احفاظ الرحمن اور سعید اظہر
اس نے طیش میں آ کر کرسی اٹھائی اور مارنے کے لیے آگے بڑھنا چاہا۔ وہ اس وقت ایک دبلا پتلا شخص تھا اور میں شاید اس وقت بھی تن و توش رکھتا تھا۔ اس کھلے تضاد پر بھی دوست ہنستے ہوں گے مگر مزے کی اصل بات یہ تھی کہ یہ 77 کی تحریک کا زمانہ تھا اور کراچی پریس کلب میں سیاست کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا، مگر اس گرما گرمی کی وجہ یہ تھی کہ غزل کے کسی پہلو پر اختلاف پیدا ہو گیا تھا۔ موضوع مجھے اس لئے یاد ہے کہ کسی نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ ہے نا مزے کی بات، کہ آج کے زمانے میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو غزل کے مسئلے پر الجھ سکتے ہیں۔ اسے بھی اپنی اس "ادا" پر حیرانی ہوئی ہو گی۔ اگلے ہی لمحے میرے پہلو میں کھڑا تھا اور ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا تھا۔
یہ احفاظ الرحمن سے میرے مضبوط رشتے کی بنیادتھی جو ہمیشہ قائم رہی۔ ہمارے درمیان شدید نظریاتی اختلافات تھا مگر اس اختلاف کا وقت اس دن ایسا کھلا کہ پھر کبھی انسانی تعلقات پر حاوی نہ ہو سکا۔ جانے کس حوالے سے یہ بات کیسے یاد آئی کہ ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے میں اپنے دوست ڈاکٹر عبدالقادر خان کو سنا رہا تھا۔ فون رکھا ہی تھا کہ سامنے ٹی وی پر اس کے انتقال کی خبر پر نظر پڑی۔ پھر یہ ہوا کہ کراچی سے فراست رضوی کا فون آ گیا۔ اپنی نسل میں ایسا قادر الکلام شاعر میں نے کم ہی دیکھا ہے۔ وہ اپنی وضع کے آدمی ہیں، جوش اور راغب مراد آبادی کی محبتوں کے پلے ہوئے۔ میرا نہیں خیال تھا کہ اسے الفاظ سے کوئی نسبت ہو گی۔ اس نے مگر یہ بتا کر باتوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا کہ وہ ان کے سامنے والی گلی میں رہتا تھا۔ پھر وہ بتاتا ہی چلا گیا اور میری فرمائش پر اس کی کتاب کے چند اوراق واٹس ایپ کر دیئے۔ میں نے سوچا میں اس پر ضرور لکھوں گا اور ابھی لکھوں گا، وگرنہ شاید لکھ نہ پائوں، جیسا سعید اظہر پر لکھنا رہ گیا ہے اور اب رہ ہی جائے گا حالانکہ وہ یار عزیز بہت سوں کو عزیز تھا اور مجھے بھی۔
احفاظ ایک نظریاتی آدمی ہی نہ تھا، بلکہ فعال کارکن یعنی ایکٹوسٹ بھی تھا۔ ہر معاملے میں پیش پیش ہوتا۔ فراست نے بتایا وہ چینی زبان بھی جانتا تھا اور خوب جانتا تھا۔ یہ جو آخری دنوں میں اس نے نظمیں لکھیں یہ ساری سیاسی موضوعات پر ہیں۔ پورے مشرق وسطیٰ سے ابھرنے والے دکھوں پر بھی ہیں، مگر اس نے اسے ایسا جمالیاتی لبادہ پہنایا ہے کہ بقول ساحر انصاری کے یہ کسی صحافی کا کوئی خیال منظوم نہیں ہے۔ کتاب کا ہی اس کے اندرونی مسئلے کو نمایاں کرتا ہے۔ دو مصرعے سنیے:
اسے قوت میں ڈھلنے دو
یہ اپنا غم ہے، اس غم کو کبھی مدھم نہ ہونے دو
اور میں فراست کے بھیجے ہوئے صفحات سے نقل کر رہا ہوں۔
کہانی کیسے چلتی ہے، یہ کس دھارے میں بہتی ہے
کس کی گود میں پلتی ہے، یہ کس دھارے میں بہتی ہے
کس کی گود میں پلتی ہے یا خود ساز ہوتی ہے
یہ کیا ارماں رکھی ہے
یہ کن خوابوں میں رہتی ہے
کوئی شک نہیں یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے لیے زندگی ہمیشہ زندہ ہوتی ہے۔ آخری دنوں میں سنا ہے اسے کینسر ہو گیا تھا۔ آپریشن ہوا، آواز سے محرومی کا دکھ سہنا پڑا۔ پیشہ وارانہ طور پر بھی اس کی شہرت ایک اچھے صحافی کی تھی۔ ان کی بیگم مہناز کسی این جی او کے لیے کام کرتی ہیں۔ غالباً عورت فائونڈیشن مجھے کراچی سے نکلے ہوئے ایک دہائی سے زیادہ ہو گیا۔ بہت کچھ بھولتا جا رہا ہوں یہ جوڑا پریس کلب کی رونق تھا، خوب ایکٹو تھا۔ ابھی آغا مسعودحسین کا فون آیا ہے، صرف خیریت پوچھنے کے لیے، میں نے یہ خبر دی تو کہنے لگا، حالات ایسے ہیں کہ باہر نکلنا مشکل ہو گیا ہے۔ ضرور اس کے لیے فاتحہ پڑھوں گا۔
یہی یہاں بھائی سعید اظہر کے ساتھ ہوا۔ اس کے جنازے پر بہت سے لوگ پہنچ نہ سکے۔ وہ سب جنہیں ہر صورت ہونا چاہیے تھا۔ سلمان غنی کہہ رہا تھا، بہت لوگ تھے، مگر میں خود کو اکیلا ہی محسوس کر رہا تھا۔ سعید اظہر ایک ایسا شخص تھا جسے ایک کیریکٹر ہی کہنا چاہیے۔ بہت عمدہ نثر لکھتا تھا، مگر زندگی عجیب لاابالی انداز میں گزاری، اس کی شخصیت اس ایک فقرے میں سمجھ آ سکتی ہے۔ میں کراچی سے آیا ہوا تھا کہ چلتے چلتے ٹھٹک گیا۔ نہیں ادھرنہیں، دوسری گلی سے چلتے ہیں۔ پوچھے بغیر ہی بتایا کہ اس گلی کی نکڑ پر جوپان والا ہے، میں نے اس کا ادھار دینا ہے، پھر ایک جگہ بٹھا کر یہ کہہ کر کہیں چل دیا، جانا نہیں، ابھی آیا۔ واپسی پر تمام اہل محفل کو نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے نوید سنائی کہ چلو، ادھار کا بندوبست ہو گیا ہے، میں تم سب کو اچھا سا کھانا کھلاتا ہوں۔ آخر یہ کراچی سے آیا ہوا ہے۔ بہت کچھ یاد آ رہا ہے۔ اس کے آخری دن بھی بیماری میں گزرے۔ جب شعیب بن عزیز نے اس کے انتقال کی اطلاع دی تو آواز ہی سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔
کتنی زندگیاں ہیں جو ان آنسوئوں کے دھارے میں ہم سے رخصت ہو گئی ہیں۔ پوری ایک نسل اپنے اپنے انداز میں زندگی کو اپنا نیا حصہ سونپ کر چلتی بنی ہیں۔ شاید تاریخ انہیں یاد بھی رکھے یا بھول جائے، مگر آنے والے دنوں کی رگوں میں ان کا خون رواں ہو گا۔
چلتے چلتے ایک غزل کے دو چار اشعار سن لیجیے۔ ویسے تو یہ غزل ہی کمال کی ہے، مگر یہاں ساری غزل کے بیان کا مقام نہیں۔ صرف اس کالم کے اختتام کا مسئلہ ہے۔
ہے دیدنی یہ دوابہ، یہ گردش سیال
بدن میں زہر رواں ہے لہو علاحدہ ہے
ہماری اور طریقت ہے مے کشی کی میاں
ہمارا ساقی و جام و سبو علاحدہ ہے
جو تیغ وقت سے رکھتا ہوں خون کا رشتہ
تو خاندان میں میرا لہوعلاحدہ ہے
یہ اسی خاندان کے لوگ تھے۔ ان کے خون کا رشتہ بھی الگ تھا۔ دو بچھڑے ہووں کو یاد کرتے ہوئے مجھے صرف اتنا یاد آ رہا ہے، یہ وہ مقام ہے جہاں نظریہ، سیاست سب الگ رہ جاتے ہیں۔
مجھے یاد کر لینے دو، اسی طرح جیسے مجھے یاد آ رہا ہے۔
احفاظ نے خدا کی بستی کے مصنف شوکت صدیقی کی وفات پر ایک نظم لکھی تھی۔ میں دونوں یاروں کے بچھڑنے پر اس نظم کویاد کرتا ہوں:
اب نہیں آئے گا
اب وہ دل دار، طرح دار نہیں آئے گا
اپنا ہم راز، ہم آواز نہیں آئے گا
بجھ گیا ساز، وہ دم ساز نہیں آئے گا
بیتے لمحوں کے بکھرتے ہوئے سفاک نشاں آنکھ سے ٹپکیں گے
مٹی میں سمٹ جائیں گے