ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔
"قوم کو مل کر ماحولیات کے تحفظ کی جنگ جیتنا ہو گی"۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو وزیراعظم عمران خان نے عالمی یوم ماحولیات کی میزبانی تقریب میں کہے۔ میزبانی پاکستان کے حصے میں آئی۔ ایک اعزاز کی بات ہے۔ دنیا نے تسلیم کیا کہ پاکستان نے ماحولیات کے تحفظ کے لئے خوب کام کیا اور مسلسل کوشاں ہے۔ ایسے میں جب جوش آئے تو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اگر وزیراعظم نے عوام سے کہہ بھی دیا کہ اس جنگ کو مل کر جیتنا ہو گا، تو کیا برا کیا۔ توقعات قوم سے ہی لگائی جاتی ہے۔ مگر کیا قوم بھی توقع پر مکمل نہ سہی، کسی حد تک ہی سہی، اترنے کی کوشش کرے گی؟ میرا ماننا ہے چونکہ عوام کے لئے یہ کام مشکل ہے تو اسی لئے خان صاحب کی توقع بھی کچھ ناجائز ہے۔ ناجائز اس طور کیونکہ ہم پاکستانی باشندے صحیح، غلط تو کرتے ہی ہیں، مگر اپنے گھر کو چھوڑ کر پڑوسی، محلہ، شہر، یا ملک کے لئے جو عمل فائدہ مند ہوں ان سے اکثر کنارہ کشی کی وجہ اس سطح کی ناگواری ہوتی ہے جو اکثر ناجائز کاموں کے لئے چہرے پر عیاں ہوتی ہے۔
پھر خوابوں پر پابندی تو نہیں۔ جو چاہے خواب دیکھ سکتا ہے۔ امریکہ، جرمنی، فرانس، آئر لینڈ، سوئٹزرلینڈ نا جانے اور کتنے، جہاں کی صاف سڑکوں پر دل مچل سا جاتا ہے۔ بارش کی بوندیں گرنے پر کیسا رومانوی ماحول بن جاتا ہے۔ جیسے کوئی شخص تنہا ہی کئی میلوں کا سفر کر گزرے۔ کسی پارک میں نصب بنچ پر گھنٹوں صاف ہوا، اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے لطف اندوز ہو سکے۔ بارش کے بعد ہر سو پھیلا سبزہ روح تک کو تازہ کر جائے۔ یہ سب کہنے، سننے اور سوچنے میں ہی کس قدر تازہ دم کرتے ہیں۔ زمین کے اس ٹکڑے پر ایسا بھی کیا انوکھا ہے کہ ہم حسرت سے دیکھیں اور کچھ بن نہ پڑے۔
وہ کونسا عقدہ ہے جو وا ہو نہیں سکتا
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
ہمسائے کے مقابلے پر ہم اپنا گھر تو سنوار سکتے ہیں لیکن کسی دوسرے ملک کی طرز پر ماحول بہتر کرنا ہو، درخت لگانا ہو، صفائی کا خیال کرنا ہو تو اس پر ناجائز قسم کی ناگواری کا احساس جاگ اٹھتا ہے۔ کسی دوسرے ملک کی زمین پر ٹافی کا ایک ریپر پھینکنے کا خیال اس قدر خوفزدہ کر گزرتا ہے کہ ناجانے کیا سلوک کریں۔ سزا کس قدر سخت ہو۔ بات جب اپنے ملک اپنی زمین کی صفائی پر آئے۔ تو پھر اسے کچرے کا ڈھیر بنائیں، یا غلاظت کے پہاڑ کھڑے ہو جائیں۔ اپنا ذاتی حق سمجھ کر کرتے ہیں۔ کچھ روز قبل ماحول سے متعلق ایک آرٹیکل پڑھا۔ کیا شاندار لکھا تھا۔ کیسے ہمارا پھلایا گندہ ماحول آبی مخلوق کو متاثر کرتا ہے۔ اس آرٹیکل کو پڑھتی رہی مگر ذہن پر پوری ایک فلم کراچی کے سمندر کی تھی۔ کہ کیسے ہم تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ خطرے کی گھنٹیاں بجیں، ڈھول پیٹا گیا مگر کان پر جوں تک نہ رینگی۔ شاید بگل بجے تو ہم کچھ ہوش کریں گے۔
کئی سال قبل کراچی کی زمین نے بلاوا دیا۔ فورا ہامی بھری اور نکل کھڑی ہوئی۔ سرور کبھی کم نا ہو اسی واسطے بالکل عین سمندر کے سامنے بنے فلیٹس میں سے ایک میں رہائش پذیر ہوئی۔ چار منزلہ عمارت کا آخری فلور، لفٹ کی سہولت میسر نا تھی۔ پھر بھی فیصلہ یہی ہوا کہ بس پڑائو یہی ہو گا۔ کئی روز بس کمرے کی کھڑکی پر کھڑی گھنٹوں سمندر کی لہروں کو دیکھتی رہی۔ سمندر کی لہریں چھو کر گزرتی ہوں گی۔ وہ احساس کیسا ہو گا۔ وقت آن پہنچا۔ دفتر سے چھٹی ملی اور نا جانے کتنے پلانز بنا ڈالے۔ سمندر کی ٹھنڈی ہوائیں چھو کر گزرتی رہیں۔ پہلا قدم جیسے ہی ساحل کی ریت پر رکھا تو یہ کیا؟ پیٹ کی بھوک مٹانے والوں نے چمچ، کانٹے، شاپر، خالی ڈبے، ریپر اور نا جانے کیا کچھ اسی سمندر کی نظر کیا تھا، جس کی خوبصورتی انہیں وہاں کھینچ لائی تھی۔ جہاں تک نظر گئی وہیں تک کچرا۔ ظالموں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بوتلیں پی کر توڑی اور کانچ بھی وہیں بکھیر دیا۔ سمندر کا پانی تو ایک بہانہ نکلا دراصل ریت میں دبی نا جانے کتنی کچرا کنڈیاں آنے والوں کا استقبال کرتی ہیں۔
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ عمران خان ہی اب تک کا واحد وزیراعظم ہے، جس نے اس مسئلے پر عوامی شعور اجاگر کیا۔ ماحولیات کا تحفظ کتنا ضروری ہے اس پر لوگوں کی سوچ کو تبدیل کیا۔ لیکن یہ بات ہم میدانی علاقوں کے لوگ پہاڑوں میں بسنے والوں کی نسبت سمجھنے سے قاصر رہے۔
پوری دنیا ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار ہے۔ جس میں قدرتی آفات اور تیزی سے بدلتے موسم نمایاں ہیں۔ کسی بھی ملک کے لئے طاقتور، کمزور، امیر یا غریب ہونا بے معنی ہے۔ مگر اپنی بقا کی جنگ سبھی کو لڑنا ہو گی۔ پاکستان کے پاس نا تو ان ممالک کے مقابلے مضبوط اکانومی ہے اور نا وسائل میسر ہیں۔ سر سے پاؤں تک قرضوں کی دلدل، آئے روز سیاسی عدم استحکام اور عوام کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اس چیلنج کو مزید مشکل کر رہا ہے۔
ماحول کے تحفظ کے لئے درخت لگانے کی مہم شروع ہو یا ہفتہ شجر کاری منایا جائے۔ تمام صورتوں میں سرکاری ملازمین، گنتی کی این جی اوز یا پھر ماحول کے مضمون سے منسلک اسٹوڈنٹ ہی نکلتے ہیں۔ عام عوام کو اس سے کوئی سروکار ہی نہیں۔ وجہ، پہلے دن سے بچوں کے ذہنوں میں ہم نے ماحول کے تحفظ کو اتارا ہی نہیں۔ تربیت سالوں پر محیط ہوتی ہے۔ دو دن کی مہم کسی کو کیا بدلے گی؟
بھٹوں سے نکلنے والا کالا دھواں آج تک کنٹرول میں نہیں لایا جا سکا۔ اسموگ ہے کہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ کسان فصلوں کی باقیات کو جلانے سے گریز نہیں کرتا۔ گاڑیوں سے نکلنے والا کالا دھواں ماحول کو زہریلا کر رہا ہے مگر گاڑی بجائے بند کر دینے کے، سڑکوں پر فراٹے بھرتی ہیں۔ کئی سالوں کے بعد تن آور درخت ٹمبر مافیا کاٹ کر نکل کھڑا ہوتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ قانون بنتے ہی تحفظ کے لئے ہیں پھر چاہے عوام کی جان و مال ہو یا ماحول کا تحفظ ہو۔ قانون کو حرکت میں لائے بغیر بگڑی عادات کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی عوام کو اپنی آئندہ نسلوں کے لئے ماحول کے تحفظ کی اس جنگ کا آغاز اپنی ذات اور عادات سے لڑ کر کرنا ہو گا، ورنہ آئندہ نسلیں اپنے اجداد بارے یہی بیان کریں گی کہ عمران خان کی خواہش مقدم مگر توقع کچھ ناجائز تھی۔