فلسطینیوں ۔۔۔۔سانوں کی
تم زندہ ہو یا مر گئے۔ سانوں کی۔ تم درد میں ہو، زخمی ہو، بھوکے ہو، سانوں کی۔ گھرانہ اجڑ گیا، تنہا ہو، سانوں کی۔
نم آنکھوں، خالی ہاتھوں، ننگے پیروں، سینا تانے لڑ رہے ہو، سانوں کی۔ جانتے ہیں تم حق پر ہو، سچ پر ہو پھر بھی دب رہے ہو، سانوں کی۔ مانا تم مسلم ہو، اسی واسطے بے دخل کئے جا رہے ہو لیکن سانوں کی۔
پنجابی کے یہ دو لفظ ہمارے جذبات کی بالکل صحیح ترجمانی کرتے ہیں۔ اپنا سب ٹھیک ہونا چاہیے پھر دنیا کی چاہے کوئی بھی شکل بنے۔ رویوں کا عالم تو یہ ہے کہ آس پڑوس میں کوئی جہان فانی سے کوچ کر جائے تو تعزیت کرنا گوارا نہیں کرتے۔ ساتھ والے مکان میں کون مقیم ہے۔ سرے سے پرواہ نہیں کرتے۔ تو وہ اس قدر دور، تمہاری پرواہ کیوں کر ہو۔ اسی لیے"سانوں کی"۔ یہ"سانوں کی"بس ایسے ہی نہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چلنے والی تازہ اور گرما گرم خبریں ملاحظہ ہوں۔
ٹاوٹے طوفان کے اثرات، کراچی میں شدید گرمی، پارہ 43 ڈگری تک پہنچ گیا۔ کورونا کی تیسری لہر خطرناک، مزید 135 افراد دم توڑ گئے۔ وزیراعظم ملک چلانے میں ناکام، مہنگائی سے نجات کے لئے عمران خان سے نجات۔ رنگ روڈ اسکینڈل۔ اسلام آباد کچہری کے ساتھ وکلاء کے غیر قانونی چیمبرز گرا دیئے گئے۔ شہباز شریف پر منی لانڈرگ کا کوئی ثبوت نہیں۔ آج تک الزام ثابت نہیں ہوا۔ امریکی صدر نے غزہ پر حملوں کے معاملے پر اسرائیل کی حمایت کر دی۔ مانا اپنے گھر سے بھی لا علم نہیں رہنا چاہیے مگر قبلہ اول اور اس کے لئے جانوں کا نذرانہ دینے والوں سے اس قدر بے اعتنائی باعث حیرت ہے۔
اب تو علم نہیں ایسا ٹرینڈ ہے یا نہیں۔ تقریبا ایک دہائی پیچھے جائیں تو اخبار لئے ہاکر کی زبان سے نکلی خبر ہی حال بیان کر دیتی تھی۔ پڑھئیے آج کی تازہ خبر۔ فلاں ملک نے فلاں پر حملہ کر دیا۔ پاکستان کے صدر/ وزیراعظم نے جوابی دھمکی دے دی۔ غالبا کچھ ایسا ہی۔ آج وہ ٹرینڈ تو نہیں لیکن ٹاپ ٹرینڈز کچھ ایسے ہیں۔ فلاں سیاسی رہنما فلاں کے ساتھ کرپشن میں ملوث۔ فلاں رہنما نے فلاں کو غداری کا سرٹیفکیٹ تھما دیا۔ فلاں ورکر نے اپنے لیڈر سے وفاداری میں تمام دوسروں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
ایسی گرم خبریں ہیں۔ کہ سنتا جا، سر دھنتا جا۔ یہ ہیں ہماری ترجیحات۔ یقینا ہر ملک کی کچھ ترجیحات ہوتی ہیں۔ سوچا گرما گرم عالمی میڈیا بھی تھوڑا پرکھوں۔ معلوم نا تھا، اس پرکھنے میں اپنا سر ہی شرم سے جھک جائے گا۔ خبریں، ویڈیو اور نا جانے کتنی بڑی بڑی ٹرانسمیشنز غزہ میں ہونے والے قتل عام پر چل رہیں ہیں۔ کسی کا کیمرہ تو ایک ساتھ کئی جگہوں کو کوریج دے رہا ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس، غزہ کا مشرقی حصہ اور جنگی طیاروں سے تباہ شدہ ملبہ۔
اب ایسا بھی نہیں کہ ہم اس قدر بے شرم ہو جائیں۔ ہمارے ہاں بھی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے سفارتی مشن پر ترکی جانے کی خبر ایک کونے میں بیان کی گئی ہے۔
اب تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے، اسرائیل نے سوشل میڈیا کو بھی کنٹرول کر لیا ہے۔" pray for Israel" کا ٹرینڈ چلایا جا رہا ہے۔ یہ ثابت کرنے کی مزموم کوشش کی جا رہی ہے اگر صیہونی فورسز معصوم فلسطینیوں کے گلے کاٹ رہیں ہے تو حق بجانب ہیں۔ کیا کوئی بھی گلیڈیئٹر نہیں بچا جو ان کے مخالف اپنا ذہن لگائے۔ سارا دن من پسند سیاسی رہنماؤں کے لئے تسبیح کرنے والے سوشل میڈیا کے چیتے گنگ کیوں ہیں۔ یہاں بھی وہی دو لفظ لاگو ہیں۔"سانوں کی "۔ کیا دل خون کے آنسو نہیں روتا، کیا اک ٹیس بھی نہیں اٹھتی ان حالات کو دیکھ کر جس سے فلسطین گزر رہا ہے۔ وہاں اٹھنے والے جنازے اور تڑپتے لواحقین دیکھ کر دل چھلنی نہیں ہوتا۔ یا پھر سبھی نے اپنے ضمیروں پر فاتحہ پڑھ لی ہے۔ کیسے ایک باپ نے دو معصوم سینے سے لگائے۔ اس باپ کی تڑپ ناقابل بیان ہے۔ ایک آخری بار آنکھوں سے بہتے سمندر کے ساتھ انہیں سینے سے لگایا اور کفن میں لپیٹ کر الوداع کیا۔
بحیثیت اجتماعی کچھ تو کرنا ہو گا تاکہ کسی طور ہی سہی مگر کچھ دباؤ ڈالا جا سکے۔ اب اگر وزیراعظم عمران خان نے سرکاری طور پر کسی دن احتجاج کا اعلان کر ہی دیا تو عوام ہتھے سے اکھڑ گئی۔ کسی نے لکھ ڈالا، میری تمام پوسٹس وزیراعظم کی ایسی پوسٹس سے بہتر ہیں اور کسی نے اس پر بھی درجنوں میمز بنا ڈالی۔ تنقید اور مذاق اڑانے والوں نے خود انفرادی طور پر کیا کیا؟ کچھ کر نہیں سکتے تو ساتھ ہی دو۔ یا پھر یہاں بھی سیاسی وفاداریاں آڑے آ جاتی ہیں۔ جب ایک معصوم دس سالہ بچی آنسو گراتی اور لرزتی آواز میں یہ کہتی ہے۔
میں صرف دس سال کی ہوں۔ انہوں نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ میرے لئے یہ سب تکلیف دہ ہے۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔ میں اپنے لوگوں کی مدد کرنا چاہتی ہوں۔ میں کچھ نہیں کر سکتی کیونکہ میں صرف دس سال کی ہوں۔ میری فیملی کہتی ہے، ہم مسلم ہیں اس لئے یہ لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ میں کچھ بھی نہیں کر سکتی۔
میں صرف دس سال کی ہوں۔ میری معصوم بچی، تم دس سال کی ہو تم اور تمھارے جیسے کئی بچوں نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ہم بھی دکھی ہیں۔ تمھارے لوگوں پر ظلم کے جو پہاڑ توڑے جا رہیں ہیں اس کے شاہد ہیں۔ مگر ہمارے ملکی مسائل اس ظلم سے کہیں زیادہ گھمبیر ہیں۔ ابھی شہباز شریف کا معاملہ کچھ سلجھ جائے۔ رنگ روڈ اسکینڈل میں بہت سوں کو بے نقاب ہو لینے دو۔ کسی ایک کو غداری کی سند مل جانے دو۔ کرونا کچھ تھم جائے تو تمھارے لئے سوچیں گے۔ گرمی کا زور تھوڑا ٹوٹنے دو۔ میری بچی پھر ہم سوچیں گے۔