چلتے ہو تو چین کو چلئے
یہ عجیب اتفاق ہے کہ نواز شریف کا جانا اور موجودہ حکومت کا آنا پاکستان میں سی پیک کی رخصتی اور آئی ایم ایف کی آمد پر منتج ہوا۔ اسے کوئی سازش نہ سمجھا جائے تو بھی یہ پالیسی میں ایک واضح تبدیلی کا اشارہ کرتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سی ناگفتی باتیں بھی کی جا سکتی ہیں، تاہم پاکستانی وزیر اعظم کا حالیہ دورہ چین اس پس منظر میں بہت اہم ہے۔ اس وقت پاکستان جس مشکل اقتصادی صورت حال میں پھنس گیا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ہم نے جو اپنا حالیہ سکیورٹی پلان نشر کیا ہے، اس کی بنیاد اس اصول پر رکھی ہے کہ پاکستان کی سلامتی کی کلید ہماری معیشت میں ہے۔
حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ خدا نے سی پیک کی صورت میں ہمیں جو موقع عطا کیا تھا اس سے ہم نے تیزی سے اپنے مواصلات اور توانائی کے بنیادی مسائل حل کر لئے تھے اور اب ٹیک آف کی پوزیشن میں تھے۔ اب حال یہ ہے کہ چین سے گزشتہ حکومت کے دور میں ایم ایل ون کا جو معاہدہ ہو رہا تھا اور جس کے تحت دو سال کے اندر اندر ہی چین کی مدد سے پشاور سے کراچی تک ہم نے ریل کا جدید تیز رفتار ٹریک بچھانا تھا، وہ اب تک شروع نہیں ہو سکا۔
شیخ رشید بھی اپنے دور وزارت میں بڑی شان سے بتایا کرتے تھے کہ وہ یہ منصوبہ شروع کر کے پاکستان کے مواصلاتی نظام میں ایک انقلاب لانے والے ہیں۔ یہ منصوبہ اب تک شروع نہیں ہو سکا۔ ہم نے آئی ایم ایف سے معاہدہ جو کر لیا ہے کہ ہم اس قدر بڑا قرضہ بالکل نہیں لیں گے۔ چین کے بنکوں نے یہ قرضہ منظور کر رکھا ہے مگر ہم اسے شروع نہیں کر پا رہے۔ آئی ایم ایف کی ہم پر عنائتوں میں سے ایک یہ عنایت بھی ہے۔
دوسری طرف ہم نے نہ صرف چینی سرمایہ کاری اور چینی منصوبوں کے خلاف ایک طرح کی باقاعدہ مہم شروع کر دی تھی بلکہ یہ تک کہا ہے کہ ان چینی کمپنیوں کے قرضوں کی واپس روک رکھی ہے جنہوں نے ہمارے پاور کے منصوبوں اور لاہور کی گرین لائن میں سرمایہ کاری کی تھی۔ اس وقت چینی سفارت کار یہی کہتے ہیں کہ ہم اپنے لوگوں کو کیسے قائل کریں۔ آپ نے تو ہمارے پرانے پیسے ہی روک رکھے ہیں۔ یہ تو چین کی مہربانی ہے کہ وہ اس پر شور نہیں مچا رہا ہے۔
ہماری موجودہ انتظامیہ کو (میں حکومت نہیں کہتا) یہ اندازہ ہو گیا ہے کہ چین سے کٹ کر ہم مشکل میں پھنس گئے ہیں، اس لئے ہم نے سی پیک اتھارٹی میں تبدیلیاں بھی کیں اور اس بات کی کوشش بھی کی کہ چین سے ہمارے تعلقات دوبارہ پہلے کی طرح نہ سہی تو بھی کم از کم بہتر ہو جائیں۔ چین نے ایک اچھے دوست کی طرح پھر بھی ہمارا ساتھ دیا۔ ہمارے برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے جب ہم سے اچانک اپنے ڈالر واپس مانگ لئے تو چین مدد کو آیا۔ ہم نے اس سے لے کر قرض ادا کیا۔ چھوٹے موٹے پروگرام اب بھی جاری ہیں۔ ہم نے البتہ کوئی ورکنگ پیپر بنایا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہم ستمبر تک قدرے دبائو سے نکل آئیں گے اور ہمارے ہاں سرمایہ کاری کے مواقع ہوں گے۔ ایسے میں چین آگے آئے۔ ایسے میں ہمارے تحفظات ہیں۔
ہمارے وزیر اعظم کا یہ ان تین برسوں میں دوسرا دورہ چین ہو گا۔ پہلے دورے کے تو خیر جو اثرات ہوئے تھے اس سے صرف نظر کر کے ہم آئی ایم ایف کی گود میں چلے گئے۔ اب سرمائی اولمپکس کے نام پر ہمیں موقع ملا ہے کہ ہماری اعلیٰ قیادت چین کا دورہ کرے۔ چین اب تک یہ کہتا رہا ہے کہ کورونا کی وجہ سے نہ ہم کہیں جاتے ہیں نہ کسی کو بلاتے ہیں۔ اب جو موقع ملا ہے تو ہم اس کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔
ہماری خواہش ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کی ملاقات چین کے صدر شی سے ہو جائے۔ اب تک کی صورت حال یہ ہے کہ کوئی امید برنہیں آتی۔ وہ کہتے ہیں سب سربراہوں کی جو مشترکہ ملاقات صدر شی سے ہو گی، اس میں آپ کے وزیر اعظم بھی شامل ہوں گے۔ بس اسے ہی غنیمت سمجھیں۔ ابھی تک بات بن نہیں پا رہی۔ سب جانتے ہیں کہ چینی صدر اور وزیر اعظم میں کتنا فرق ہے اور یہ کہ موجودہ صدر شی کی چین کی تاریخ میں نئی اہمیت ہے۔ مائوزے تنگ کے بعد ڈینک یاژانگ ینگ نے چین کی سمت موڑی اور ایک انقلابی قائد قرار پائے۔ بعض لوگ موجودہ صدر کو ان سے بھی زیادہ اہم سمجھتے ہیں۔
ماضی میں یہ صدر شی ہی تھے جن کے دورے کے وقت اسلام آباد میں ہمارے وزیر اعظم دھرنا دیے ہوئے تھے۔ یہ دورہ ملتوی ہوا تھا مگر صدر شی پھر بھی پاکستان آئے یعنی اس دھرنے کے بعد اور سی پیک کا گویا باقاعدہ آغاز ہوا اگرچہ اس کا اعلان پہلے ہی ہو چکا تھا۔ نوازشریف کے آخری دورہ چین میں سرکاری عشائیے میں چین نے پاکستان کو اتنی اہمیت دی کہ میز پر ان کے ایک طرف وزیر اعظم نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز تھیں تو دوسری طرف ترکی کے صدر اردوان اور ان کی اہلیہ، بعض لوگوں نے اس وقت ہی نواز شریف سے کہا تھا کہ یہ پذیرائی مغرب کو ہضم نہیں ہو گی۔ بعد کے واقعات اس خدشے کی تصدیق کرتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ برف پگھل جائے یا کم از کم ہمیں عقل آ جائے۔ چین نے تو پھر بھی ہمارا ہاتھ تھاما ہوا ہے یہ الگ بات کہ وہ پکڑ کر آپ کو پہاڑ کی بلندیوں کی طرف لے جانے میں اتنا مشتاق نہیں ہے۔ اگر ہماری سلامتی کی بنیاد معیشت پر ہے تو بھی ہمارا سٹریٹجک پارٹنر اس وقت چین ہی ہے۔ خاص کر جب امریکہ اعلان کر چکا ہے کہ خطے میں اس کا سٹریٹجک پارٹنر انڈیا ہے اور وہ پاکستان کو افغانستان کے تناظر میں دیکھنا ہے۔ اب تو ہمارے سکیورٹی کے کرتا دھرتا بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم امریکہ کے لئے اہم نہیں رہے۔
یاد رکھیے یہ اہمیت ہمیشہ بنانا پڑتی ہے۔ یہی ہماری سفارت کاری کا امتحان ہو گا کہ ہم چین کے ہم قدم چلتے ہوئے کس طرح امریکہ اور مغربی بلاک سے تعلقات رکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم غور کریں تو افغانستان ہی سہی یا کوئی اور وجہ امریکہ اور مغرب ہمیں نظرانداز نہیں کر سکتا۔ رہی ہماری سکیورٹی تو اب اس کا بھی بڑا انحصار چین سے دوستی مضبوط کرنے میں ہے۔ یہ جو ہمارا سکیورٹی پلان آیا ہے، اس میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جن پر غور کرنا ضروری ہے۔
ایک پاکستان کی حیثیت سے مرے بہت سی تحفظات ہیں۔ اللہ کرے ہم چین سے کامیاب لوٹیں یا کم از کم فاصلے کچھ کم ہوں۔ یہ بہت ہی ضروری ہے۔ ہماری سلامتی کے لئے بھی اور معیشت کے لئے بھی۔