بے بدل کرکٹر عبدالقادر کی یاد میں
ہندی زبان کے بے مثل کوئی (شاعر) بھگت کبیر نے فانی انسان کی زندگی اور موت کے حوالے سے اپنے درج ذیل دوہے میں جو آفاقی حقیقت بیان کی ہے وہ انھی کا حصہ اور بالکل سچا قصہ ہے:
پانی کیرا بُدبُدا اس مانس کی جات
دیکھت ہی چھپ جائے گا جوں تارا پر بھات
ترجمہ: انسان فانی کی حیثیت پانی کے بلبلے جیسی نازک ہے جو اچانک ٹوٹ جاتا ہے اور صبح کے تارے سمان محض لمحاتی ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہوکر غریب ہو جاتا ہے۔ میر نے اسی حقیقت کو اپنے الفاظ وانداز میں یوں بیان کیا ہے:
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
قصہ مختصر موت اٹل ہے اور کسی کو اس سے مفر نہیں ہے۔ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا پڑے گا۔ بقول شاعر:
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ، کل ہماری باری ہے
مایہ ناز کرکٹر اور عہد ساز رسٹ اسپنر عبدالقادر 6 ستمبر کے تاریخی دن جمعتہ المبارک کی شب اپنے بے شمار پرستاروں کو غم زدہ اور سوگ وار چھوڑ کر سفر آخرت پر روانہ ہوکر ملک عدم سدھار گئے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ 63سالہ عبدالقادر اس سے قبل رو بہ صحت تھے اور ہشاش بشاش زندگی گزار رہے تھے۔ دل کا اچانک اور شدید دورہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا اور بیماری دل نے آخر کام تمام کیا۔
لائی حیات، آئے، قضا لے چلی، چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
عبدالقادر کی وفات سے کرکٹ کی دنیا میں جو وسیع و عریض خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی بھی پر نہیں ہوگا۔ لیگ اسپنر باؤلنگ ان کا طرہ امتیاز تھا جس میں ان کا نہ کوئی ثانی تھا اور نہ کبھی ہوگا۔ لیگ اسپنرز تو بہت سے گزرے ہیں اور آیندہ بھی آئیں گے مگر ان کی انفرادیت اور سربلندی کو چھو بھی نہ پائیں گے۔ بزبان غالب:
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
بلاشبہ وہ دائیں بازو کے منفرد انداز کے لیگ اسپنر تھے جن کا کسی اور لیگ اسپن باؤلر سے موازنہ ممکن نہیں۔ ان کا باؤلنگ کا انداز بھی دوسروں سے مختلف، انوکھا اور نرالا تھا جو ان کے مدمقابل بڑے سے بڑے بلے باز کو کنفیوژ اور پزل کرکے آؤٹ ہونے پر مجبور کردیتا تھا۔
وہ اپنے مخصوص انداز میں باؤلنگ کے لیے دوڑتے ہوئے آتے تھے اور اپنے منفرد انداز میں ایک دم تیزی سے اچھل کر گیند کو اپنے ہدف کی جانب انتہائی اعتماد کے ساتھ پھینک دیتے تھے۔ ان کی امتیازی خوبیوں اور خداداد صلاحیتوں کی بنا پر ہی انھیں "اسپنر کنگ" اور "جادوگر" جیسے القابات اور خطابات سے نوازا گیا۔ ان کی یہ خوبیاں اور صلاحیتیں عطیہ خداوندی تھیں جس کے حوالے سے بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ:
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
وہ بعض مشہور و معروف کرکٹرز کی طرح مقدر کے سکندر نہیں تھے، کرکٹ کا کھیل جنھیں اپنے بڑوں سے ورثے میں ملا تھا۔ وہ اپنے منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوئے تھے۔ وہ ایک عام سے مذہبی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ اس لحاظ سے اگر انھیں گدڑی کا لعل کہا جائے تو زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا۔ کرکٹ جیسے رؤسا کے کھیل میں وہ اپنا، اپنے خاندان اور سب سے بڑھ کر اپنے وطن عزیز پاکستان کا نام دنیا میں روشن کریں گے یہ کبھی ان کے تصور تو کجا ان کے خواب و خیال میں بھی نہ آیا ہوگا۔ لیکن جس پر رب مہربان، اس پر سب مہربان۔ قادر مطلق نے عبدالقادر کو جس عالمگیر شہرت سے نوازا وہ ان کی عاجزی، انکساری اور عملاً اعترافِ بندگی کا ثمرہے۔
درویشی ان کے مزاج کا بنیادی اور سب سے نمایاں وصف تھا جو ان کی گھٹی میں شامل تھا اور جو ان کے خمیر میں تادم آخر موجود رہا۔ دولت اور شہرت اچھے اچھوں کا دماغ خراب کردیتی ہے اور عام طور پر لوگ اپنے ماضی کو فراموش کر بیٹھے ہیں اور اپنی اوقات بھول جاتے ہیں۔ کرکٹ کے کھیل میں روپے پیسے کی ریل پیل کی وجہ سے یہ روش عام ہے مگر کیا مجال جو اس خرابی نے فقیر منش عبدالقادر کو ذرا سا چھوا بھی ہو۔ اس بندہ خدا کا رویہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ شہری، دولت اور مقبولیت میں اضافے نے اس کی درویشی میں مزید اضافہ کردیا۔
یہ بات محض سنی سنائی نہیں بلکہ ذاتی مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر کہہ رہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے پروگرام "کھیل اور کھلاڑی" کے لیے جب ہم عبدالقادر کا خصوصی انٹرویو ریکارڈ کرنے کے لیے پہنچے تو ان دنوں ان کی شہرت بام عروج پر تھی اور ہمارا خیال تھا کہ شاید وہ ہماری انٹرویو کرنے والی ٹیم کے ساتھ سیدھے منہ بات بھی نہ کریں اور زیادہ وقت بھی نہ دے سکیں، مگر جب ہم نے کراچی کے مقامی ہوٹل میں وقت مقررہ پر پہنچ کر ان کے کمرے پر دستک دی تو وہ نہ صرف نہایت خندہ پیشانی سے پیش آئے بلکہ کرسی سے اتر کر فرش نشین ہوگئے۔ وہ سراپا عجز و انکسری کا مرقع تھے۔ ان سے ملاقات کرتے ہی ہمیں سرور بارہ بنکوی کا یہ خوب صورت شعر یاد آگیا:
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
عبدالقادر خدا داد صلاحیتوں کے حامل ایک پیدائشی کرکٹر تھے، انھوں نے زوال پذیر لیگ اسپین باؤلنگ میں اپنی جدت طرازی سے ایک نئی روح پھونک دی جس کے نتیجے میں آسٹریلیا نے شین وارن اور جنوبی افریقہ کے عمران طاہر جیسے پاکستان نژاد باصلاحیت لیگ اسپنرز پیدا کیے جن کی دھوم دنیائے کرکٹ میں مچی ہوئی ہے مگر جو عبدالقادر کو ببانگ دہل اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں اور تو اور ورلڈ کپ کی فاتح پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور بے مثل کرکٹر عمران خان بھی جو ملک کے موجودہ وزیر اعظم ہیں عبدالقادر کی صلاحیتوں کے معترف اور ان کے مداحوں میں پیش پیش ہیں۔
خوددار طبیعت کے حامل عبدالقادر نہ تو دولت کے بھوکے تھے اور نہ منصب کے طلب گار۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے وزیر اعظم عمران خان سے اپنے قرب کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ انھیں جب بھی کوئی ذمے داری سونپی گئی اسے انھوں نے قطعی غیر جانب داری کی بنیاد پر بے لوث خدمت اور میرٹ کی بنیاد پر نبھانے کی کوشش کی۔ وہ صلے اور ستائش کی تمنا سے ہمیشہ بے نیاز رہے جو ان کی شخصیت کا بنیادی وصف اور طرہ امتیاز ہے۔
انھوں نے 2009 میں پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ میں چیف سلیکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انھوں نے اس سال T-20 ورلڈ کپ کے لیے پاکستانی ٹیم کا انتخاب کیا لیکن ٹیم کا آغاز اچھا نہ ہونے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا حالانکہ ان کی منتخب کی ہوئی ٹیم بالآخر مقابلے کی فاتح قرار پائی۔ عہد ساز عبدالقادر نے 1977 سے 1990 تک پاکستان کے لیے 67 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 32.80 کے اوسط سے 204 وکٹیں حاصل کیں۔ 1987-1988 میں پاکستان کی سرزمین پر کھیلی جانے والی انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز کو عبدالقادر کی کارکردگی کے اعتبار سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
انھوں نے صرف 56 رنز دے کر لاہور میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں انگلینڈ کے 9 بلے بازوں کو آؤٹ کردیا۔ تین میچوں پر مشتمل سیریز میں انھوں نے 30 وکٹیں حاصل کیں۔ عبدالقادر نے اپنے ون ڈے کیریئر کا آغاز 1983 میں انگلینڈ میں ورلڈ کپ میں شرکت سے کیا اور اپنے ناقدین کو اپنی غیر معمولی پرفارمنس سے بہت جلد خاموش کردیا۔
انھوں نے ون ڈے میچوں میں مجموعی طور پر 104 میچ کھیل کر 132 وکٹیں حاصل کیں جس کا اوسط 26.16 بنتا ہے۔ بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد عبدالقادر پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ (PCB) کے بے لاگ نقاد بن گئے۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز انگلینڈ کے خلاف 1977 میں لاہور میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ سے کیا جب کہ انھوں نے 1993 میں انٹرنیشنل کرکٹ کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔ عبدالقادر کی خواہش تھی کہ ان کے تینوں بیٹوں عثمان، سلمان اور عمران میں سے کوئی نہ کوئی ان کے نقش قدم پر چل کر اپنا مقام پیدا کرے مگر ان میں سے کوئی بھی فرسٹ کلاس کرکٹ سے آگے اپنی جگہ نہ بناسکا۔
صدر عارف علوی، وزیر اعظم عمران خان، PCB چیف احسان مانی، عظیم کرکٹر جاوید میانداد، سابق وکٹ کیپر اور قومی ٹیم کے کپتان وسیم باری نے عبدالقادر کے سانحہ ارتحال پر مرحوم کے خاندان سے اظہار تعزیت کیا ہے۔ اظہار تعزیت کرنے والوں کی اس طویل فہرست میں دنیائے کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کی نمایندہ شخصیات بھی شامل ہیں جن کا اس محدود کالم میں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔
خدا بخشے کہ کیا کیا خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔ عبدالقادر کی وفات سے دنیائے کرکٹ ایک بے بدل کھلاڑی سے محروم ہوگئی ہے جو اپنی مثال آپ تھا۔