جاپان… حیران کن ترقی کا راز!
دنیا کے مختلف ممالک اور تہذیبوں کے مطالعے کے لیے اگر انسان کو ان کے درمیان کچھ وقت گزارنے کا موقعہ ملے تو یہ کسی بھی اعتبار سے نعمت سے کم نہیں۔ اﷲ کا صد شکر کہ اس نے مجھے بار ہا یہ موقع عطا فرمایا۔
پاکستان ٹیلی ویژن کی تیس سال سے زائد سروس کے دوران بطور نیوز رپورٹر، رب کریم نے بارہا یہ موقع عطا کیا کہ میں دنیا کی مختلف تہذیبوں اور ممالک کو سرکاری طور پر دیکھ سکوں۔ میں نے براعظم امریکا، افریقہ، ایشیا اور یورپ بہت سے ممالک، پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظم کے دوروں کی رپورٹنگ کے دوران یا دوسری اسائنمنٹس ادا کرتے ہوئے دیکھنے کا موقع ملا۔ ان دور ں میں جہاں آپ کو وہاں کے حکومتی نظام اور رہن سہن کا اندازہ ہوتا ہے وہاں بطور صحافی ان ممالک کے میڈیا کے ا فراد سے بھی ملنے کا موقع ملتا ہے، اس طرح ان ممالک کے ظاہری اور باطنی معاشرت کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں، دنیا کے مختلف معاشروں ا ور ان کے نظام حکومت کا جب باہمی تقابل کیا جائے تو جاپان کے معاشرتی نظام ا ور حکومت سب میں ممتاز نظر آتی ہے۔
میں جاپان میں جہاں بھی گیا وہاں اس سوال کا جواب تلاش کرتا رہا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جاپان کی معیشت جو دوسری جنگ عظیم میں راکھ کا ڈھیر بن گئی تھی وہ کس طرح اب ایک بے نظیر مثال بن گئی ہے؟
مجھے کچھ عرصہ پہلے جاپان کی ایک یونیورسٹی GRIPS نے پی ایچ ڈی کے طالب علموں کو ایک سیمینار میں "Role of Media in Disaster، war and Conflict" کے موضوع پر لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا تھا۔ اس حوالے سے جاپانی اساتذہ اور دانشوروں سے بھی تبادلہ خیال کرنے کا موقعہ ملا۔ ان تمام ملاقاتوں میں اس سوال کا جواب تلاش کرتا رہا کہ آخر کیا وجہ تھی کہ دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے جاپان کو تباہ و برباد کرنے کے لیے اس کے شہروں کو ایٹم بم کا نشانہ بنایا اورتباہ ہونے کے بعد جاپانی قوم چند عشروں میں کس طرح دنیا کی تیسری بڑی معیشت اور صنعت وتجارت کے شعبے میں ایک Brand Name بن گئی۔
جاپان میں قیام کے دوران میں نے ٹوکیو، ہیروشیما، کویوٹو، اوساکا اور دوسرے کئی شہروں کا مطالعاتی دورہ کیا۔ جاپانی معاشرت میں جھوٹ بولنے، کسی کے حق کو مارنے، اخلاقی قدروں کو پامال کرنے، بے ہودگی کی اجازت کا نہ ہونا، وقت کی پابندی، بھٹکے ہوئے لوگوں (سیاحوں ) کو راستہ بتانا انھیں منزل تک پہنچانا یہ سب ان کے فرائض تصورکیے جاتے ہیں۔
جاپانی مجموعی طور پر نفیس، ٹھنڈے اور حلیم الطبع ہیں۔ قانون کا احترام کرنا اور دوسروں سے قانون کی پاسداری کروانا ان کے کردار کا خاصہ ہے۔ خود بھی خوش رہتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی خوشی کا باعث بنتے ہیں۔ جاپانی امیگریشن کے پاس ایک ہزار سال سال کا Active ریکارڈ موجود ہے۔ کوئی بھی شخص جس نے جاپان میں قوائد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے Overstayکیا ہوا ہو یا کسی جرم میں سزا پائی ہو وہ دوبارہ جاپان میں داخل نہیں ہو سکتا۔ غذائی اشیاء میں ملاوٹ کرنے کا تصور بھی نہیں۔ جاپانی پراڈکٹس کی تیاری کے معیار میں اگر معمولی سا فرق بھی آ جائے تو اسے اندون یا بیرون ملک مارکیٹ نہیں کیا جا سکتا۔
جاپانی معاشرت میں ایک اور بات جو میں نے شدت سے محسوس کی وہ یہ ہے کہ وہ انسانی جسم کو آسائش مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کی روحانی تربیت کا بھی بڑا اہتمام کرتے ہیں۔ جاپانی قوم صفائی کو عملاً نصف ایمان سمجھتی ہے۔ جاپان دنیا کے ان چند ممالک میں سرفہرست ہے جہاں رزق کی فراوانی ہے۔ جاپان میں رہنے والے پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ہم نے جس قدر کشادہ رزق جاپان میں پایا وہ دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں دیکھا۔ جاپانی قوم اپنی غذائی پیداوار میں کیمیائی کھاد کی جگہ Organicکھاد استعمال کرتی ہے۔ اسی بناء پر جاپان میں پیدا ہونے والے پھل اور سبزیاں، چین، کوریا اور دوسرے ممالک سے آنے والے پھل اور سبزیوں کے مقابلے میں دوگنا مہنگی ملتی ہیں۔
یونیورسٹی کے ایک پروفیسرصاحب بتا رہے تھے کہ جدید جاپانی معاشرت کے لیے قانون سازی کرتے ہوئے ہم نے جن قوانین کو بنیاد بنایا ہے، ان میں حضرت عمرؓ کے دیے ہوئے اصلاحی اصولوں Umar Lawکو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ جاپان میں استاد کے احترام اور مقام کا اندازہ آپ ابن انشاء اور حکیم سعید کی ان تحریوں سے لگا سکتے ہیں جو انھوں نے کئی دہائیوں پہلے جاپانی سفر ناموں میں بیان کیں۔ ابن انشاء لکھتے ہیں کہ ایک جاپانی یونیورسٹی کے پروفیسر ملاقات کے بعد جب وہ مجھے رخصت کرنے باہر آئے تو میں نے دیکھا کہ ہم جہاں سے گزرتے تو طالب علموں کا گروپ ہمارے پیچھے چھوٹی چھوٹی چھلانگیں لگا کر دوسری طرف ہو جاتا ہے۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ ایسا کیوں کر رہے ہیں تو انھوں نے کہا کہ ہم اپنے استاد کے سائے پر پائوں رکھنا ان کے تقدس کے خلاف سمجھتے ہیں۔
آپ اندازہ لگا لیجئیے کہ جس قوم کے نوجوان اپنے اساتذہ کا اس قدر احترام کرتے ہوں وہ دنیا بھر میں سائنس اور ٹیکنالوجی اور ترقی میں نمایاں مقام کیوں نہ حاصل کرے گی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے جاپانی قوم نے دنیا کی تیز رفتار ترین بلٹ ٹرین کی سہولت عام آدمی کو فراہم کی ہے۔ جس کی رفتار 603 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ زلزلوں اور سونامی کے خطرات سے بھری اس زمین پر جاپانیوں نے ایسی عمارتیں اور سٹرکیں تعمیر کیں ہیں کہ ریکٹر اسکیل پر نو درجے تک کے زلزلے انھیں سرنگوں نہیں کر سکتے۔ ٹوکیو شہر میں زیر زمین کئی سو فٹ گہری سرنگوں میں تیز رفتار ٹرینیں اور گاڑیاں رواں دواں ہیں تو زمین کے اوپر بڑے بڑے پلازوں کی دسویں منزل کے سامنے سے تین تین منزلہ ہائی وے گزر رہی ہیں۔
جاپانی قوم پھولوں کی بھی شیدائی ہے، خوشنما پھول ہر گھر اور سٹرک کی زینت ہیں۔ چار بڑے جزیروں پر پھیلے ملک جاپان کو چڑھتے سورج کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں روئے زمین پر سب سے پہلے سورج کی کرنیں دن کی نوید لے کر آتی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اسباب دے تو جاپان کی سیاحت ضرور کرنی چاہیے۔