شہباز شریف کی نئی ذمہ داری، حمزہ قربانی کیلئے تیار
جب دنیا نظریاتی گروہوں میں تقسیم تھی تو ایک ایسا وقت بھی آیا کہ سیاست کو پیشہ پیغمبری سے تشبیہ دی جانے لگی۔ نظریات اور انتخابی منشور کی وجہ سے سیاسی اتحاد بنتے اور ٹوٹتے تھے۔ وقت گزرتا رہا، سوویت یونین کی کمیونسٹ ریاست کے خاتمے کے بعد سیاست کا رخ ہی بدل گیا۔ نظریہ اور اصول کی جگہ پیسہ اور اثرورسوخ نے لے لی۔ عوامی خدمت اوربہبود پر توجہ نہ ہونے کے برابر رہ گئی، جس کا اثر حکومتوں کی کارکردگی پر ہوا۔
وطن عزیز پر اس تبدیلی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں بننے والی حکومتوں کی ترجیح صرف اقتدار میں رہنا تھا انکے نزدیک الیکشن کے بعد پانچ سال تک برسر اقتدار رہنا ہی جمہوریت کا تسلسل اور کامیابی تھی۔
جمہور کی حالت کیا ہے، انکے مسائل کیسے حل ہوں گے، اس کا ذکر صرف تقاریرمیں ہوتا رہا۔ یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ حکمرانی صرف چند خاندانوں کا حق ہے، چاہے وہ کسی بھی جماعت میں ہوں۔ ان کے بغیر خدانخواستہ پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا۔ 2018 میں عمران خان نے سیاست کو خاندانی گھن چکر سے نکالا، عوامی فلاح و بہبود اور احتساب کے نعروں سے قوم کو جگایا۔ عمران خان کی حکومت تین سال پورے کرچکی ہے۔ اس کی کارکردگی کے بارے میں میڈیا بھرپور انداز میں اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے۔
میں اس وقت اس حوالے سے بات نہیں کروں گا کیونکہ اس کے بارے میں فیصلے کا حقیقی اختیار عوام کو ہے جو انتخابات میں ووٹ کی طاقت کے ذریعے کارکردگی پر اپنی رائے کا اظہار کر دیں گے۔ لیکن سیاسی ماحول چند ماہ کے وقفے کے بعد دوبارہ گرم ہو رہا ہے۔ آٹھ سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں حکومت کے خلاف کسی حقیقی احتجاج کا فیصلہ نہ ہو سکا، پارلیمنٹ کے اندر تبدیلی کے امکانات کو بھی میاں نواز شریف نے مسترد کردیا تھا۔
اطلاعات مل رہی ہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ بلاول بھٹو کی پہلے پنجاب اور پھر مرکز میں عدم اعتماد لانے کی تجویز کو شہباز شریف کے اردگرد ن لیگ کے بعض رہنماؤں نے سنجیدگی سے لینا شروع کر دیا ہے۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ ہاؤس کے ایک چیمبر میں ہونے والے اجلاس کی گفتگو نے ایک طرح کی آگ لگا دی ہے.بتایا جا رہا ہے کہ ن لیگ کے کچھ سینئر رہنما، جن میں خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق، خواجہ آصف، رانا تنویر اور رانا ثناء اللہ شامل ہیں، کا خیال ہے کہ پنجاب کے وزیراعلی عثمان بزدار کے خلاف عدم اعتماد کی تجویز پر بلاول بھٹو سے گفتگو ہونی چاہیے۔ اور اگر ق لیگ، پیپلز پارٹی اور ن لیگ مل کر پنجاب میں تبدیلی لا سکیں تو یہ اپوزیشن کے حق میں بہتر ہوگا۔
یہ وہی بات ہے جس کا میں پہلے ذکر کررہا تھا کہ اب سیاست کا مقصد صرف اور صرف اقتدار کا حصول ہے، بس ہاتھ ملائیں مطلوبہ ووٹ حاصل کریں تاکہ اقتدار پر براجمان ہو سکیں۔ انتخابی منشور یا ماضی کا چال چلن کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ اجلاس میں لاہور سے تعلق رکھنے والے والے سینئر لیگی اراکین کی رائے تھی کہ اگر پیپلز پارٹی اپنے اراکین کے ووٹ دیدے تو اپوزیشن ووٹوں کی اتنی تعداد ہو جائے گی کہ جہانگیر ترین گروپ کو حمایت کیلئے آمادہ کیا جا سکے۔ اراکین کا خیال تھا کہ اگر اس کوشش کو آگے بڑھایا جائے تو پیپلز پارٹی کی طرف سے وزارت اعلی کا ممکنہ نام چوہدری پرویز الہی کا ہو سکتا ہے۔ چودھری صاحب کے لیے ن لیگ کے کئی زعما کے دلوں میں بڑا احترام ہے اور ان کے ساتھ مل کرکام کرنے کو اچھا تصور کرتے ہیں۔
اجلاس کے شرکاء کی اکثریت کا خیال تھا کہ ن لیگ کی حمایت سے پنجاب میں بننے والی حکومت میں لیگی اراکین کی صوبائی کابینہ میں شرکت سے کارکنوں میں حوصلہ آجائے گا۔ صوبائی انتظامیہ جلد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں مسلم لیگیوں کو بہتر پوزیشن دلا سکے گی اور سب سے بڑھ کر یہ تاثر ختم ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ ن لیگ کے خلاف ہے۔ پورے پاکستان میں پیغام جائے گا کہ اداروں اور ن لیگ میں صلح ہو چکی ہے جسکا آئندہ انتخابات میں ن لیگ کے حق میں مثبت اثر ہو گا۔ کئی زعما کا خیال تھا کہ بدعنوانی کے مقدمات کی پیروی بھی تو صوبائی حکومت کر رہی ہے جب حکومت اپنی ہوگی تو پھر کون پیروی کرے گا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ یہ باتیں میاں شہباز شریف کے گوش گزار کی جائیں کہ وہ میاں نواز شریف کو اس ممکنہ سیاسی اتحاد کے فضائل سے آگاہ کریں تاکہ پوری جماعت اس حکمت عملی سے استفادہ کر سکے۔ حمزہ شہباز کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ اس مرحلے پر پارٹی کو مشکل صورتحال سے نکالنے کے لیے پنجاب کی وزارت اعلی کی خواہش کو دل میں دبانے کے لیے تیار ہیں۔ بعض ن لیگی رہنماوں کا خیال ہے کہ حمزہ شہباز کو وزیراعلی بنانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو گی کیونکہ حمزہ بطور وزیراعلی مریم نواز کو قبول نہیں ہوں گے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی ترجیح بھی پرویز الہیٰ ہی ہوں گے کیونکہ وہ ماضی میں ان کیساتھ کام کر چکے ہیں اور زرداری صاحب کے معاملات چوہدری صاحب سے درست ہیں۔
اس ساری کہانی میں اہم کردار جہانگیر ترین گروپ کا ہو گا۔ ابھی تک ترین صاحب خاموش ہیں۔ وہ سٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاہم اطلاعات ہیں کہ درپردہ وہ پی ٹی آئی میں اپنے حمایتی گروپ میں اضافہ چاہتے ہیں۔ ترین صاحب کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر وہ ن لیگ اورپیپلز پارٹی سے اتحاد کرینگے تو وزارت اعلیٰ انکے گروپ کو ملے گی۔ اپنے اس مطالبے کی حمایت میں وہ پیپلز پارٹی اور اور چھٹہ لیگ کے درمیان اتحاد کی مثال دے سکتے ہیں جب پہلے میاں منظور وٹو اور پھر سردارعارف نکئی بہت کم ممبران کی حمایت کے باوجود پنجاب کے وزرائے اعلیٰ رہے۔
بے رحم سیاست کی اس داستان میں پاکستان کے غریب لیکن غیور عوام کا نہ کوئی ذکر آیا ہے اور نہ آئے گا، اس وقت تک جب جمہور خود اس بات کا فیصلہ نہ کرلیں کہ مستقبل میں اقتدار کے یہ پجاری ان کے نمائندے نہیں ہو سکتے۔