طالبان کیسے جیتے، بائیڈن افسوس کریں گے
طالبان کی جیت کی سب کو توقع تھی لیکن وہ چند دنوں میں کابل پر اپنا قبضہ جما لیں گے، یہ کسی تجزیئے میں شامل نہیں تھا۔ یہ سب کیسے ہوا؟ اس کا تجزیہ زور و شور سے جاری ہے۔ میڈیا پر تجزیہ کاروں کا ایک بہت بڑا گروہ جس کی ڈوریں مغربی مفادات سے بندھی ہیں، یہ بتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے۔ طالبان کی اس برق رفتار فتح کے پیچھے نجانے کیا کچھ ہے، انتہا پسندی پاکستان آجائے گی اور طالبان کی اس کامیابی میں پاکستان کا کوئی ہاتھ نہیں وغیرہ وغیرہ۔ دوسری جانب امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کا فیصلہ انہیں ٹرمپ انتظامیہ نے دیا تھا، انہیں اس پر کوئی افسوس یا تامل نہیں۔ صدر بائیڈن کا یہ موقف اور ہمارے مغرب زدہ دانشور، جن کے کلیجے طالبان کی جیت سے جل بھن گئے ہیں اور وہ چیخ رہے ہیں کہ پاکستان کا عمل دخل نہیں دونوں غلط ہیں۔ یہ خود فریبی کا شکار ہیں اور غم و غصے کی وجہ سے حالات کے تجزیئے میں ڈنڈی مار رہے ہیں۔
آئیے سب سے پہلے ان پاکستانی دانشوروں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب امریکہ نے 20 سال پہلے افغانستان میں لشکر کشی اور پاکستان سے کھل کر مدد مانگی تو اسلام آباد نے امریکہ کے غصے کو دیکھتے ہوئے طالبان کی دشمنی کا کڑوا گھونٹ بھر لیا۔ وہ فورس جو آئی ایس آئی نے اپنے ہاتھوں سے بنائی تھی امریکہ کی جدید ملٹری پاور کے ہاتھوں بری طرح زخمی ہو کر افغانستان کے سیاہ اور بے آباد پہاڑوں کی آغوش میں چھپ گئی۔ کئی سالوں تک پاکستان خاموشی سے امریکہ کے بنائے ہوئے راستے پر چلتا رہا لیکن ہوا کیا، سی آئی اے نے ہمارے اداروں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان میں بھی اپنے خفیہ گروپ بنا کر بچے کھچے طالبان کو قابو کرنے کی کوشش شروع کردیں۔ ریمنڈ ڈیوس جیسے ایجنٹ سرعام لاہور جیسے شہر کی مصروف ترین سڑکوں پر کسی انگریزی فلم کی شوٹنگ کی طرح پاکستانیوں کو قتل کر تے نظر آئے اور پھر قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے، سب کے سامنے امریکی واپس چلے گئے۔
افسوس ناک بات یہ بھی تھی کہ پاکستان کی سیاسی قیادت جس میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ شامل تھیں، اس صورتحال پر امریکہ اور بھارت کو خوش کرنے میں مصروف رہیں۔ آئی ایس آئی اور فوج کے خلاف مغربی پروپیگنڈہ کو ہمارے سیاسی اکابرین اور بہت سارے دانشور جائز اور درست قرار دیتے تھے۔ انکی منطق تھی کہ فوج دہشتگردوں کو پالتی ہے، جس کا پاکستان کو نقصان ہوتا ہے۔ ففتھ جنریشن وارفئیر کا اصول اپناتے ہوئے درس دیا گیا کہ کشمیر طاقت سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ انڈیا بڑا ملک ہے اس کے ساتھ تجارت کو فروغ دیں۔ پاکستان اور کشمیر کے لوگ آزادی سے زیادہ روٹی اور معیشت کی مضبوطی چاہتے ہیں۔
پاکستان کے وزرائے خارجہ بڑی ڈھٹائی سے اقوام عالم کے سامنے کہتے نظر آئے کہ ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہو گا۔ اس سے بڑا ظلم اور زیادتی کیا ہو گی کہ ہمارے وہ نوجوان جو کشمیر میں بھارتی ظلم کے آگے سینہ تان کر کھڑے ہو رہے تھے انہیں اپنے گھر کے پیچھے لان میں موجود سانپوں سے تشبیہ دی گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمارے اداروں نے امریکہ اور بھارت کی بڑھتی ہوئی قربتوں اور بلوچستان میں مداخلت کے بعد پالیسی بنائی کہ اپنے مفادات کا خود تحفظ کرنا ہو گا۔ جب امریکہ میں ٹرمپ کی حکومت آئی تو وہ ایک غیر روائتی صدر تھے۔ پروفیشنل سیاست دانوں کی بجائے ایک حقیقی کاروباری شخصیت جن کے امریکہ کی جنگوں کے بارے میں اپنے نظریات تھے۔ بہت جلد پوری دنیا کو علم ہو گیا کہ وہ افغانستان سے اپنی فوج واپس بلانے میں سنجیدہ ہیں۔ یہ وہ موقع تھا جب اسلام آباد میں چند اہم افراد کی میٹنگز میں مستقبل کا ممکنہ نقشہ بنایا گیا۔ سوچا گیا کہ اگر امریکہ افغانستان سے واپس چلا گیا تو وہاں قائم نظام میں ہندوستانی اثرات اور مداخلت کی وجہ سے خطے میں پرابلم ہو جائے گی۔ کشمیر پر بلیک میل کرنے کے لیے بھارت بلوچستان میں حالات خراب کرے گا اور پھر سی پیک کے منصوبوں کو بھی چین سے مخالفت کی وجہ سے مکمل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا۔ پاکستان میں عمران خان کی حکومت قائم ہو گئی، جس کا رویہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ سے یکسر مختلف تھا۔ انکو اس صورتحال پر بریف کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقاتوں میں افغانستان کے مستقبل پر بات کی۔ ٹرمپ افغانستان سے انخلاء چاہتے تھے یہ انکے انتخابی وعدے میں شامل تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے لوہا گرم دیکھتے ہوئے ہتھوڑا مارا۔ پیش کش کی کہ انخلاء کیلئے طالبان سے بات کرنا ضروری ہے اور پاکستان اس حوالے سے امریکہ کی بھرپور مدد کرے گا۔
یہ وہ حکمت عملی تھی جو 80ء کی دہائی میں آئی ایس آئی نے اپنائی تھی۔ تب جنرل ضیاء الحق نے امریکہ کو قائل کیا تھا کہ اگر واشنگٹن وسائل مہیا کرے تو پاکستان مجاہدین کے ذریعے روس کو افغانستان میں شکست دے سکتا ہے اور دس سال کی جنگ میں ایسا ہی ہوا۔ اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے جنیوا میں جا کر فوج کی مخالفت کے باجود امن معاہدے پر دستخط کر کے مستقبل کی بہت ساری راہیں بند کر دی تھیں۔ خیر یہ بھی ایک نہایت اہم واقعہ تھا، اس کے اثرات کیا تھے اور پاکستان نے اس میں کیا کھویا اس پر پھر کسی وقت بات کریں گے۔ صدر ٹرمپ طالبان سے مذاکرات پر مان گئے۔ اورگرین سگنل ملنے پر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قائم افغان طالبان کے دفتر میں مذاکرات نئی ترجیحات کے ساتھ شروع ہو گئے۔ پاکستان نے اس دوران اپنے وسائل اور دوستوں کا استعمال کرتے ہوئے طالبان کے مختلف گروپس کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ مستقبل میں امریکہ کے جانے کے بعد لڑائی کی بجائے معاملات گفت و شنید سے حل کریں گے۔ یہ اسی کوشش کے ثمرات ہیں کہ طالبان بغیر لڑائی لڑے 90 فیصد افغانستان پر قابض ہو گئے اور اب جلد افغانستان کی نئی حکومت بن جائے گی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روس کے بعد امریکہ کو افغانستان میں شکست نے ثابت کیا کہ اگر وسائل ہوں تو ہمارے ادارے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیکن وسائل کے ساتھ ساتھ پاکستان سے مخلص سیاسی قیادت کا ہونا بھی اتنا ہی ضروری ہے، جتنا وسائل کی موجودگی ضروری ہے۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی اقتدار میں موجودگی ہمارے اداروں کیلیے ایک بہت بڑی مدد تھی۔ اب ذرا صدر جوبائیڈن کی بات کر لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان سے انخلاء کا معاہدہ انہیں ورثے میں ملا تھا لیکن بعض اوقات سفارت کاری کسی مقصد کے حصول کی بجائے محض کسی مخصوص صورتحال سے بچنے کے لیے بھی کی جاتی ہے۔ صدر جوبائیڈن چاہتے تو ایسی سفارت کاری کر سکتے تھے جو کوئی فوجی فتح نہ ہوتی لیکن وہ افغان حکومت کے اس اچانک خاتمے سے بچ جاتے۔
امریکہ نے طالبان سے ایسا معاہدہ کیا جس میں طالبان کو نہ تو ہتھیار پھینکنے کیلئے کہا گیا اور نہ ہی جنگ بندی پر زور دیا گیا۔ صرف یہ کہا گیا کہ طالبان کسی بیرونی گروپ کو اپنی سرزمین دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں کرنے دیں گے۔ صدر جو بائیڈن بہتر مذاکرات کر کے امریکیوں کے انخلاء تک اشرف غنی حکومت کے خاتمے کو روک سکتے تھے، انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ابھی تو وہ کہتے ہیں کہ انہیں افسوس نہیں لیکن مستقبل میں انہیں افسوس ہو سکتا ہے۔