Saturday, 27 December 2025
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. PIA Bojh Se Azadi

PIA Bojh Se Azadi

پی آئی اے کے بوجھ سے آزادی

حکومتی استدلال کے مطابق پاکستانیوں کو پی آئی اے جیسے بوجھ سے آزاد کرانے پر ستائش و تحسین نہ کرنا زیادتی ہے۔ حاکمانِ وقت کی چوکھٹ پر سجدہ ریز قلمکار تو پی آئی اے کی نجکاری کو ایک معرکہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں لیکن واقفانِ حال اِس نجکاری کو شفاف کی بجائے طے شدہ قرار دیتے ہیں۔ اپنے اِس دعوے کو درست ثابت کرنے کے لیے خریدار کو دی جانے والی ایسی مراعات کا تذکرہ کرتے ہیں جن کا سرے سے مطالبہ ہی نہیں کیا گیا۔ نیز یہ کوشش کہ چاہے حکومت کو وصولی نہ بھی ہو لیکن خریدار کسی صورت خسارے میں نہ رہے۔

نجکاری کا عمل غلط یاغیر قانونی نہیں اکثر حکومتیں خسارے والے اِداروں کو نجی تحویل میں دیکر نفع بخش بناتی ہیں۔ بھارت، برطانیہ، پرتگال، جاپان، یونان سمیت کئی ممالک خسارے والی فضائی کمپنیوں سے نجات پا چکے ہیں۔ پی آئی اے بھی دو عشروں سے خسارے میں ہے۔ اِس کی یک بڑی وجہ تو پیپلزپارٹی کا نااہل جیالوں کو بے جا نوازنا ہے، یوں پی آئی اے میں ضرورت سے زائد ایسے ملازمین کی بھرتی ہوگئی جو کام کرنے کی بجائے صرف تنخواہیں اور مراعات لینے تک محدود تھے۔

ایسی نوازشات سے 2013کے اختتام تک خسارے کی رقم 44 ارب تک جا پہنچی۔ مزید ستم یہ کہ ن لیگ کے ادوار میں اندرونی اور بیرونی دوروں کے لیے پی آئی اے کو بے دریغ استعمال کیا گیا اکثر نئے جہاز صرف حکمرانوں کے دوروں کے لیے وقف ہو کررہ گئے جبکہ پُرانے جہازوں کی بروقت مرمت کرانے سے بھی کوتاہی کی گئی۔ اِس طرح یہ اِدارہ فضائی سروس دینے میں ناکام ہوتا گیا۔ مزید ایک وجہ ن لیگ کے کچھ اہم لوگوں کا اپنی فضائی کمپنی ائر بلیو کو کامیاب کرانا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خسارہ پچاس ارب زائد ہوگیا۔ اِس کے بعد پی ٹی آئی کی زہین اور دیانتدار حکومت نے تو حد ہی کردی۔

اس جماعت کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے شہرہ آفاق بیان داغا کہ ہمارے تو اکثر پائلٹوں کے لائسنس ہی جعلی ہیں، جس سے ڈرکر لوگ پی آئی اے پر سفر کرنے سے کترانے لگے اور یورپی یونین نے بھی پابندی لگا دی۔ مسافر کم ہونے کے ساتھ کئی منافع بخش روٹ ختم ہونا ایسا بھاری نقصان تھا جس سے پھر یہ اِدارہ سنبھل نہ سکا اور پچاس ارب کا خسارہ اچانک 88 ارب کے ہندسے کو چھونے لگا۔ اب جبکہ یورپی یونین نے پابندی ہٹا دی ہے اور پی آئی اے کے جہاز امریکہ، یورپ تک جانے لگے ہیں اور اِس کا دوبارہ نفع میں جانا یقینی ہے تو حکومت 75 فیصد حصص 135 ارب میں بیچ کر کچھ اِس طرح الگ ہوگئی ہے کہ پی آئی اے کے زمہ واجب الادا 650 ارب اپنے زمے لے لیے ہیں۔

نئے جہازوں کی خریداری یا لیز پر عائد 18فیصد جی ایس ٹی کی پندرہ برس تک چھوٹ الگ دیدی ہے۔ اِس اِدارے کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن، میڈیکل بِل اور مفت فضائی ٹکٹ جیسے اخراجات سے نئے مالکان کو آزاد کرتے ہوئے یہ سارا بوجھ بھی اپنے سرلے لیا ہے۔ ایسی نوازشات سے ہی نجکاری کے عمل میں شفافیت کے فقدان کی قیاس آرائیاں ہونے لگی ہیں۔ جب حکومت کا ملکی اخراجات کے لیے قرضوں پر انحصار ہے اِس کے باوجود ایسی دریا دلی اور سخاوت دکھانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

خسارے میں جانے کے باوجود پی آئی اے کی ساکھ، اثاثے، روٹ اور طیاروں کی اِتنی مالیت ہے جو کسی بھی سرمایہ کارکے لیے کشش کا باعث ہو سکتی ہے۔ اگر اندرونِ ملک پروازوں کی بجائے صرف بیرونی 64 روٹس پر ہی ہفتہ وار پروازیں شروع کردی جائیں تو بھاری منافع ممکن ہے لیکن طیارے ہونے کے باوجود سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیرس، بارسلونا، مال پینساکوپن ہیگن اور اوسلو کی پروازیں بند کردی گئیں ہیں۔ مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ اِدارہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے لہذا جتنی جلدی ممکن ہو سکے گلو خلاصی بہتر ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کو اپنا کارنامہ ثابت کرنے کی کوششیں دراصل حکمرانوں کی ناکامی کا اعتراف ہے۔ اگر حکمران باصلاحیت ہوتے تو ملک کی شناخت اِدارہ بیچ کر قوم کو مبارکباد دینے کی بجائے اِس کی بحالی پر توجہ دیتے۔ ارے بھئی قوم نے آپ کو ووٹ دیے ہیں تبھی حکومت میں آئے ہو لیکن ایسا کرنے کی بجائے اِدارہ ہی اِس شرط پر بیچ دیا کہ ایک برس تک کسی ملازم کو نکالا نہیں جائے گا۔

پی آئی اے کے بوجھ سے قوم کو آزادی کی نوید سُنانے والے حکمران حساب کتاب میں بھی اناڑی لگتے ہیں تبھی فروخت کے 135 ارب وصول کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ خود صرف دس ارب لیکر خوش ہیں البتہ مشیر نجکاری محمد علی 55 ارب وصولی کا دعویٰ کرتے پھرتے ہیں جبکہ بقیہ 125 ارب پی آئی اے کی بحالی کے لیے خریدار کو دیدیے ہیں، حالانکہ پی آئی اے اب بھی چالیس کے قریب طیاروں کی مالک ہے جن میں سے 19 آپریشنل ہیں۔

سالانہ لاکھوں مسافروں کو سفری سہولت فراہم کرنے والی اِس اِئر لائن کے پاس بوئنگ طیارے بھی ہیں جن میں سے صرف ایک جہاز 777 کی مالیت 400 ملین ڈالر ہے مگر پورے اِدارے کی لگائی جانے والی کُل بولی ایک جہاز کی قیمت سے بھی کم لگائی گئی ہے۔ یہ اِدارہ اب بھی بیس جہازوں کا مالک ہے جبکہ مزید 13 جہاز لیز پر بھی ہیں۔ علاوہ ازیں 2010 سے پہلے کے 24 طیارے الگ ہیں اگر تمام جہازوں کو کچرے میں بھی فروخت کیا جائے تو لگائی جانے والی کُل بولی سے زیادہ وصولی ممکن ہے۔ اسی بناپر لوگ حیران ہیں کہ ہمارے باصلاحیت اور مقبول ترین وزیرِ اعظم نے تو عوامی مسائل حل کرنے کے لیے اپنے کپڑے بیچنے کی بات کی تھی لیکن پوری پی آئی اے کو ہی کچھ حاصل کیے بغیر بیچ دیا ہے۔

بظاہر عارف حبیب کنسورشیم سب سے زیادہ بولی دیکر پی آئی اے کو خرید چکا ہے لیکن حکومت نے نوازشات کی حد کرتے ہوئے انھیں بقیہ 25 فیصد حصص خریدنے کا اختیار بھی تفویض کردیا ہے کہ ادائیگی کے بعد سوفیصد حصص کے مالک بن جائیں۔ فروخت کرتے ہی یہ اختیار دینا سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ اِس عنایت کو غنیمت جان کر فوجی فرٹیلائزر پہلے بولی سے الگ ہوئی اب نئے مالکان سے شراکت داری بھی کر لی ہے اور ایسا کرنے کی حکومت نے اجازت بھی دیدی ہے۔

قوم تو بس اِتنا جاننا چاہتی ہے جب وصولی سے حکومت کو کوئی دلچسپی ہی نہیں توٹی وی پر ڈرامے نہ کرے۔ رفقا و اقربا کو ملکی اِدارے تحفے میں دیکر خوشحال بنا دے کون سا کوئی سوال کرنے کی جرات کر سکتا ہے۔ لوگ تو یہ سوچ کر حیران ہیں کہ ایک گھڑی بیچنے سے تو جوہری ملک ڈوبنے کا خدشہ ہے لیکن ایک مکمل اِدارہ ختم کرنے سے کیسے تیرنے لگے گا؟

Check Also

Mufti Shamail Nadwi Bamuqabla Javed Akhtar

By Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi