پولیو زدہ معاشرہ
ویسے کیا خوب ہیں ہم۔ جس سے لڑنا چاہئیے، اس کے بارے بات کرنا گوارا نہیں۔ جہاں ضرورت نہیں، وہاں ہماری پھرتیاں کمال ہیں۔ کئی دنوں سے یہ جاننے کی کوششں میں ہوں، کہ ہم کیسی سوچ کے مالک ہیں۔ اہم اور غیر اہم کا فرق تک نہیں جانتے۔ مگر فکر، سوچ، فلسفہ اور باتوں میں ارسطو کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ بحیثیت اشرف المخلوقات افضل ٹھہرے۔ عقل، شعور ہونے کے باوجود، اس سوچ سے لڑنے کے قابل نہیں، جو ہماری پوری شخصیت کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔
پولیو کو ہی لے لیجیے۔ اس ایک لفظ کے اندر کتنی بڑی تباہی پوشیدہ ہے۔ پولیو کتنا خطر ناک ہے، اس کا ادراک کرتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی بجائے، ہم پولیوکے بارے سنتے ہی بپھر جاتے ہیں۔
پولیو ویکسین 1950ء کی دہائی میں متعارف ہوئی۔ معاشی طور پر ہر مضبوط اور دولت مند ملک نے، ویکسین کے ذریعے 1970ء کی دہائی تک اس پر قابو پا لیا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں دنیا کے 125 ایسے ممالک تھے، جہاں ہر سال میں تین لاکھ پچاس ہزار کیسز رپورٹ ہو رہے تھے۔ 1988ء میں " گلوبل پولیو اریڈکشن انیشیئٹو "کے ذریعے دنیا بھر میں پولیو پر اس حد تک قابو پا لیا گیا کہ 2016ء میں پوری دنیا میں پولیو کے صرف42 کیسزرپورٹ ہوئے۔
2017ء کے اوائل میں افغانستان، پاکستان اور نائجیریا کے نام پولیو متاثرہ ممالک کے طور پرسامنے آئے تھے۔ تین سال بعد یعنی رواں سال 2020 میں نائجیریا بھی پولیو فری ممالک کی صف میں کھڑا ہو گیا۔ ہم دو ہمسایہ ممالک شاید جغرافیائی سمیت، سوچ میں بھی ایک جیسے ہیں۔ اس لیے دنیا میں پولیو فری ہونے کا وہ مقام حاصل نہیں کر سکے جو ہمیں کر لینا چاہیے تھا۔
دراصل ہم نے اس سوچ سے لڑنا ہے، جو بذات خود پولیو زدہ ہے۔ ہم نے وہ سوچ پیدا کرنی ہے، جس سے صحیح اور غلط کی پہچان ہو سکے، جس سے فائدے اور نقصان کی تمیز ہو سکے، جس سے نسلوں کو بچا کر پروان چڑھایا جا سکے۔
پولیو زدہ سوچ کی وجہ سے ملک کے مختلف حصوں میں دلسوز واقعات سامنے آئے۔ رواں سال کے آغاز پرصوابی میں پولیو ٹیم کی دو خواتین کو گولیاں مار دیں گئیں، ان کا قصور تھا تو بس اتنا، کہ وہ اس وائرس سے اپنی نہیں آپ کی نسلوں کو بچانے آئیں تھیں۔ دو قطروں کی مدد سے پولیو وائرس کو شکست دینے والی وہ خواتین اس پولیو زدہ سوچ کو شکست نہیں دے سکیں، جس کی بھینٹ وہ خود چڑھ گئیں۔ اسی سال کے دوسرے ہفتے میں ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس ٹیم پر حملہ ہوا، ایک پولیس اہلکار نے جام شہادت نوش کی۔ یہاں بھی وہی پولیو زدہ سوچ تھی، جس نے ان دماغوں کو مفلوج کر رکھا ہے، جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو چکے ہیں۔ کئی ایسے اور بھی واقعات ہیں، مگر کیا ہم نے اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کیں، اس سوچ کے خلاف، جس کو بدلنا مشکل ہو سکتا ہے، مگر نا ممکن نہیں۔
ملک کو پولیو فری بنانے سے پہلے ان دماغوں کو پولیو فری بنانا ضروری ہے، جو سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔ سب سے پہلے حکومتوں کو اپنی ذمہ داری سنجیدگی سے پوری کرنا ہو گی، اگر ذمہداری دکھائی ہوتی تو حالات اس نہج پر نہ ہوتے، جن کا اندازہ 2020 میں رپورٹ ہوئے کیسز کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ میڈیا کا استعمال جس جاں فشانی سے حکومتی پروجیکٹس کے لیے ہوتا ہے، اتنی ہی سنجیدگی لوگوں کی پولیو سے متعلق سوچ کو بدلنے کے لیے دکھانی چاہیے۔ پولیو کا نعرہ دو قطرے ہر بچہ ہر بار کے ساتھ، کچھ ایسی باتیں بھی شامل کرنا ہو گئیں، جو لوگوں کی سوچ کے انداز کو بدل سکیں۔ کیا پولیو ورکر کی اس حد تک ٹریننگ کی جاتی ہے کہ وہ ان لوگوں کو قائل کر سکیں، جو اس سوچ میں مقید ہیں کہ پولیو کے دو قطرے پلانا گوارہ نہیں، مگر آئندہ نسلوں کو زندگی بھر کے لئے مفلوج کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ ہم نے پولیو ورکرز کو اس قابل ہی نہیں بنایا، ان کی مناسب ٹریننگ ہی نہیں کی، ان کے اندر وہ جزبہ ہی پیدا نہیں کیا، کہ وہ سامنے والے شخص کو قائل کر سکیں؟
جب تک مناسب تعلیم اور مناسب ذہنی پختگی کے لوگ اس مہم کا حصہ نہیں بنیں گے، تب تک ہم ان چند ذہنوں کو نہیں بدل پائیں گے، جو دنیا بھر میں پاکستان کے لئے باعث شرم ہیں۔ بہتر عمل تو یہ ہے کے ایک بڑی تعداد میں اساتذہ کو اس کام کے لئے سامنے لایا جائے۔ ایک بہترین استاد ہی اس پورے عمل میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔
ووٹنگ کے عمل میں بھی اساتذہ کی تعیناتی حکومت کرتی ہے، تو اس عمل میں کوئی رکاوٹ یا ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیئے۔ تمام مکاتب فکر کے علماء حضرات اس میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ان لوگوں کو قائل کریں، جو اپنی سوچ اور ذہن کو بدلنے سے قاصر ہیں۔
ہمیں ٹاک شوز میں بھی اس بارے آگاہی دینا ہو گی۔ مرد حضرات حالات حاضرہ اور خواتین صبح اٹھتے ہی مارننگ پروگرام دیکھنا پسند کرتی ہیں، فیشن اور سیاست پر سالہاسال بحث ہوتی ہے، پولیو زدہ سوچ کو بدلنے کے لیے مرحلہ وار اس پر بات ہونی چاہئیے۔ قانون میں بھی مزید سختی لانا ہو گی۔
زندگی اس وقت ہی خوبصورت لگتی ہے، جب اپنے پیروں پر کھڑی ہو۔ بحیثیت قوم ہمیں آگے بڑھنا ہو گا اور پولیو کو شکست دینے سے پہلے پولیو زدہ سوچ کو شکست دینا ہو گی۔