ہم زندہ قوم ہیں
پوری قوم کے اجتماعی ضمیر پر فاتحہ پڑھنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ جب فاقہ کش کو روٹی نہیں ملے گی، گھر میں چولہا نہیں جلے گا، فاقے سے تڑپنے پر وہ دست سوال ہی دراز کرے گا، بے روزگار گھر کی دہلیز پر بیٹھنے کی بجاے نوکری کی تلاش میں ہی نکلے گا، کیا قیدی آزادی کے لئے نہیں تڑپے گا؟ کسی جانور سے بھی حق چھین لیں تو وہ حملہ آور ہوتا ہے، انسان تو پھر اشر ف المخلوقات ہے۔ اللہ فرماتا ہے:اپنے وعدوں کو پورا کرو، بیشک وعدوں کی بابت پوچھا جائے گا۔ کسانوں کے ساتھ وعدے ایفا ہوئے؟
اگر ہوتے تو وہ سڑکوں پر نکلتے، پولیس کی لاٹھیاں کھاتے، جب جائز اور مناسب معاوضہ یقین دہانی کے باوجود نہیں ملے گا تو سڑکوں پر نکلنے اور احتجاج کے سوا کیا راستہ باقی بچتا ہے۔ اقتدار کی جنگ میں حکومت اور اپوزیشن دست وگریباں ہیں، جانبین سے چیخیں نکل رہی ہیں، مگر کسانوں پر بدترین تشدد پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ٹیکنالوجی تو ویسے اپنے تئیں ایک عذاب ثابت ہو رہی ہے، کبھی انسان ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر دکھ درد بانٹتے تھے، خوشی اور غم میں شامل رہتے تھے، آج بات بس ایک میسج اور اگر زیادہ ضروری ہو تو فون کال تک محدود ہو گئی ہے۔ ایسی صورت میں سیاست کے تمام روشن مینارے لڑائی سے لے کر ہمدردی جتانے تک سوشل ویب سائٹ ٹوئٹر پر کرتے ہیں۔
پرانا ہو یا نیا پاکستان، غریب کسان کے مقدر میں مار اور دھتکار لکھ دی گئی ہے۔ ن لیگ کی نائب صدر مریم صفدر نے درست کہا: ان کسانوں پر لاٹھیاں برسائی جا رہی ہیں، جن کی بدولت ہمیں خوراک مہیا ہوتی ہے۔ یقینا بڑا ظلم ہے اور ظلم کی کوئی حد ہوتی ہے مگر ظلم کی اس حد کو تمام سیاسی جماعتوں نے پار کیا۔
لاہور میں کسان احتجاج کی وجہ صرف مناسب معاوضے کا مطالبہ تھا اور تحریک انصاف سے کچھ امید بھی تھی، مگر وہ بھی اس ایشو پر نا انصاف نکلی۔ حکومت نے جن لوگوں کے کہنے پر سستے داموں گندم باہر بھیجی، انھیں بھی توکچھ کہنا چاہیے، اب دوباری انھیں لوگوں کے کہنے پر گندم باہر سے منگوائی جا رہی ہے۔ اگر سستے داموں باہر نہ بھیجی جاتی تو اپنے کسان بھی معاوضے میں اضافے کا مطالبہ نہ کرتے، وہ بھی روکھی سوکھی کھا کر گزر بسر کرتے۔
المیہ تو یہ ہے، ملکی کسان کو سبسڈی دینے سے مناسب معاوضہ دینے تک حکومت کا ایک ہی رونا ہے کہ پچھلوں نے کچھ نہیں چھوڑا، ہم کنگال ہیں۔ مگر غیر ملکی کسان پر دونوں ہاتھوں سے لٹانے کے لئے خزانے کا منہ کھول دیا جاتا ہے اور یہی تحریک انصاف نے بھی کیا۔ پرانے پاکستان کے آخری پانچ سالوں میں اقتدار میں رہنے والی ن لیگ نے بھی مطالبات کے لئے آواز بلند کرنے اور احتجاج کرنے پر کسانوں کے ساتھ وہی ابتر سلوک کیا، جس کی جھلک عمران خان کے نئے پاکستان میں نظر آئی۔ زندگی کے جھمیلے بھی انسان کو کیسا الجھا دیتے ہیں۔ مجھے یاد ہے پورے ہفتے میں چھٹی کے دن کا انتظار اس لیے بھی ہوتا تھا کہ وہ تمام کام جو باقی دنوں میں تکمیل کو نہیں پہنچے انہیں مکمل کیاجائے اور اگر کام گائوں جا کر سال بھر کی گندم لانے کا، گڑ کی تیاری کے مکمل عمل کو دیکھنے اور عید قرباں قریب آنے پر محلے بھر کے تمام جانوروں سے منفرد اور خوبصورت جانور لانے کا ہوتا، تو چھٹی کا مزا کئی گنا بڑھ جاتا تھا۔ انہیں چھوٹی چھوٹی یادوں سے گائوں کا ماحول اور کسان کا حلیہ میرے ذہن پر نقش ہے۔۔
کچا گھر، لکڑی کا خستہ حال دروازہ جس پر پرانے کپڑے کا پردہ لٹک رہا ہے۔ دو کمرے جن کی چھتوں کو گوبر سے لپائی کی جاتی ہے تاکہ بارشوں کے موسم میں ٹپک نہ سکیں، ہاتھ کی قوت سے چلایا جانے والا نل اور ہاتھ سے بنا کچا چولہا، جس کا ایندھن لکڑیاں یا اوپلے۔ کھانا بننے کی صورت کالے دھویں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ اور گھر کے آنگن میں بچھی چند چارپائیاں۔ کسی بھی عام کسان کے گھر کی حالت آج بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔ غربت کی دھول میں اٹا کسان دل کا کتنا ظریف ہوتا ہے، اس کی مہمان داری بتا دیتی ہے۔
ساگ اور مکئی کی روٹی کا جو سواد کسان کے گھر میں آیا، آج تک کسی اور جگہ نہیں آیا۔ تن پر خستہ کپڑے، عمر سے پہلے بے رونق چہرے پر جھریاں اور آنکھوں میں صدیوں کی مایوسی۔ کسان کی یہ حالت ماضی اور حال دونوں میں یکساں ہے۔ جس فصل کو تیار کرنے میں سردی گرمی دھوپ چھائوں کی پروا کئے بغیر کسان دن رات اپنا خون پسینہ بہاتا ہے، مکمل ہونے پر ساری ہمارے حوالے کر دیتا ہے، پھر چاہے اپنی ذات کے لیے میسر ہو یا نہیں۔ علامہ محمد اقبال بال جبرئیل میں لکھتے ہیں۔
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی، اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔ جس جگہ قانون کے رکھوالے ماتحتوں کو حکم صادر کریں کہ ان غریب کسانوں کو ایسا سبق سکھائوکہ چھٹی کا دودھ یاد آجائے، وہاں پر اجتماعی ضمیر پر فاتحہ پڑھ لینی چاہئے۔
کہنے کی حد تک ہم ایک زندہ قوم ہیں مگر ہم جیسا بھی کوئی مرا ہوا ہو گا، کیا جو مسلسل انہی ہاتھوں کو زخم لگا رہے ہیں جو ہماری خوراک کا ساماں پیدا کرتے ہیں۔
دھرتی کے بیٹوں کا استحصال تب تک ختم نہیں ہو گا جب تک انکی قسمت کے فیصلے اشرافیہ اور مافیا کریں گے۔ بگاڑ پہلے ہی بہت ہو چکا اب کسی حل کی جانب بڑھنا ہو گا۔ تاکہ مسائل حل کر کے ملک کو خوشحالی کی راہ پر ڈالا جا سکے۔