Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Salman Abid
  3. Ehtesab, Tarmeem Aur Siyasi Samjhote

Ehtesab, Tarmeem Aur Siyasi Samjhote

احتساب ، ترمیم اور سیاسی سمجھوتے

پاکستان میں احتساب کا عمل ہمیشہ سے سیاسی سمجھوتوں، مصلحت پسندی، عدم شفافیت، مرضی کا احتسابی عمل رہا ہے۔ اصل مسئلہ ملک کی طاقت ور اشرافیہ ہے۔ احتسابی عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے نیب کا ادارہ بھی وہ کچھ نہیں کرسکا۔

حالیہ دنوں میں نیب کے قانون میں تیسری بار ترمیم کی گئی ہے۔ اس سے قبل چھ اکتوبر کو دوسری ترمیم کی گئی تھی او رٹھیک ایک ماہ بعد ہی ہمیں نئی ترمیم کی ضرورت کیونکر محسوس ہوئی۔ دراصل دوسری ترمیم کے بعد فوری طور پر اس پر جو سیاسی، آئینی اور قانونی حلقوں میں ردعمل سامنے آیا تھا اس کے بقول نیب کے جو دو اہم دانت تھے دونوں کو نکال کر اسے لاچار کردیا گیا تھا۔

اول ملزم کو نوے دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار جب کہ دوئم نیب عدالت کے پاس ضمانت کے اختیار کا نہ ہونا شامل تھا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ 6اکتوبر کی ترمیم پر خود نیب کے ادارے اورسربراہ کو بھی تحفظات تھے جس کا اظہار بھی کھل کر کیا گیا۔ ایک عمومی سیاسی تجزیہ ہی سامنے آیا کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں نے مل کر نیب پر سیاسی سمجھوتہ کرکے احتساب کے عمل کو کمزور کیا ہے۔ جو نئی ترامیم کی گئی ہیں ان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

نئی ترمیم میں نیب کے اس نقطہ کو تسلیم کرلیا گیا کہ ہائوسنگ سوسائٹیوں، مضاربہ، عوام کے ساتھ فراڈ، جعلی اکاونٹس او رمنی لانڈرنگ کے مقدمات نیب کو دوبارہ واپس کردیے گئے ہیں یا نیب کے ماتحت کردیے گئے ہیں۔ یہ ترمیم اس لحاظ سے عوامی مفاد میں اہم ہے کہ کیونکہ بہت سے لوگوں نے ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور دیگر منصوبوں کی بنیاد پر عوام سے بڑے پیمانے پر لوٹ مار کی تھی اور نیب کی تعریف کرنا ہوگی کہ حقیقی معنوں میں انھوں نے نہ صرف عوام کو ریلیف دیا بلکہ ان کی لوٹی ہوئی رقم بھی واپس دلوائی۔

اسی نقطہ کی بنیاد پر نیب سب سے بڑا دعویٰ کرتا تھا یا ہے کہ اس نے ماضی کے مقابلے میں سب سے زیادہ لوٹی ہوئی رقم کی ریکوری کی ہے۔ اس اختیار کادوبار نیب کو ملنا ایک لحاظ سے اہم اور اچھی ترمیم ہے جس کی حمایت ضروری ہے تاکہ لوگوں کو لوٹنے والوں کا احتساب ممکن ہوسکے۔ اس سے قبل جو ترمیم کی گئی تھی یا آرڈنینس لایا گیا تھا اس سے یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ منی لانڈرنگ کے مقدمات کو نیب کے دائرہ اختیار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔ اسی لیے نئی ترمیم کے ساتھ یہ واضح طور پر لکھ دیا گیا ہے کہ منی لانڈرنگ سے متعلق مقدمات نیب کے دائرہ اختیار میں ہی رہیں گے۔

نئی ترمیم میں سب سے زیاد ہ تنقید چیئرمین نیب کو ہٹانے کے طریقہ کار پر سامنے آئی ہے۔ نئی ترمیم کے تحت چیئرمین نیب کو ہٹانے کا اختیار عملاً صدر مملکت کو دے دیا گیا ہے۔ حکومت کے بقول چیئرمین نیب کی تقرری کا طریقہ کار تو آئین میں موجود تھا البتہ ہٹانے کا طریقہ کار موجود نہیں تھا اور اس ترمیم سے اس ابہام کو دور کیا گیا ہے۔ اس کے لیے وہی طریقہ کار رکھا گیا ہے جو سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کا موجود ہے، اس سے قبل جو ترمیم کی گئی تھی اس میں یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کو دیا گیا تھا کہ وہ چیئرمین نیب کو اسی بنیاد پر ہٹاسکتے ہیں جس بنیاد پر سپریم کورٹ کے جج کو ہٹایا جا سکتا ہے۔

تنقید یہ ہورہی ہے کہ جو اختیار صدر مملکت کو دیا گیا ہے وہ عملی طور پر وزیر اعظم کی مشاورت سے جڑا ہوگا اور چیئرمین نیب کوئی ایسا اقدام نہیں کرے گا جو وزیر اعظم کی خواہش کے برعکس ہو۔ تنقید یہ بھی سامنے آئی ہے کہ اس نئی ترمیم سے چیئرمین نیب کی آزادی محدود ہوگی اور وہ حکومتی یا وزیر اعظم کے کنٹرول میں زیادہ ہوگا۔ جبکہ معروف قانون دان و سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کے بقول آئین کی شق48/2کو دیکھیں تو اس میں کہیں نہیں لکھا کہ جو کام صد مملکت نے کرنے ہیں ان میں صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس یا مشاورت کا پابند نہیں۔

اسی طرح اگر سپریم جوڈیشل کونسل کو یہ اختیار دینا ہے تو پھر اس میں آئینی ترمیم درکار ہے او رویسے بھی یہ اس کا اختیار ہی نہیں کہ وہ نیب کے سربراہ کا احتساب کرے کیونکہ اس کا دائرہ کار اپنے ادارے کی جوابدہی کا پابند ہے، اس لیے حزب اختلاف کی تنقید سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک مسئلہ حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے نئی ترمیم پر تنقید کی صور ت میں سامنے آیا ہے۔

حزب اختلاف کے بقول ان کو اس نئی ترمیم کی مدد سے سیاسی انتقام یا سیاسی دیوار سے لگایا جائے گا اور حکومت نے اس ترمیم سے خود کو این آر او دیا ہے۔ اصل میں جس نقطہ پر سب سے زیادہ واویلا حزب اختلاف کی جانب سے مچایا جارہا ہے وہ 6اکتوبر سے پہلے کے تمام مقدمات نیب کے دائرہ اختیار میں رہیں گے جو عملی طور پر حزب اختلاف کو کوئی ریلیف دینے کے بجائے ان پر مقدمات کی تلوار کو لٹکاتا رہے گا۔ حزب اختلاف کا خیال تھا کہ دوسری ترمیم سے ہم بچ گئے ہیں مگر نئی تیسری ترمیم نے دوبارہ ان کو قانونی شکنجوں میں جکڑ دیا ہے۔

بالخصوص شہباز شریف پر جو منی لانڈرنگ کی تلوار لٹک رہی ہے اسے وہ نئی ترمیم میں دوبارہ اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہے ہیں اور ان کی شدید تنقید کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے۔

حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ ہمیں تو نیب کے سامنے کھڑ ا کردیا گیا ہے جب کہ چھ اکتوبر کے بعد کے مقدمات سے نیب کو باہر نکالنے کا مقصد حکومت کا خود کو این آر او دینا ہے۔ کیونکہ حکومت نے تیسری ترمیم کی مدد سے چھ اکتوبر کے بعد کے اقدامات پر نیب کے دائرہ کار کو محدود کرکے ایف بی آر اور ایف آئی کے کردار کو شامل کردیا گیا ہے تاکہ آج کی حکومت میں شامل لوگ مستقبل میں نیب سے محفوظ رکھ سکیں گے جن میں گندم، ایل این جی، پشاور میٹرو، مالم جبہ جیسے منصوبے شامل ہیں۔

بنیادی طور پر ترامیم کی سیاست کے تناظر میں اہم بات یہ ہے کہ کیا پاکستان میں شفاف اور بے لاگ احتساب کا عمل آگے بڑھ سکے گا اور کیا حکومتیں اس اہم مسئلہ پر سمجھوتوں کی سیاست سے باہر نکل سکیں گی؟ کیونکہ بنیادی مسئلہ ملک کا منصفانہ اور شفاف احتساب کا عمل ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس ملک کے طاقت ور طبقات چاہے وہ حکومت یا حزب اختلاف سے ہوں یا مختلف شعبوں سے سب ہی اس ملک میں کسی بھی قسم کا احتساب نہیں چاہتے۔

Check Also

Kahani Aik Dadi Ki

By Khateeb Ahmad