تصادم کی پالیسی کے ممکنہ مضمرات
پاکستان میں جمہوریت اور سیاست کے تسلسل سے آگے نہ بڑھنے کی بہت سی وجوہات میں ایک بڑ ی وجہ ریاستی و سیاسی اداروں کے درمیان محاذ آرائی اور تصادم پر مبنی پالیسی تھی۔ اس تصادم سے جڑی پالیسی کا عملی نتیجہ جمہوری عمل کی کمزوری کا سبب بنا ہے۔
ماضی میں زیادہ تر واقعات سیاسی اور اسٹیبلیشمنٹ کے درمیان ٹکراؤ سے جڑے ہوئے ہیں۔ لیکن اس بار کچھ واقعات ہمیں اسٹیبلیشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان باہمی ٹکراؤ یا بداعتمادی کے مناظر پیدا کررہا ہے۔ یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اس وقت بھی جو بڑی لڑائی یا محاذآرائی ہمیں دیکھنے کو ملتی ہے اس کی بڑی وجہ بھی طاقت کے مراکز میں عدم توازن یا اعتماد سازی کا فقدان ہے۔
حالیہ دنوں میں دو واقعات نے کچھ ایسے ماحول کو جنم دیا ہے جس میں اداروں کے درمیان معاملات کو سمجھنے میں ناکامی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اول آرمی چیف کی توسیع یا تقرری کے معاملے میں عدالت کا تفصیلی فیصلہ ہے۔ بلاوجہ حکومت کی جانب معاملات کو درست انداز میں نمٹنے کے بجائے غیرمناسب حکمت عملی نے معاملات میں تلخیاں پیدا کی ہیں۔ دوسرا واقعہ یقینی طور پر جنرل پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ ہے۔ جنرل مشرف کی سزائے موت اور تفصیلی فیصلہ کے بعض مندرجات پر فوج کا ردعمل سخت بلکہ فطری بھی تھا۔
یہ بات ماننا کافی مشکل او رناممکن ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو غدار قرار دیا جائے۔ ریٹائر ڈ فوجیوں کی جانب سے جنرل مشرف کی سزا کو تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا، ان کے بقول جنرل مشرف کو دی جانے والی سزا غیر آئینی، تعصب پر مبنی ہے۔ جنرل مشرف کے وکلاء کا موقف ہے کہ مقدمے میں قانونی تقاضے پورے کرنے کے بجائے ان کی ذات کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ فوج کے ترجمان کے بقول وہ اداروں کے درمیان ٹکراو کی پالیسی کے حامی نہیں۔ یہ بات بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ جنرل مشرف کے خلاف تفصیلی فیصلہ کے پیرا 66میں دیے گئے الفاظ کے بعد کافی حد تک یہ مقدمہ متنازعہ بھی ہوگیا ہے اور اب واضح طور پر سیاسی، قانونی او راشرافیہ یا اہل دانش کی سطح پر اس مقدمہ کی حمایت اور مخالفت میں رائے عامہ تقسیم ہوگئی ہے۔
دوسری جانب سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میرے اور عدلیہ کے خلاف سازش اور ایک گھناونی مہم شروع کردی گئی ہے۔ ان کے بقول عدلیہ کو ڈر اور خوف کے بجائے ان حالات کا مقابلہ کرنا اور خود میں اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ اب سوال یہ ہے کہ کس نے عدلیہ کے خلاف گھناونی مہم شروع کی ہے او رکیوں ان کا کھل کراظہار نہیں کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس کے بقول عدلیہ کہ خلاف گھناونی سازش ہورہی ہے اور فوج کے بقول ا ن کے ادارے کو بھی ٹارگٹ کرکے بدنام کیا جارہا ہے۔
یہ سوال اہم ہوگا کہ کون سی داخلی اور خارجی قوتیں ہیں جو عدلیہ اور فوج کے درمیان ٹکراو پیدا کرنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس وقت طاقت کے مراکز میں ٹکرائو کے مقابلے میں ایک دوسرے کے بارے میں زیادہ اہم اہنگی، مسائل اور چیلنجز کو سمجھنے یا ان کے نمٹنے کی حکمت عملی اور قانونی دائرہ کار میں سب کا اپنی اپنی سطح پرکام کرنا او رایک دوسرے کے لیے معاونت کا کردار ہونا چاہیے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر اس ملک میں سیاسی اور قانونی نظام کو آگے بڑھنا ہے تو اس کی کنجی ٹکراو یا محاذ آرائی میں نہیں بلکہ ایک ایسے ماحول کو پیدا کرنے سے ہیں جو ملک کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہو۔ ایک دوسرے پر اپنی حدود سے باہر نکلنے کے الزامات یا بگاڑ کا ماحول پیدا کرنا او رایک دوسرے کی رٹ کو چیلنج کرنے کی روش کسی بھی طور پر ادار وں سمیت ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ بعض اوقات ہم قانونی معاملات میں بھی سیاسی سوچ او ر فکر کو بالادست کرکے اس میں سیاست ڈھونڈکر سازشی تھیوریاں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جنرل مشرف کا معاملہ قانونی ہے او راس کو یقینی طور پر قانونی جنگ تک ہی محدود ہونا چاہیے او ریہ کام ہمیں عدالتوں پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ اس مقدمہ میں انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کرے او ریہ شفافیت کا عمل ہر سطح پر دیکھا بھی جائے تاکہ قانون او رانصاف کے تقاضے پور ے ہوں۔
یہ سمجھنا ہوگا کہ جنرل مشرف اس قانون شکنی میں تنہا نہیں تھے اور اس میں جو دیگر فریقین ہیں جو اس سارے عمل میں معاونت او رمدد گار کے طور پر موجود تھے یا عدلیہ میں وہ لوگ جنھوں نے تین برس تک جنر ل مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا یا پی سی او کے تحت حلف لیا، ان کو بھی کسی نہ کسی شکل میں قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ مگر اگر اس کے برعکس ہم نے اس مقدمہ میں سیاست کو بالادست کرنا ہے تو اس کے سیاسی سطح پر جو مضمرات پیدا ہونگے وہ سیاسی ماحول سمیت اداروں کے درمیان بھی بدمزگی کے عمل کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
ماضی میں ہمیں اپنی تاریخ میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ فوج اور عدلیہ عمومی طور پر ایک ہی پیچ پر رہے ہیں لیکن اس بار ہمیں صورتحال مختلف ہوگئی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طاقت کے تمام مراکز سے جڑے فریقین ان داخلی و خارجی عناصرکی نشاندہی کریں جو اداروں میں ٹکراو چاہتے ہیں او ران کے خلاف موثر مربوط پالیسی اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
اس وقت قوم میں کسی بھی سطح کے ایکٹوئزم سے زیادہ تدبر اور مفاہمت کی پالیسی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی اپنی سطح پر کسی بڑی مہم جوئی یا کسی ایکٹیوازم کی مدد سے ایسا ماحول پیدا نہیں کرنا چاہیے جو مکالمہ کا راستہ روکے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہمارے تمام طاقت کے مراکز نئے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مل بیٹھ کر نئے رولز آف گیمز طے کریں کہ ہمیں کیسے قانونی او رآئینی و سیاسی دائر ہ کار میں رہتے ہوئے آگے بڑھنا ہے او رجو تلخیاں یا بدااعتمادی بڑھی ہے اسے کیسے کم یا ختم کرنا ہے۔ کیونکہ یہ نکتہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ عدلیہ اور فوج دونوں اس نکتہ کی پوری شدت سے نشاندہی کررہے ہیں کہ کچھ قوتیں اداروں میں ٹکراو یا ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ مہم چلاکر انھیں بدنام کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے اس وقت ہمیں جذباتیت کے بجائے زیادہ ذمے داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔