کورونا وائرس اور ہمارے رویے
جس پر گزرے وہی جانے، لیکن جب سبھی مبتلا ہوں یا ہونے کا خطرہ تو بچت اپنی اپنی۔ جہاز ہوا میں ہو اور بات جان پر آن پڑے۔ تو پہلا سبق یہی ہے کہ اپنی جان بچایئں پھر کسی دوسرے کی مدد کی جائے۔ سبق تو اور بھی مگر کوئی سیکھنا چاہے۔
کرونا کسی بدصورت کالے ناگ سے کم نہیں جو پھن پھیلائے ہمارے سروں پر موجود ہے۔ دنیا کی ایک بڑی تعداد اس سے شدید متاثر، ہمسایہ ملک بھارت کے حالات پر تو خدا کی پناہ۔ گنتی میں چند سو یا ہزار نہیں، روزانہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ کورونا میں مبتلا ہونے لگے ہیں۔ ہزاروں اموات روزانہ ہو رہی ہیں۔ شمشان گھاٹ کم پڑ گئے ہیں۔ مریضوں کے لیے آکسیجن سلنڈرز دستیاب نہیں، اسپتالوں سے مدد کی اپیلیں، بیڈز کی قلت، حتی کہ ڈاکٹرز بھی کم پڑ گئے ہیں۔ عالمی ماہرین نے بھارت کی بھیانک صورتحال پر خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں ہیں۔ بلکل ایسے جیسے قیامت کا منظر۔ سبھی کو اپنی جان کی فکر لاحق ہے۔
گجرات فسادات کا قصائی ہی اس صورتحال کا ذمہ دار بنا، دنیا خبردار کرتی رہی کہ کسی بھی قسم کا اجتماع یا تہوار نہیں ہونا چاہیے، جس سے کرونا وائرس تیزی کے ساتھ پھیلنے کا خدشہ ہو۔ اس بد احتیاطی کا خمیازہ انڈین قوم اب جانوں کی صورت ادا کر رہی ہے۔
پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے مصیبت کی اس گھڑی میں مدد کے منتظر ہیں۔ اور پاکستانی قوم اس لمحے بھی جب کہ کشمیر میں مسلمانوں کا خون بہایا جا رہا ہے، انڈین مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے، حکومت پاکستان کو مدد کرنے کی عرضیاں ڈال رہی ہے۔ کوئی ایک بھی جان بچائی جا سکے، اس کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ مگر اپنی جان، جان بوجھ کر گنوا دی جائے، اس سے بڑھ کر خود پر ظلم اور کیا ہو گا؟
یہ ایک اجتماعی رویہ ہے، چند لوگوں کی من مرضی نہیں۔ بھارت کی فکر پوری پاکستانی قوم کو ہے۔ بھارت کی حالیہ صورت حال بس ایک لفظ 'بد احتیاطی ' کا مظہر ہے، مگر ہم بھی وہی غلطی بار بار دہراتے چلے جا رہے ہیں، جو جان لیوا ہے۔ خود کش حملہ ہے، جس میں اپنے ساتھ کئی اور قیمتی جانوں کو ہم خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
چونکہ چہرے پر پسینہ تنگ کرتا ہے، اس لئے ماسک پہننے کو ہم تیار نہیں لیکن فیشن کے طور پر ماسک چڑھایا جا سکتا ہے۔ اب کون بار بار اٹھے، ہاتھوں کو سینیٹائز کرے مگر اپنی اپنی ٹیبل پر دکھاوے کو رکھا جا سکتا ہے۔ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے سے کیا ہو گا۔ بس، اللہ ہے وہی محفوظ رکھے گا۔ جب سے سماجی فاصلہ پر زور دیا جا رہا ہے، جو کبھی بغل گیر نہ ہوئے تھے، ہاتھ ملانے تک کی فرصت نہ تھی وہ بھی کرونا وائرس سے چھیڑ چھاڑ پر اتر آئے ہیں۔
رمضان المبارک ختم ہونے میں صرف دو ہفتے باقی ہیں مگر عید کے تہوار کو کس طرح بھر پور بنانا ہے، ابھی سے سوچا جا رہا، افطار پارٹی اب چونکہ ہوٹل میں ممکن نہیں، اس لئے گھر کی ٹیبل ہی یہ کمی پوری کر رہی ہے۔ ہم بھارت کی حالت پر تو سنجیدہ ہو سکتے ہیں مگر اپنی حالت پر رحم کھانے کو تیار نہیں۔
کوئی بھی ہو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، مشکل اور تکلیف میں ہمارے دل پسیج جاتے ہیں، مگر ہماری بد احتیاطی سے ہمارے اپنے کس تکلیف سے گزرتے ہیں، اس کی پرواہ نہیں۔ حکومت کی جانب سے بار بار زور دیا جا رہا ہے، ماسک پہنیں، کیونکہ صرف احتیاط ہی کرونا وائرس سے بچاؤ کا واحد راستہ ہے۔
وفاقی حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی ہو تن تنہا کسی محاذ کو فتح نہیں کر سکتی۔ صوبائی حکومتوں سمیت پوری قوم کا بھر پور ساتھ ہمیشہ درکار رہتا ہے۔
یہ بات بھی مسلمہ حقیقت ہے، عوام اپنے لیڈران کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ پہلے پہل وفاقی ہو یا صوبائی حکومت، عوام کو زور دیتی رہی احتیاط کا، لیکن خود اس بات سے کوسوں دور نظر آئی۔ اپوزیشن پارٹی کے لیڈر اگر ماسک پہن کر جلسہ گاہ، عوامی اجتماع یا سڑکوں پر نہیں نکلے، تو ساتھ چلنے والی فوج کیسے گستاخی کر سکتی ہے۔ اس ایک فیکٹر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
عالم تو یہ ہے کہ جان ہماری ہے لیکن ایس او پیز پر عمل یقینی بنانے کے لئے اب فوج کو طلب کیا گیا ہے۔ قدرتی آفات میں فوج کا کردار قابل ستائش ہے لیکن قوم کو سمجھنا ہو گا کہ اگر اس طرح کے کاموں کے لئے بھی فوج آئے گی تو سرحدوں کا دفاع کیسے مضبوط رہے گا؟ سمجھ سے بالاتر ہے بطور مجموعی ہمارے رویے۔ کار کی سیٹ بیلٹ ہم باندھنے کو اس لئے تیار نہیں کہ تنگ کرتی ہے۔ سگنل کی لال بتی ہمارا غرور پاش پاش کرتی ہے۔ بد احتیاطی ہماری منشا، مگر صحت و تندرستی کا ضامن معالج ہو۔ جان ہماری ہے مگر حفاظت کی ذمہ داری کسی اور کی۔ کوئی بھی غلط فعل ہمارا مگر شکوہ شکایت رب سے۔ وائرس پھیلنے سے لے کر ویکسین بر وقت پاکستان نہیں لائی گئی اس لئے حکومت قصور وار مگر ہم احتیاط برتنے سے انکاری ہی اچھے۔
وقت اور حالات کے مطابق خود کو بدل لینے میں عافیت ہے۔ ہمیں زندگی گزارنے کے نئے اصول وضع کرنا ہونگے، ورنہ چارہ نہیں۔ اگر کوئی اس مغالطے میں ہے کی ویکسین کے بعد زندگی آسان ہے تو جان لیں یہی احتیاط پھر بھی کرنا ہو گی۔