آصف زرداری کا ٹکراؤ کی سیاست سے گریز
پیپلز پارٹی میں آج بھی بلاول بھٹو کے مقابلے میں اصل سیاسی طاقت آصف زرداری کے ہی پاس ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی میں بڑے سیاسی فیصلے آصف زرداری ہی کرتے ہیں۔
آصف زرداری کو عملی طور پر پاکستانی سیاست میں طاقت کے کھیل کو سمجھنے میں ایک بڑے بادشاہ گر کی حیثیت حاصل ہے۔ کیونکہ ان کے بارے میں تمام سیاسی پنڈت اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اقتدار کے کھیل میں اپنے سیاسی کارڈ کھیلنے کا فن جانتے ہیں۔ آصف زرداری کسی نظریاتی سیاست کے مقابلے میں عملی سیاست کے قائل ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی فیصلوں میں جذباتیت کے بجائے عملیت پسندی کو ہی بنیاد بنا کر اپنے سیاسی کارڈ کھیلنے چاہیے۔
پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں آصف زرداری کی سیاسی تقریر، استعفوں کی سیاست سے لاتعلقی، نواز شریف سے تحریک کی بنیاد پر ملک میں واپس آنے کا مطالبہ، پہاڑوں کے بجائے پارلیمنٹ میں جنگ کرنے کا مشورہ، پی ڈی ایم ایسے فیصلوں سے گریز کرے جو ہمیں سیاسی راہیں جدا کرنے پر مجبور کرے، استعفوں کا براہ راست فائدہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دینے سمیت نواز شریف کی سیاست پر طعنہ زنی کوئی غیر متوقع نہیں تھا۔
سیاست کی سمجھ بوجھ رکھنے والے بہت پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ پیپلز پارٹی اور بالخصوص آصف علی زرداری کی سیاسی سوچ یا حکمت عملی نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی سیاست سے مختلف ہوگی۔ اس کی ایک بڑی وجہ پیپلزپارٹی اقتدار کے کھیل میں شریک ہے اور سندھ میں اس کی مضبوط حکمرانی ہے۔
آصف زرداری کو اندازہ ہے کہ اگر وفاقی حکومت کو گھر بھیجا گیا تو اس صورت میں ان کی اپنی سندھ حکومت کی بھی سیاسی قربانی دینی ہوگی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ تواتر کے ساتھ پی ڈی ایم میں اپنی سیاسی جدوجہد کو تین بنیادوں پر لڑنے کی بات زور دے کر کرتے رہے ہیں۔ اول استعفوں کی سیاست، دوئم اسٹیبلیشمنٹ سے براہ راست ٹکراؤ اور سوئم پارلیمنٹ کو چھوڑ کر سڑکوں پر تحریک چلانے یا سخت گیر لانگ مارچ کرنے سے گریز کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
آصف زرداری سمجھتے ہیں کہ بلاوجہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی سیاست سے گریز کرکے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی حکمت عملی سے خود کو دور رکھا جائے۔ آصف زرداری کو اس بات پر بھی گلہ تھا کہ نواز شریف بلاوجہ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کررہے ہیں اوراس کا مقصد دباؤ ڈال کر مرضی کے نتائج لینے ہیں۔ آصف زرداری کو اندازہ تھا کہ اس ماحول میں اگر ہم نواز شریف کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں تو اس کی قیمت طاقت کے مراکز میں ہمیں بھی چکانی ہوگی جو ہمارے مفاد میں نہیں ہوگی۔
آصف زرداری کی حالیہ پی ڈی ایم میں کی جانے والی تقریر سے انھوں نے کمال ہوشیاری سے اپنے سیاسی کارڈ کھیل کو اسٹیبلیشمنٹ کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ نہ صرف ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کی سیاسی سوچ اور ٹکراؤ پر مبنی حکمت عملی سے وہ سیاسی فاصلے پر ہیں۔ آصف زرداری اس نکتے کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ نواز شریف یا مولانا فضل الرحمن یا پوری پی ڈی ایم کی لڑائی کوئی جمہوری جدوجہد کی نہیں بلکہ طاقت کے مراکزمیں اپنی سیاسی حیثیت کو منوانے یا طاقت کے مراکز سے کچھ لو اورکچھ دو پر مبنی ہے۔
آصف زرداری نے پی ڈی ایم کے سیاسی مستقبل اور اس میں پیپلز پارٹی کی موجودگی کو اپنے سیاسی کارڈ شو کرکے گیند نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی کورٹ میں ڈال دی ہے۔ یعنی اب فیصلہ پی ڈی ایم کی دیگر قیادت جس میں بالخصوص نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے کرنا ہے کہ وہ آصف زرداری کے سیاسی ایجنڈے کو بنیاد بنا کر پی ڈی ایم کی سیاست کو آگے بڑھائیں یا پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم سے بے دخل کرکے سولو فلائٹ کی جائے۔ پی ڈی ایم کی مشکل یہ ہے کہ اگر پیپلزپارٹی کو باہر نکال کر آگے بڑھا جائے تو ان کی بڑی سیاسی طاقت کمزور ہوگی۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے بغیر پی ڈی ایم کو زیادہ نقصان اور فائدہ براہ راست حکومتی جماعت کو ہوگا۔
آصف زرداری نے عملی طور پر پی ڈی ایم کو سیاسی وینٹی لیٹر پر ڈال کر نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو ایک بڑی سیاسی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کو موجودہ صورتحال میں ساتھ رکھنے یا پیپلز پارٹی سے سیاسی جان چھڑانے کی دونوں صورتوں میں ان کو بڑے سیاسی نقصان کا سامنا ہوگا۔
آصف زرداری نے خود اپنی سیاست سے حکومت کے اندر بھی ایک سافٹ پیغام دیا ہے کہ ہم اس نظام کو چلانا چاہتے ہیں اور اگر حکومت بھی ہمارے ساتھ تعاون کے امکانات کو پیدا کرے تو ہم اس عمل میں حکومت کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ یہ پیغام آصف علی زرداری نے 2018میں تحریک انصاف کی حکومت بنتے ہی پارلیمنٹ میں حکومت کو دیا تھا کہ آپ مثبت انداز میں آگے بڑھیں ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان کی سیاسی مہم جوئی اور پیپلزپارٹی کے بارے میں سخت گیر پالیسی کی وجہ سے تعاون کے امکانات مخدوش ہوئے۔
آصف زرداری کی واضح سیاسی حکمت عملی کے بعد اب اس کے امکانات کافی بڑھ گئے ہیں کہ ہمیں ایک بار پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سرد جنگ، سیاسی تلخیاں یا الزام تراشیوں کی سیاست دیکھنے کو ملے۔ مسلم لیگ ن کے ہم خیال میڈیا سے جڑے افراد نے پیپلز پارٹی کی موجودہ سیاسی حکمت عملی اور آصف زرداری کی کڑوی تقریر کو اسٹیبلیشمنٹ کی حمایت سے جوڑا ہے۔
ان کے بقول جو کچھ بھی آصف زرداری نے کیا ہے اس کے پیچھے اسٹیبلیشمنٹ سے قربت حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ یعنی اب پی ٹی آئی کے بعد پیپلز پارٹی کو بھی پی ڈی ایم کی جانب سے اسٹیبلیشمنٹ کی بی ٹیم کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ آصف زرداری نے جو کچھ کیا ہے وہ طاقت کی سیاست میں ہوتا ہے۔ کوئی بھی جماعت ہو وہ اپنے سیاسی مفاد کو پس پشت ڈال کر نہیں کھیلتی۔
آصف زرداری کی تقریر کے بعد لانگ مارچ ملتوی کرنے کا فیصلہ بھی ان کی بہت سے داخلی کمزوریوں کو نمایاں کرتا ہے۔ اب لانگ مارچ بہت جلد ممکن نہیں اور لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پی ڈی ایم میں بداعتمادی کا ماحول پیدا ہوگا۔ کچھ لوگ پیپلزپارٹی پر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کا سیاسی طعنہ دے رہے ہیں، لیکن یہ طعنہ محض زرداری پر ہی کیوں۔ عملی طور پرسب ہی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے وہ سب کچھ کررہی ہیں جس کی وہ نفی کرتی ہیں۔
یہ بات تواتر سے پیش کی جارہی تھی کہ پی ڈی ایم کی تحریک جمہوری جدوجہد کی تحریک نہیں بلکہ ہر جماعت جو اس اتحاد کا حصہ ہے عملی طور پر وہ "جمہوریت یا بیانیہ کی جنگ" کو سیاسی ہتھیار بنا کر اپنے اپنے مفادات کی سیاست کر رہی ہیں۔ ویسے بھی پیپلزپارٹی یا آصف زرداری کو ماضی یا حال کی سیاست میں مسلم لیگ ن کے ساتھ اعتماد کی سیاست میں کافی سیاسی دھچکے لگے ہیں اوراسی بنیاد پر آصف زرداری بہت آگے جاکر نواز شریف کی سیاست پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔