حکمرانی کا نظام اور نئے صوبوں کی بحث
پاکستان کا بنیادی مسئلہ منصفانہ، شفاف اور جوابدہی پر مبنی حکمرانی کا نظام ہے۔ ایک ایسا نظام جو بنیادی طور پر تمام طبقات اور بالخصوص کمزور طبقوں کے مفادات کی بھرپور ترجمانی کرسکے۔ کیونکہ ہم سب مجموعی طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارا موجودہ حکمرانی کا نظام تسلسل کے ساتھ اپنی افادیت کھو بیٹھا ہے۔
لوگوں کا اعتماد حکمرانی کے نظام پر موجود نہیں اور ان کو لگتا ہے کہ حکمرانی کا یہ نظام عام آدمی کے مقابلے میں ایک مخصوص طاقت ور طبقہ کی ترجمانی کرتا ہے۔ حکمرانی کے موثر نظام کے حوالے سے دو پہلو اہم ہوسکتے ہیں۔ اول حکمرانی کے نظام کے تناظر میں ہماری سیاسی کمٹمنٹ یا سیاسی نیت کمزور ہے اور یہ ہماری بڑی ترجیحات کا حصہ نہیں۔ دوئم ہم میں ایک اچھی حکمرانی کا نظام قائم کرنے کی کوئی بڑی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے اور عدم صلاحیت کے باعث ہم معیاری حکمرانی کا نظام قائم نہیں کرسکے۔
ہمارے یہاں حکمرانی کے نظام کی شفافیت کے تناظر میں نئے صوبوں کے قیام پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ ایک عمومی رائے یہ دی جاتی ہے کہ اگر ہم نئے صوبوں کی تشکیل کے عمل کو یقینی بنالیں تو ہم حکمرانی کے نظام کو زیادہ موثر اور شفاف بناسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس ملک میں ایک بڑا طبقہ بنیادی نوعیت کی سہولتوں اور ترقی کے عمل سے محروم نظر آتا ہے۔ اس کا ایک عملی نتیجہ نہ صرف محرومی کی سیاست کی صورت میں نظر آتا ہے بلکہ یہ عمل ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان تعلقات کار کو بھی متاثر کرتا ہے اور فریقین میں ایک دوسرے کے بارے میں بداعتمادی یا خلیج پیدا ہوتی ہے۔ نئے صوبوں کا قیام کوئی انہونی بات نہیں دنیا کے بیشترممالک اپنی اپنی سیاسی اور انتظامی ضرورتوں کے تحت نئے صوبوں کے قیام یا تشکیل کے مراحل کو پورا کرتے ہیں۔
پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام پر سیاسی تقسیم موجود ہے۔ ایک طبقہ نئے صوبوں کے قیام کا مخالف تو دوسرا اس کا بڑا حمایتی نظر آتا ہے کوئی اس میں عقلی پہلو تلاش کرتے ہیں تو بہت سے لوگوں کا نکتہ نظر جذباتیت پر مبنی ہوتا ہے۔ نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے دو سطحوں پرکام کرنا ہوگا۔ اول سیاسی محاذ پر اور دوسرا قانونی محاذ پر۔ کیونکہ جب ہم سیاسی طور پر متفق ہوں اور تمام فریقین میں باہمی اتفاق موجود ہو تو اس عمل میں آگے بڑھنے کے لیے قانونی راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاں قانون سے زیادہ سیاسی طور پر تقسیم موجود ہے اورجب بھی اس ملک میں نئے صوبوں کی بات سامنے آتی ہے تو سیاسی محاذ آرائی بھی سامنے آجاتی ہے۔ ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے اسے اور زیادہ پیچھے دھکیل دیتا ہے۔
اس وقت نئے صوبوں کے قیام کے حوالے سے چار نکتہ نظر موجود ہیں۔ اول، ہمیں نئے صوبوں کی ضرورت ہے اور تمام تر مسائل کے باوجود نئے صوبوں کی تشکیل کو ممکن بنایا جائے۔ دوئم، ہمیں فی الحال نئے صوبوں کی طرف جانے کی بجائے انتظامی طور پر کچھ یونٹ بنانے ہونگے تاکہ انتظامی یونٹ کو زیادہ مضبوط بنایا جائے اور فوری طور پر نئے صوبوں کی طرف نہ بڑھا جائے جیسے جنوبی پنجاب میں انتظامی سیکریٹریٹ کا قیام۔ سوئم، اس بارے میں بھی رائے تقسیم ہے کہ نئے صوبے انتظامی بنیادوں پر بنائے جائیں یا لسانی بنیادوں پر۔ چہارم، ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ فوری طور پر صوبوں کی بجائے ضلعی سطح پر ایک مضبوط اور مربوط مقامی حکومتوں کا نظام تشکیل دے دیا جائے تو ہم نئے صوبوں کی بحث کو روک سکتے ہیں۔
پاکستان میں نئے اضلاع، نئی تحصیل، نئے ڈویژن، نئی یونین کونسلیں ہم اپنی اپنی ضرورتوں کے تحت بناتے رہتے ہیں اور نئے صوبے بھی اسی ضرورت کے تحت بنائے جا سکتے ہیں۔ لیکن پہلے یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم نئے صوبوں کا مطالبہ کیونکر کر رہے ہیں۔ یقینی طور پر اس سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے علاقے کی محرومی، پس ماندگی اور سیاسی، سماجی، انتظامی اورمعاشی ترقی کا عمل نہ صرف آگے بڑھے گا بلکہ اس سے عام آدمی کی مقامی سطح پر ترقی کا عمل ممکن ہوگا۔