماری یہ یقین دہانی ہے کہ ہم کشمیر میں امن و امان قائم ہوتے ہی اپنی فوجیں وہاں سے واپس بلالیں گے اور ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام کی مرضی پر چھوڑ دیں گے۔
پنڈت نہرو نے یہ بات زور دے کر کہی تھی کہ ہمارا یہ وعدہ محض آپ کی حکومت سے ہی نہیں بلکہ کشمیری عوام اور دنیا کے ساتھ ہے۔ یہ بھارت ہی تھا جو کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا۔ یاد رہے کہ سلامتی کونسل کے صدر نے 28 جنوری 1948 کو یہ کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں نے اس بات پر رضامندی کا اظہار کیا ہے کہ جموں اورکشمیر کی ریاست کے الحاق کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے کیا جائے گا۔ چنانچہ اسی سال اپریل کی 21 تاریخ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں استصواب رائے کا مطالبہ کیا گیا۔
بعد ازاں سلامتی کونسل نے اقوام متحدہ کا ایک کمیشن بھی تشکیل دیا۔ اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ بھارت کے نمایندے گوپالا سوامی آینگر نے سلامتی کونسل میں یہ کہا کہ بھارتی حکومت اس بات کی پابند ہے کہ ریاست کے عوام کو یہ فیصلہ کرنے کا موقع دیا جائے کہ آیا وہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا اس سے علیحدگی چاہتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کی بہن مسز وجے لکشمی پنڈت نے سلامتی کونسل کے 608 ویں اجلاس میں اس بات کا اعادہ کیا۔ اس کے تقریباً 4 سال بعد مقبوضہ کشمیر میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جواہر لعل نہرو نے یہ کہا کہ کشمیر بھارت یا پاکستان کی ملکیت نہیں ہے۔
کشمیر نے جب بھارت کے ساتھ الحاق کیا تھا تو ہم نے اس وقت واضح طور پر کشمیری عوام کے لیڈروں کو یہ بتا دیا تھا کہ ہم بالآخر کشمیری عوام کے استصواب رائے کی پابندی کریں گے۔ اس کے بعد ایک اور موقع پر 26 جون 1952 بھارتی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے پنڈت نہرو نے یہ کہا تھا کہ اگر باقاعدہ استصواب رائے کے بعد کشمیر کے لوگوں نے یہ کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو ہم ان کے اس مطالبے کو قبول کرنے کے پابند ہوں گے۔
اس کے بعد 7 اگست 1956 کو پنڈت نہرو نے بھارتی پارلیمان میں یہ کہا کہ اگر کشمیری عوام ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو انھیں ایسا کرنے دیں۔ ہم انھیں ان کی خواہشات اور امنگوں کے خلاف کام کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے خواہ وہ ہمارے لیے کتنا ہی باعث تکلیف کیوں نہ ہو۔ یہ چشم کشا حقائق اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ مودی سرکار نے بھارت کے آئین کی دفعہ 370 اور 35Aکو منسوخ کرکے نہ صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کی ہے بلکہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے کیے ہوئے وعدوں سے صریحاً انحراف کیا ہے۔
6ستمبر کو یوم دفاع پاکستان کے ساتھ ساتھ یوم یکجہتی کشمیر منا کر پاکستان نے ایک جانب اہل کشمیر کی جدوجہد آزادی اور خود ارادیت کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ان کا مکروہ چہرہ کشمیر پر ان کی جابرانہ اور غاصبانہ پالیسیوں کی وجہ سے ساری دنیا نے پہچان لیا ہے۔ بھارت اور اس کی ظالم و جابر قیادت اب پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوچکی ہے۔