آدھے ادھورے جی جان والے لوگ
عوام نے نئے گلگت بلتستان کی بنیاد رکھ دی۔ اس سطر کو تحریر کرنے کی وجہ کوئی سیاسی نہیں اور نا ہی کسی سیاسی جماعت کی جیت سے منسلک ہے۔ ہاں مگر گلگت کے عوام جی جان والے ضرور ہے، ہم جیسوں کو تو ٹھنڈ کے نام پر گرم لحاف فورا یاد آنے لگتے ہیں، سرد ہوا کے ایک جھونکے پر نزلہ زکام اور کام نہ کرنے کے ہزار بہانے، میرا ذاتی اندازہ ہے، بدلتا موسم، ہماری سستی اور کاہلی میں دس بیس نہیں پورے سو فیصد اضافہ کر دیتا ہے۔
محکمہ موسمیات کی پیش گوئی سمیت پچھلے دو دن سے موسم کے جو تیور بدلے ہیں، حالیہ بارشوں نے اس میں مزید اضافہ کر دیا، پنجاب میں موسم کی شدت گلگت کے مقابلے آٹے میں نمک کے برابر ہے، پولنگ کے روز گلگت بلتستان میں موسم کا سرد ہونا اور ٹھنڈ پڑنا کچھ انہونی بات نہیں مگر اپنے حق کے لئے حالات یا موسم کیسا بھی ستم ظریف ہو، لڑا بھی جا سکتا ہے اور خون بھی گرمایا جا سکتا ہے، یہ جی دار لوگوں نے بتا دیا۔ سیاسی جماعتوں نے جس انداز سے اتخابی مہم چلائی وہ قابل تحسین ہے۔ کوئی شبہ نہیں ایسے میں کون ہو جس کا لہو نہ گرمایا ہو، مگر موسم کی سردی تو بہت سو کو ٹھنڈا کر جائے۔ لیکن جی دار لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ الیکشن کوریج کے لئے پنجاب سے جانے والے نامہ نگاروں کے حالات بتا رہے تھے "پا جی قلفی جم گئی اے" نومبر کا مہینہ، شدید برفباری، رہی سہی کسر بارش کے ہاتھوں پوری ہوئی، ایسے میں ظالم کورونا بھی سروں پو سوار۔ مگر کیا شاندار نظارا دیکھنے کو ملا، ہر شخص اپنے گھر سے نکلا، مقررہ اوقات میں متعلقہ پولنگ اسٹیشن پہنچا اور ووٹ کاسٹ کیا۔ کیا جوان کیا بوڑھے۔ ایک اماں کو دیکھا جن کی عمر 98 سال وہ بھی موسم کی پرواہ کئے بنا ووٹ کاسٹ کرنے پہنچی۔ سیاسی پہلو ایک طرف، نتیجہ کچھ بھی ہو، عوام نے واقعی نئے گلگت بلتستان کی بنیاد رکھ دی، اور اس کا اثر صرف گلگت تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ پورے ملک پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ شائستہ اور تہذیب یافتہ اگر کسی کو کہا جائے، تو وہ گلگت بلتستان کے لوگ ہیں، ان کے اخلاق اور ملنساری کا اندازہ صرف تحریر کی حد تک نہیں، ذاتی حیثیت میں بھی لگا سکتی ہوں، ایک تو میڈیا میں کام کرنے والے کچھ دوستوں کا تعلق اسی جگہ سے ہے اور ان کی زبانی یہاں کی خوبصورتی، کلچر اور روایات بارے سن رکھا تھا، مگر چند سال قبل خود جانے کا اتفاق ہوا تو حرف بہ حرف سب سچ نکلا۔ لٹریسی ریٹ تقریبا 100 فیصد اس کے باوجود کسی نواب کی طرح نوکری کی بجائے محنت کو ترجیح دیتے ہیں، پھر چاہے پیشہ کوئی ہو۔
صاف ستھرائی ایسی کہ اپنی ہی آنکھوں پر یقین نہیں آتا کہ یہ پاکستان ہے اور اگر کسی چیز کی خریداری پر بات آ جائے نقصان ہی کیوں نہ ہو سیاح کے ساتھ bargaining کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کے مالک گلگت بلتستان کے مسائل بھی اتنے ہی بلند ہیں، اس کالم کو تحریر کرنے کے دوران مختلف انتخابی نتائج سامنے آ رہے ہیں کہیں پاکستان پیپلز پارٹی آگے ہے تو کہیں پاکستان تحریک انصاف میدان مار رہی ہے مگر ن لیگ تو منظر سے ہی غائب ہوتی محسوس ہو رہی ہے، باوجود اس کے مریم صفدر نے بڑی بھر پور مہم چلائی کچھ مبصرین کے مطابق جس بیانیہ کا پرچار کیا جا رہا ہے، وہی آڑے آ گیا، ہمارے پروگرام "مقابل" میں ہارون الرشید صاحب نے بار بار کہا کہ ان اتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی سرپرائز کر سکتی ہے، بظاہر ایسا نظر بھی آرہا تھا۔ چونکہ بلاول زرداری نے اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نانا ذوالفقار علی بھٹو کی طرز سیاست پر کامیابی کے لئے بھر پور الیکشن مہم چلائی، ان تمام جیالوں کو گھروں سے نکالا۔ جو مایوس ہو چکے تھے مگر ووٹنگ کے عمل کے آغاز اور مکمل ہونے تک پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی ناانصافی اور دھاندلی کے الزامات نے اس بات کو سمجھنے میں مدد دی۔ حالات کچھ مختلف ہو رہے ہیں اعلانات اور فنڈز کی حد تک پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپنا مضبوط حکومتی کارڈ کھیلا۔
پارٹی کوئی بھی جیتے سوال یہ ہے کہ طبی سہولیات، صحت، روزگاراور انفرا سٹرکچر یہ سب گلگت بلتستان کے بڑے اور حقیقی مسائل ہیں ان کو کون اور کیسے دور کریگا۔ بلاول کے اعلانات میں سندھ کی تصویر تھی، جس کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ تحریک انصاف جو ڈھائی سال سے مرکز اور کئی سالوں سے خیبرپختون خواہ میں حکومت کر ہی ہے قومی خزانے میں پیسہ ہونا نہ ہونا ایک طرف کوئی حکمت عملی نہیں۔ گلگت بلتستان کے انتخاب میں کچھ پہلو واضح ہو گئے ہیں۔
(1) آزادی کیا ہے اور ووٹ کی طاقت کس کو کہتے ہیں۔
(2) بد تہذیبی اور گالم گلوچ کی سیاست کرنے والوں کی ہمارے دلوں میں کوئی جگہ نہیں۔ مکمل کلین بولڈ۔
(3) اور یہ نکتہ سب سے اہم۔ قیام پاکستان کے فورا بعد اس نئی مملکت سے رشتہ جوڑنے والے آج تک بے قرار ہیں کہ انہیں باقاعدہ پاکستان کا حصہ بنایا جائے۔ جس جماعت نے بہتر پلان دیا اور گلگت بلتستان کو حقیقی بنیادوں پر صوبہ بنانے کے لیے مثبت رویہ دکھایا اسی کا مستقبل بھی روشن ہے۔
جیتنے والی سیاسی پارٹی اپوزیشن کی ہو یا مرکز کی۔ پاکستانی سیاست میں اس کا قد بڑھے گا، بہت ہو گئے کھوکھلے دعوے اور وعدے۔ اب وقت آن پہنچا کہ گلگت بلتستان کے آدھے ادھورے عوام کو مکمل کیا جائے اور ان کی تکمیل صرف باقاعدہ صوبہ تشکیل دینے پر ہو گی۔