اخوت کا ماڈل
میں ہمیشہ ان کا مداح رہا ہوں۔ کل شہر سے باہر ان کے اخوت کالج میں جا کر تو بھی ان کی خوبیوں کا معترف ہوا۔ میں ڈاکٹر امجد ثاقب کے کام کی صرف اس لیے تعریف نہیں کرتا کہ وہ ان انتہائی دیانتداری کے ساتھ خدمت کا کام کر رہے ہیں بلکہ اس لیے خاص طور پر ان کا معتقد ہوں کہ انہوں نے دنیا میں خدمت کے ایک نئے تصور کو جنم دیا ہے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو خدمت کا کام کرتے دیکھتا ہوں اور اس کی داد بھی دی ہے۔ عبدالستار ایدھی کو ایک چھوٹے سے ہٹی نما دفتر سے اٹھ کر پورے ملک بلکہ دنیا پر چھائے دیکھا ہے۔ نعمت اللہ خان کو ایک سیاسی جماعت کے خدمت خلق کے ادارے کی بنیاد رکھتے پرکھا ہے۔ بہت سے لوگ ہیں مگر امجد ثاقب کی بات یہ ہے کہ وہ ایک نئے تصور کے صورت گر ہیں۔ ابھی عرض کئے دیتا ہوں کہ میری مراد کیا ہے۔
ایک بار میں نے ان سے اپنے سفر اخوت کی داستان سنی۔ انہوں نے ایسے افراد کا ذکر بھی کیا جن کا میں بیک وقت مداح بھی ہوں اور ناقد بھی۔ مثال کے طور پر انہوں نے اختر حمید خان اور ادیب الحسن رضوی کا ذکر کیا۔ موخرالذکر نے تو مجھے کئی سبق دکھائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیکل کی دنیا میں ڈاکٹر رضوی کا ماڈل بے مثال ہے جس کے سامنے دوسرے سارے ماڈل ہیچ ہیں۔ انہوں نے جس طرح سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹ (siut) کی بنیاد رکھی اور چلایا اس کی کوئی مثال نہیں۔ وہ آنے والے مریض سے نہیں پوچھتے تیری آمدن کیا ہے۔ گردوں کے علاج میں کوئی وہاں رجسٹر ہوگیا تو پھر ڈائلسس سے لے کر ٹرانسپلانٹ پر کوئی اخراجات اپنی جیب سے ادا نہیں کرے گا۔ ہاں کوئی اہل ثروت ہے اور اس کی خواہش ہے تو ادارے کی خدمت کروں اور لوگوں نے کروڑوں روپے سے خدمت کی۔ وہ کہتے ہیں میں کون ہوتا ہوں یہ طے کرنے والا کہ کوئی اخراجات برداشت کرنے کا متحمل ہو سکتا ہے یا نہیں۔ پھر ان کے ہاں یہ نہیں دیکھے کہ مرض کس درجے میں ہے۔ سنا ہے انڈس ہسپتال اب اس ماڈل سے متاثر ہو کر ملک بھر میں ہیلتھ سروس قائم کر رہا ہے۔
ان کے دوسرے ممدوح اختر حمید خان ہیں جن کے بارے میں خاص کر میں نے اوپر یہ فقرہ لکھا کہ بعض لوگوں کا ممدوح بھی ہوں اور نقاد بھی۔ ان سے متاثر ہونا فطری تھا۔ ایک سول سروس کا ملازمت چھوڑ کر ادھر آنا ایک مثال ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب ایک بیوروکریٹ ہی تو تھے۔ انہوں نے سب کچھ تج کر خدمت کے میدان میں قدم رکھا۔ اختر حمید ان دنوں دیہی ترقی کے امام کہلا تے تھے۔ میرٹھ میں انہوں نے پروفیسر کرار حسین سے مل کر خاکسار تحریک سے بغاوت کی تھی اور علامہ مشرقی پر ان کی تنقید الامین نامی ایک پرچے میں شائع ہوئیں۔ پاکستان میں پہلے انہوں نے مشرقی پاکستان کے ضلع کومیلا میں کام کیا پھر مغربی پاکستان میں کورنگی پراجیکٹ کی بنیاد رکھی۔ میرے اعتراضات کیا ہیں ان کا اس وقت محل نہیں مگر ڈاکٹر امجد ثاقب نہ صرف ان سے متاثر ہوئے بلکہ خدمت کے جذبے کو نئے اسلوب میں ڈھالنا بھی سیکھا۔
انہوں نے مگر اصل رہنمائی اپنی اصل سے حاصل کی۔ اپنے ادارے کا نام اخوت رکھا جو خالصتاًِِ ایک اسلامی تصور ہے اور اس کے ساتھ مواخات کے تصور پر اپنے نئے پروگرام کی بنیاد رکھی۔ یہ تصور ریاست مدینہ سے شروع ہوا تھا جب مکہ سے آنے والے مہاجرین کو حضور ﷺ نے مدینہ میں انصار کا بھائی بھائی بنا دیا تھا۔ ایک کا ایک بھائی۔ آج بھی غزہ کی پٹی میں جب بمباری سے انسانی آبادیوں پر تباہی مچ جاتی ہے تو شام کو ہر شخص اپنے اپنے گھر سے جو ہوتا ہے لے کر باہر گلی میں نکل آتا ہے اور دستر خوان پر سب مل کر بیٹھ جاتے ہیں، جو ملتا ہے مل جل کر کھا لیتے ہیں۔ اخوت، اوقاف، مواخات یہ اسلام کی روح ہیں۔ بنو عباس کے زمانے تک اوقاف کا ادارہ ہمارے ہاں انسانی معاشرے کی اکثر ضرورتیں پورا کرتا تھا۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس حوالے سے صحیح معنوں میں ریاست مدینہ کی بنیادوں پر اپنے تصور کو غیر ریاستی طور پر استوار کیا۔ وہ ضرورت مندوں کو قرضے دیتے ہیں اور یہ قرضے بلاسود ہوتے ہیں۔ کسی نے کہا بلاسود دو گے تو ادارہ آگے کیسے چلے گا۔ سودی قرضوں کا ماڈل بنگلہ دیش کے محمد یونس کا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کی نفی کردی جس طرح ادیب الحسن رضوی نے سوچا کہ مفت علاج کرانے والا اگر صاحب حیثیت ہو گا تو خود ادارے کی مدد کرے گا، اس طرح ڈاکٹر امجد ثاقب نے سوچا ہم سے مدد لینے والا جب کبھی اپنے پائوں پر کھڑا ہو جائے گا تو ضرور اس ادارے کی قوت بنے گا۔ کتنی دور کی سوچ ہے۔ انہوں نے یہ کام مسجد میں بیٹھ کر کیا، گراس روٹ پر کہہ لیجیے اپنی زبان میں۔ ایک تو ضرورت مند کو پرکھنے میں آسانی ہوتی ہے دوسرے اوور ہیڈنہیں ہوتے تاہم یہ نہیں کہ انہوں نے اجتماعی کنٹرول کے لیے کوئی نظام ہی قائم نہیں کیا۔ مرکزی سطح پر دفاتر بھی بنائے۔
ان کی فقیری اور درویشی یہ نہیں کہ زمین پر بیٹھتے ہیں اور ہم انہیں بوریا نشین کہہ کر مطمئن ہو جائیں بلکہ اصل فقیری اور درویشی یہ ہے کہ وہ عام آدمیوں کی خدمت بے لوث اور بے غرض ہو کر کرتے ہیں۔ میرے دوست جانتے ہیں کہ میں تو سول سوسائٹی (المعروف این جی او) کے پوسٹ ماڈرن تصور کا بھی ناقد ہوں۔ برسوں پہلے میں نے اپنی اس بحث کا آغاز نیپا کراچی سے کیا تھا جب (وزیراعلیٰ) مظفر حسین صدارت کر رہے تھے اور میں اور غازی صلاح الدین بحث کررہے تھے اور سینئر بیوروکریٹ کا ایک اجتماع اسے سن رہا تھا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا ادارہ مگر ایک ایسا ادارہ ہے جو ایسے کسی تصور سے ماورا ہے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے خدمت کو صرف ایک کار ثواب ہی نہیں ایک سائنس بنا ڈالا ہے۔ انہوں نے کس کس سے کیا سیکھا، مجھے اس سے غرض نہیں، اتنا جانتا ہوں کہ انہوں نے اپنے تصور کو ایک نئی پہچان دی۔ بتا دیا کہ ریاست مدینہ کی روح کیسے کار فرما ہو سکتی ہے۔
کمال یہ ہے کہ انہیں اپنے لوگوں پر اتنا اعتماد تھا کہ وہ جو قرض دیتے ہیں اس کی واپسی 99.9 فیصد ہے، 100 فیصد ہی کہہ لیجئے۔ پارسائی کے جذبات سے سرشار ایک نیا معاشرہ تشکیل پا رہا ہے۔ ان کی نیک نامی کی یہ انتہا ہے کہ انہیں شہبازشریف کی پنجاب حکومت اور اب عمران خان کی وفاقی حکومت نے بھی کچھ ذمہ داریاں سونپیں۔ اس لیے کہ انہیں یقین تھا یہ کام دیانتداری کے ساتھ وہی کرسکتے ہیں اور الل ٹپ نہیں۔ پوری سائنسی سچائیوں کے ساتھ۔ انہوں نے یہ کام اپنے مین کام سے الگ رکھے اور اپنی ذہانت سے ریاست کی خدمت بھی کی مگر اپنے بلاسود قرضے کے کام میں انہیں صرف عوام کی حمایت حاصل ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ان کا تجربہ کامیاب ہے۔ میں یوں کہوں گا ریاست مدینہ کے اصولوں پر استوار ماڈل کامیاب ہے۔ اب انہوں نے اخوت یونیورسٹی کا آغاز کیا ہے۔ کالج سے ابتدا کی ہے۔ طالب علم چاروں صوبوں اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک ہی جگہ رہتے ہیں اور مفت تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں اعلیٰ تعلیم پر غریب کا بھی حق ہونا چاہیے۔ جب پاکستان بنا تھا تو یہ حق سب کو حاصل تھا۔ میں نے بھی ان سرکاری اداروں میں تعلیم حاصل کی جنکا کوئی ثانی نہیں ہے۔ پھر ہم نے تعلیم کو تجارت بنا دیا۔ ایک بار میں نے ہنس کر کہا تھا علم فروشی میں بڑی برکت ہے۔ ریاست تعلیم اور صحت کے شعبوں سے گویا دست بردار ہو گئی ہے۔ اب اکثر نے اسے کار تجارت بنا دیا ہے۔ ایسے میں امجد ثاقب کا یہ جذبہ بڑا قابل تعریف ہے۔ جب ڈاکٹر صاحب نے اپنا کام شروع کیا میں کراچی میں تھا۔ یہاں آ کر بھی میری ان سے الگ کوئی ملاقات نہیں ہے۔ زیادہ تفصیلات نہیں جانتا۔ بس دو چار ایسی ہی تقریبات سے پہچاننے کی کوشش کی ہے۔ خدا انہیں اور ان کے ساتھیوں کو جزائے خیر دے اور مجھ جیسوں کو بھی ان کے لیے کارآمد بننے کی توفیق دے۔