سید منور حسن
میں یہ کالم نہیں لکھ پائوں گا، مگر مجھے لکھنا ہے، ہر صورت لکھنا ہے۔ زندگی میں یہ دن بھی آنا تھا کہ اپنے منور صاحب کی رحلت پر کالم لکھنا پڑ رہا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ مرا ان کا ذاتی تعلق تھا اور بہت گہرا تھا۔ تحریک اسلامی کی تاریخ میں انہیں ایک غیر معمولی حیثیت حاصل رہے گی۔ انہوں نے اپنی امارت کے دوران ایسے سوال اٹھا دیے جن کے جواب اسلامیان پاکستان ہی نہیں پورے عالم اسلام کے سر ہے۔ اپنے بھی ناراض ہوئے۔ سیاست مصلحت کیش ہوتی ہے۔ کہنے والے یہ بھی کہتے تھے کہ انہوں نے درست بات غلط وقت پر کہہ دی ہے۔ یہ شاید ہماری تاریخ کا واحد واقعہ ہے کہ افواج پاکستان کے ترجمان نے کہا کہ جماعت اسلامی اپنا امیر تبدیل کرے۔ لیکن دل لگتی کہیے کہ کیا افغان جنگ سے پیدا ہونے والی صورت حال پر ہم آج بھی نئی نئی تاویلیں نہیں کر رہے وہ ایک سچے اور کھرے آدمی تھے میں نے اس خضوع و خشوع سے عبادت کرتے نماز پڑھتے کم بزرگوں کو دیکھا ہے۔ ایک بار عرض کیا تھا کہ فطرت نے ان کی تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ سید مودودی کے چہیتے تھے اس علمی مسند پر بیٹھے جسے پروفیسر خورشید احمد چھوڑ کر گئے تھے۔ فکری اور ذہنی تربیت اس طرح حاصل کی اور برسوں پروفیسر غفور احمد کے جو سابق کے طور پر کام کیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے۔ جمعیت میں ڈاکٹر اسرار، پروفیسر خورشید اور جانے کون کون اس منصب پر فائز رہے۔ مگر جمعیت جیسے ان کے زمانے میں منظم ہوئی اس کی مثال نہیں، انہیں جمعیت کا بانی ثانی بھی کہا جا سکتا ہے۔ بہترین تربیت ہوئی ان کی پھر وہ منصورہ آ گئے، برسوں وقت ان کی پرورش کرتا رہا، پھر انہیں امارات ملی تو وہ اپنی صحت کی وجہ سے اس کے لئے تیار نہ تھے۔ ساتھی سمجھے وہ انکساردکھا رہے ہیں۔ میں نے ان کے ساتھ بلا مبالغہ دن رات گزارے ہیں۔ کراچی گیا تو سب سے پہلے ان سے رابطہ کیا۔ ان دنوں موبائل تو ہوتا نہ تھا۔ گھر میں فون لگوانا بھی ممکن نہ تھا۔ ان کا دفتر گویا مرا دفتر بن گیا۔ سب دوست احباب کو علم تھا۔ وہ دس فون کرتے۔ کسی سے ملناہوتا۔ وہیں بلوا لیتا۔ لائبریری میں وقت گزارتا، رابطے کرتا اور منور صاحب سے ملنے آنے والوں کے ساتھ بھی گپ شپ رہتی۔ ظہر کی نماز اکٹھے ادا کرتے۔ ڈیڑھ بجے اٹھ گئے تو ایک مسجد، وگرنہ پونے دو بجے دوسری مسجد۔ کوئی نہ کوئی اکیڈمی میں آیا ہوتا اور ٹھہرا ہوتا۔ زاہد بخاری، سلیم منصور خالد۔ میں نے ہمیشہ یہ دیکھا کہ منور صاحب دوپہر کا کھانا نہ کھاتے تھے۔ ہم باقی لوگ قریب ہی کسی کیفے چلے جاتے۔ ہمارا ایک من بھاتا کھانا ہوتاکڑاہی گریبی۔ اچھے دن تھے۔ منور صاحب کو جانا ہوتا تو مرے موٹر سائیکل پر بیٹھ جاتے۔ میں نے ان کی معیت میں پوری کراچی کی خاک چھانی۔ الیکشن کے دن راتوں کو بھی ایسے ہی نکل جاتے۔ کہتے تھے تم تو کراچی کے گلی گلی محلے محلے سے واقف ہو گئے ہو۔ مرے کئی سال اسی طرح گزر گئے۔ میں کہا کرتا تھا کہ کراچی میں مجھے اگر پیسوں کی ضرورت ہوتی تو یا عدنان غنی یا منور حسن ہوتے۔ یہ پیسے عموماً کسی کے لئے چاہیے ہوتے۔ ان کے پاس دنیا بھر کے لوگوں کی امانتیں ہوتیں۔ وہ اس شرط پر رکھتے کہ وہ اسے جب چاہیں جہاں چاہیں خرچ کر لیں گے۔ مگر جب ضرورت پڑے گی تو پیسے موجود ہوں گے۔ اسی لئے ڈسپلن کے بڑے پابند تھے۔ جس تاریخ کا وعدہ ہے۔ اس سے ایک دن بھی آگے پیچھے نہیں ہونا چاہیے۔ جب مری شادی ہوئی تو میں نے نکاح کے لئے دو گواہوں کے نام دیے ایک مشہور شاعر شہزاد احمد جو مرے ساتھ ہی ان دنوں رہتے تھے اور دوسرے منور حسن۔ مجھے کراچی میں اپنے یہی دو ذاتی بزرگ نظر آئے۔
میں نے جماعت کے لوگوں کو صرف سید مودودی کے ساتھ مرشد کا لفظ استعمال کرتے دیکھا ہے۔ ادھر کچھ دنوں سے میں نے اکثر جگہ منور حسن کے ساتھ بھی مرشد کا استعمال دیکھا ہے۔ لوگ بڑے پیار سے انہیں مرشد منور حسن لکھتے۔ وہ بڑے ہی وضعدار آدمی تھے۔ دہلی کی وضعداری ان کے مزاج میں تھی۔ شروع میں وہ این ایف ایف میں تھے۔ اس زمانے میں ایک غوری صاحب تھے جس کی سائیکل پر بیٹھ کر نفیس صدیقی اور منور حسن میلوں کا سفر طے کرتے۔ نظریات بدل گئے حالات بدل گئے مگر ان لوگوں سے ہمیشہ رابطہ رہا۔ ایک چھوٹا گھر تھا۔ جب شادی کے بعد علیحدہ گھر کی ضرورت پڑی تو تلاش شروع کی۔ نعمت اللہ خاں کے بہت بڑے مکان کے اوپر ایک کمرہ تھا۔ اس کے ساتھ کچن اور ٹائلٹ بھی ہو گا۔ بس وہیں برسوں ان کا ٹھکانہ رہا۔ ایسی سادگی۔ ایسی فقیری اور ایسی بے نیازی۔ ساتھ ہی عبادات کا ایسا اہتمام کہ شاید کوئی ولی اللہ ہی کر سکے۔ اس کے ساتھ جماعت اور سیاست کے سارے بکھیڑے وہ دن بھر، اسی معمول کے ساتھ اپنے کام میں مگن رہے۔ اہلیہ عائشہ منور بھی خواتین جماعت کی ذمہ داریوں میں لگی رہیں۔ انہوں نے کوئی اپنا بزنس یا کاروبار نہیں بنایا حالانکہ وہ سینکڑوں لوگوں کو اپنے پائوں پر کھڑے ہونے میں مدد کرتے تھے۔ مجھے آج یہ اعتراف کرنے دیجیے کہ جب ہم نے زندگی سے الگ ہو کر اپنا پرچہ نکالا جس کی سربراہی شامی صاحب کے سپرد تھی تو منور صاحب نے مدد کی اور جب میں نے سب دوستوں کے ساتھ الگ ہو کر تعبیر کا اجرا کیا تو مری پشت پر اصل قوت منور صاحب تھے۔ اس بات کو آج تک صیغہ راز میں بوجوہ رکھا ہوا تھا، آج بیان کر رہا ہوں مرے ساتھ جیسے انہوں نے دربدر کی ٹھوکریں کھائیں میں ہی جانتا ہوں۔ مگر وہ تو بعد کی بات ہے۔
یہ تو ذاتی باتیں ہوئیں مگر جب فکری معاملات پر اختلاف کی وجہ سے بہت سے لوگ الگ ہو گئے تو بقول مرحوم حسن صہیب مراد ایک میں ہی رہ گیا تھا جو کھلم کھلا ساتھ دیتا رہا۔ آج بھی میں یہ کہتا ہوں کہ انہوں نے جو سوال اٹھایا تھا وہ پاکستان ہی کے سر کا بوجھ نہیں، پوری ملت اسلامیہ کے ضمیر کی خلش بھی ہے۔ عالم اسلام کو اس کا جواب دینا ہو گا۔ اکثر اوقات ایسا تو ہوا ہے کہ ذاتی طور پر ان کے پاس جا کر اپنے اختلاف کا اظہار کیا، مگر ان کی اصولی رائے پر کھلم کھلا اختلاف کرنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ اب سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ شاید گنجائش نہ ہوتی تھی۔
آخری دنوں میں کراچی کی جماعت نے ان کا بڑا خیال رکھا ہے۔ وہ باقاعدگی سے اسلامک ریسرچ اکیڈمی آتے۔ کچھ دیر بیٹھتے، کام کرتے، پھر چلے جاتے، میں کراچی گیا، کوئی دو سال پہے مجھے بیماری کی نوعیت کا اندازہ نہ تھا۔ فون کیا کہنے لگے کل اکیڈمی اتنے بجے آ جائو۔ پہنچا تو معلوم ہوا وہ ابھی گئے ہیں۔ ایسا کبھی ہوا نہ تھا۔ فون کیا، نام تو بتانے کی ضرورت محسوس نہ کی تھی۔ کہنے لگے۔ اب کل آ جانا۔ اگلے دن کیا تو کہنے لگے۔ تم نے فون کیا تھا؟ تب مجھے اندازہ ہوا۔ ہنس کر کہنے لگے تم مسٹر پارکنسن سے مخاطب ہو۔ پھر تفصیل سے بتایا کہ کیا کیا مشکلات انہیں عام زندگی میں درپیش ہیں۔ ایک تو کپڑے بدلنے میں دقت ہے اور دوسرے کھڑے کھڑے اچانک گر جاتا ہوں۔ پھر بھی دروازے تک چھوڑنے آئے۔ دو افراد چپکے سے ساتھ چل دیے۔ میں نے بہت کہا مگر وہ رکے نہیں۔ اس دن میں بہت اداس تھا۔ مجھے لگا کہمیں اپنا ایک دوست اور تحریک اسلامی اپنا ایک قائد کھو رہی ہے۔ کراچی میں وہ اجتماعات میں بھی شریک ہوتے۔ اکیڈمی میں ایک دن ان کی نشست کے لئے مخصوص تھا جہاں احباب اکٹھے ہو کر سوال جواب کرتے۔
پھر میں نے دیکھا وہ لاہور بھی آ جا رہے ہیں۔ دوسرے شہروں کے دورے بھی کرتے، کراچی کے اجتماعات میں شریک ہوتے میں نے پوچھا یہ کیسے کرتے ہیں، کہنے لگے کوئی ساتھ ہوتا ہے۔ آخری وقت پر بھی۔ اللہ اسے اجر دے۔ سرفراز بچوں کی طرح ان کے ساتھ ساتھ رہا۔ وہ بہت مطمئن اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے ہوں گے۔ مگر ہمیں اداس چھوڑ گئے۔ وہ بہت کچھ کر سکتے تھے۔ حالات نے کرنے نہ دیا۔ وہ جس حلقے میں پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ووٹ لے کر 77ء میں کامیاب ہوئے تھے 85ء میں وہیں سے ہروا دیے گئے۔ 77ء میں ان کی کامیابی جمیل الدین عالی کے مقابلے میں تھی۔ یہ بھی کیا الیکشن تھا یہ بھی کیا زمانہ تھا جب حسین حقانی منور صاحب کے انتخابی جلسے میں تقریریں کرنے کے لئے نکلا کرتا تھااور جاتے ہوئے مری طرف ہو کر جایا کرتا تھا۔ عالی کہتے تھے اس کو یہ ساری باتیں بتاتا کون ہے۔ منور حسن اسمبلی نہ پہنچ سکے۔ سینیٹر نہ بنائے جا سکے کیونکہ کراچی سے جماعت کو اب ایک نہیں دو افراد کو بھیجنا پڑتا تھا، پروفیسر خورشید کے ساتھ پروفیسر غفور احمد کو بھی ملک کی سیاست بدل گئی تھی اور یہ قوم اپنے بہترین ذہنوں سے فائدہ نہ اٹھا سکی۔
مجھے اتنا کچھ یاد آ رہا ہے کہ لکھتا جائوں تو ہزاروں صفحے سیاہ کر دوں۔ تاریخ اب کئی سوالات کے جوابات تلاش کرتی رہے گی جو منور حسن ان کے لئے چھوڑ گئے ہیں۔ ایک درویش صفت مجاہد ہم سے رخصت ہو گیا جس کی فقیری اور پارسائی کی آسمانوں پر ملائکہ بھی قسم کھا رہے ہوں گے۔ یقینا ایسا ہی ہو گا اور مرا رب ان سے کہہ رہا ہو گا تمہاری گواہی کی کیا ضرورت ہے۔ وہ تو خود اپنی گواہی تھا۔