مختاریا! گل ود گئی اے
سیاست ہو یا کھیل دونوں ہی اعصاب شکن ہیں مخالف کے حاوی ہوتے ہی بوکھلاہٹ میں ایسی غلطیاں سرزد ہونے لگتی ہیں جو کھیل کا پانسا پلٹ دیتی ہیں۔ اور اب کی بار کھیل میں دلچسپی کی وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ایک طرف اپنے کھیل کا ماہر کپتان ہے تو دوسری طرف سیاست کے پرانے کھلاڑی۔ فائنل سے پہلے فائنل میچ کا تاثر بے حد مضبوط ہو رہا ہے۔ رات کے تین بج رہے ہیں سردی کی چادر میں لحاف اوڑھے قوم سو رہی ہے ماسوائے حکومتی نمائندوں، اپوزیشن اور کارکنوں کے۔ کہ ملتان میں سیاسی میچ کا نتیجہ کیا ہو گا۔ جبکہ میڈیا پر بریکنگ نیوز کے پھٹے واضح اشارہ دے رہے ہیں، ملتان میں سیاسی پارہ چڑھ چکا ہے۔ پرویز خٹک 100 فیصد درست کہہ رہے ہیں شور مچانے اور جلسے جلوسوں سے حکومتیں نہیں جاتیں۔ 2014 میں تحریک انصاف کا دھاندلی کے شور پر دیا گیا دھرنا اس کی واضح مثال ہے تو پھر اپوزیشن کے خلاف درج مقدمات، گرفتاریوں اور نظر بندیوں کا کیا جواز ہے۔
کورونا تیزی سے پھیل رہا ہے اگر صورتحال پرکنٹرول نہیں پایا گیا تو اس کے بے قابو ہونے کا خطرہ ہے، پاکستان جیسا ملک ابھی لڑھکتی معیشت میں ایسی کسی صورتحال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ سارا زور صرف پی ڈی ایم کے جلسوں پر نہیں ہونا چاہیے، مخالفین کا اعتراض ہے کہ جماعت اسلامی کے جلسہ پر یا حکومت کا اپنے ہی ورکرز کنونشن پر زور کیوں نہیں چلتا۔ صاف نظر آرہا ہے حکومت بوکھلاہٹ میں پے در پے ایسی غلطیاں کر رہی ہے جو اپوزیشن اور ان کی حکومت مخالف تحریک کو جلا بخش رہی ہیں۔ اب بات ریاست کے خلاف بغاوت کرنے تک آن پہنچی ہے مولانا فضل الرحمان کا کارکنوں کو ڈنڈا اٹھانے والوں کے خلاف ڈنڈا اٹھانے کی اجازت دینا بغاوت نہیں تو کیا ہے۔ ملتان میں پھیلتی سیاسی انارکی کا نتیجہ منی مارشل لاء کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لئے تیسرے فریق کو اس کھیل میں کودنا پڑے۔
جلسہ ہو گا اور ہر صورت ہو گا کارکن کسی بھی طرح پہنچیں گے اپوزیشن کو تو یہی suit کرتا ہے، کسی بھی طرح تصادم ہو اور حکومت مدت پوری کرنے سے پہلے گھر کی راہ لے۔ لوگوں کو کورونا بارے بتا کر جلسوں میں جانے سے روکا جا رہا ہے مگر ایسا کونسا وزیر یا مشیر ہے جو بذات خود ماسک پہن کر، سماجی فاصلہ برقرار رکھ کر مثال قائم کر رہا ہے۔ اپوزیشن کی تحریک میں بڑھتا جوش اس بات کا غماز ہے کہ لوگوں کو جس دلاسے اور تکلیفوں کے ازالے والے مرہم کی ضرورت ہے وہ حکومت مخالف اتحاد بیچ رہا ہے۔ عوام الناس کو روز بڑھتی مہنگائی کی تکلیف ہے، بڑھتی بے روزگاری کی تکلیف ہے، مہنگی دواوں سے لے کر مہنگی بجلی کی تکلیف ہے، گیس نہ ملنے کی تکلیف ہے۔ یہ وہ مسائل اور پریشانیاں ہیں جن کا بوجھ حکومت نے سر سے اتارنے کے لئے روز اول سے اپوزیشن کے کھاتے میں ڈالے رکھا۔ مانا سب اپوزیشن کا کیا دھرا ہے۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت نے بھی تو کوئی حل نہیں نکالا۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا نئی قیادت کو ووٹ دینا غلطی تھا؟ بظاہر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والا ایک بڑا طبقہ اس بات سے متفق ہے مگر طفل تسلیاں بے سود ہیں۔ تحریک انصاف کو اقتدار ملنا یقینی تھا کیونکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے برسوں کے اقتدار میں عوام کی فلاح کے لئے اتنا سب نہیں کیا جو یاد رکھنے کو کافی ہو۔ ان دو بڑی جماعتوں کی ناکامی ہی در حقیقت تحریک انصاف کی کامیابی بنی۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں، بے شک عمران خان نے ان لوگوں کو کٹہرے میں لا کھڑا کیا جن کا احتساب تو درکنار ان کی کرپشن بارے بات کرنا بھی ممکن نہ تھا۔ انصاف اور احتساب نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ عمل تو جاری ہے مگر ون سائیڈڈ۔ خود عمران خان کے قریبی ساتھی کیا کچھ نہیں کر رہے مگر مجال ہے ان کے خلاف قانون حرکت میں آیا ہو۔ پھر یہ کہاں کی حکمت ہے کہ جلسے کے لئے فلیکس تیار کرنے والوں سے لے کر کیٹرنگ کرنے والوں تک کے خلاف آپ ایکشن میں آ گئے ہیں۔ بات کو حکومت خود بڑھا رہی ہے۔
وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان میڈیا کے سامنے بیان کر رہی ہیں کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ بیٹھ گئی ہے۔۔ بالکل غلط۔۔۔ حکمت عملی کے بغیر حکومت کی بے ڈھنگی کوششوں نے بذات خود اس تحریک اور ملتان جلسے میں جوش بھر دیا ہے۔۔ واضح نظر آرہا ہے اولیاء کی سرزمین ملتان میں ٹکراؤ ہو کر رہے گا اور گیلانی خاندان ملتان کے جلسے اور یوم تاسیس کو لے کر حیران کن حد تک سر گرم ہے۔ اس سے پہلے کسی اور خاندان کو لے کر مختلف جلسوں میں ایسا منظر دیکھنے کو نہیں ملا۔ آصفہ بھٹو گیلانی ہاوس میں موجود ہیں جن کا خطاب اسی جوش سے سنا جائے گا جیسے محترمہ بے نظیر کا سنا جاتا تھا۔ کرونا کی اس شدید لہر میں جلسے، ریلیاں، ورکرز کنونشن ہونا اخلاقی طور پر غلط ہیں اور پابندی کا اطلاق دونوں اطراف پر ہونا چاہیے، دونوں اطراف خندہ پیشانی سے کام لینا پڑے گا ورنہ بات اتنی بگڑ جائے گی کہ حالات کو سنبھالنا کسی سیاسی جماعت کے بس میں نہیں رہے گا۔ محسوس یہی ہو رہا ہے۔ مختاریا!گل ودھ گئی اے۔