Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Sadia Qureshi
  3. Taro Taza Zaiqe Ka Column

Taro Taza Zaiqe Ka Column

ترو تازہ ذائقے کا کالم

لکھنے کو یوں تو بہت کچھ ہے۔ اخبار کی خبریں، حادثوں اور سانحوں سے بھریں ہیں ٹی وی چینلز کی بریکنگ نیوز، سیاسی اور سماجی محاذ سے کوئی ایسی خبر نہیں لاتی جس سے سماعت کو قرار پہنچے حالات کی وہی یکسانیت ہے۔ وہی مسائل کے عفریت منہ کھولے کھڑے ہیں اور وہی تلخ حقیقتوں کا سامنا ہے کہ جن کو لکھتے لکھتے کبھی اعصاب شل ہونے لگتے ہیں اور رائیگانی کا احساس بڑھنے لگتا ہے۔ تو کیوں نہ آج "حالات حاضرہ کی سنگینی"سے ہٹ کر کچھ تروتازہ باتیں کر لی جائیں۔ آج ہم دنیا کو بچوں کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بچے بہت پیارے ہوتے ہیں بس ان میں ایک یہی خرابی ہوتی کہ وہ بڑے ہو جاتے ہیں اور اپنے بڑوں کی طرح ہو جاتے ہیں۔ ویسے کیا سچی بات ہے دنیا میں ساری خرابیاں سارے فساد بڑوں کے ہی تو پیدا کردہ ہیں۔ یہ بڑے بھی کبھی چھوٹے ہوتے تھے تو ایسے فسادی کہاں تھے مذہب، مسلک، نظریات، رنگ نسل کے اختلافات بچوں میں نہیں ہوتے۔ وہ ان اختلافات پر فساد کھڑا نہیں کرتے۔ لڑائی کریں تو جلد جان جاتے ہیں راضی ہونے کے لئے لمبی چوڑی شرائط نہیں رکھتے۔ تو چلئے آج کے کالم میں ہم بچوں کی تروتازہ، انوکھی، البیلی، نئی نویلی اور سجیلی باتیں کرتے ہیں۔ بچوں کی نظر سے دنیا کو دیکھنے اور دنیا کو سمجھنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ سب سے پہلے تو میں ایک خط آپ سے شیئر کرنا چاہتی ہوں۔ اگرچہ ہم نے بڑے خطوط پڑھ رکھے ہیں۔ غالب کے خطوط کیٹس کے خط فینی برائون کے نام۔ امرتا پریتم کے محبت نامے امروز کے نام اور امروز محبت نام امرتا کے نام۔ لیکن جو بات اس پیارے سے ننھے منّے خط میں ہے وہ ان بڑوں کے خطوں میں کہاں۔

یہ خط ایک سات آٹھ سال کی پیاری سی بچی عنایہ نے اپنے ایک دوست خاندان کی تین سالہ بچی کے نام لکھا ہے۔ جو ایک حادثے میں اللہ کو پیاری ہو گئی۔ اس خبر کو عنایہ کے والدین نے اس سے دانستہ چھپایا کہ وہ بچی ہے اور یہ خبر اسے اداس کر دے گی مگر جب عنایہ کو زارا کی موت کا پتہ چلا ہے تو وہ اپنے جذبات کا اظہار اس کے نام خط میں کرتی ہے۔ سکول کی نوٹ بک پر پنسل سے لکھا ہوا یہ خط اپنی سادگی اور معصومیت میں اپنی مثال آپ ہے اس کا خیال ہے زارا کے والدین یہ خط کسی طرح اس تک پہنچا دیں گے۔ زارا کو محظوظ کرنے کے لئے۔ اس نے خط میں چھوٹے چھوٹے کارٹون بنائے ہیں۔ اپنے کارٹون کے ساتھ آنسو بنا کر اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ خط انگریزی زبان میں ہے میں اردو میں اس کا ترجمہ کروں گی۔

سویٹ لٹل زارا! یہ خبر میرے لئے اندوہناک ہے کہ تم دنیا چھوڑ کر جا چکی ہو۔ میں اس خبر کو سن کر حددرجہ دکھی ہو گئی ہوں تم ایک بہت پیاری چھوٹی سی میٹھی لڑکی ہو اور میں تمہیں بھول نہیں پائوں گی۔ تم ہمیشہ مجھے یاد رہوں گی۔ میں تمہارے ساتھ چڑیا گھر کی سیر کرنا چاہتی تھی۔ تمہارے ساتھ مل کر بہت کھیلنا چاہتی تھی۔ مگر میرا یہ خواب پورا نہ ہو سکا اور تم اتنی جلدی اس دنیا سے چلی گئی۔

میری ماما کہتی ہیں تم بہت اچھی جگہ پر ہو۔ اب اللہ کے فرشتے تمہارا خیال رکھتے ہیں۔ مگر تمہیں اپنے ماما پاپا اور اپنے کھلونے بھی تو یاد آتے ہوں گے۔ یہ سوچ کر میں بہت ادارس ہو جاتی ہوں۔ ماما کہتی ہیں کہ تم جنت میں ہو اور وہاں بچوں کو ڈھیر سارے کھلونے ملتے ہیں۔ سویٹ لٹل زارا میری دعا ہے کہ تم وہاں اللہ کے پاس ہمیشہ خوش رہو اور اپنے کھلونوں سے کھیلتی رہو میں تمہیں کبھی نہیں بھلائوں گی۔ اس کے بعد بڑے بڑے حرفوں میں I love youلکھا ہے۔ سات آٹھ برس کی عنایہ کا یہ خط جس معصومیت سچائی اور بے ساختگی سے معمور ہے۔ وہ دل کو چھو لینے والی ہے۔ ہاں آپ کی طرح میں نے جب یہ خط پڑھا تو اداس ہو گئی تھی۔

لیجیے حالات حاضرہ کی سنگینی سے گھبرا کر ذرا سی بریک لینے کے لئے ہم نے چاہا تھا کہ بچوں کی تروتازہ باتوں سے آپ کے دن کو روشن کریں مگر سویٹ لٹ زارا کے نام عنایہ کے اس معصوم سے خط نے کالم کی قضا ادا کر دی ہے۔ چلیے دانیات کی کچھ مزے کی باتیں آپ سے شیئر کرتے ہیں انہیں لکھنے کا شوق ہے۔ سپر ہیروز کی کہانیاں لکھنا بہت پسند اور کہانیاں سنانے کا شوق اس سے بھی زیادہ ہے ایک سکول کی نوٹ بک پر لکھی ہوئی کہانی کو ناول قرار دیتے ہیں۔ یوں اب تک کئی ناول۔ ان کی سیریز اور سیزن تحریر کر چکے ہیں۔ اپنے تئیں خود کو اہم لکھاری تصور کرتے ہیں۔ ایک دن صاحبزادے مجھے کہنے لگے کہ آپ بہت بور کام کرتی ہیں۔ کالم لکھنا بہت بورنگ ہے کیونکہ آپ املی دنیا پر لکھتی ہیں جو کہ مسئلوں سے بھری ہوئی ہے۔ میری طرح امیجینیشن کی کہانیاں لکھیں اور اپنی دنیا خود بنائیں۔ جیسے میں لکھتا ہوں۔ ہمارے صاحبزادے مستنصر حسین تارڑ سے مل چکے ہیں اور ان سے شاباش لے چکے ہیں۔ جس کی روداد اسی کالم میں آپ کو سنائی تھی۔ ایک روز صاحبزادے فرمانے لگے ماما!مستنصر حسین تارڑ اتنے بڑے رائٹر ہے تو سپر مین اور بیٹ مین کی کہانیاں کیوں نہیں لکھتے۔؟

ایک دن انہیں خیال آیا کہ میں تو بہت سے "ناول" لکھ چکا ہوں مگر آپ کی تو ابھی تک ایک کتاب بھی نہیں آئی۔ شاید اس لئے کہ آپ کو بکس نے رائٹ ٹائم پہ انسپائر نہیں کیا۔ اس لئے آپ لیٹ ہو گئی ہیں۔ اب کارٹون سے ہٹ کر خبریں سننے میں بھی خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ سوالات در سوالات ایک روز میں نے پوچھا کہ خبروں میں آپ کی اتنی دلچسپی کیوں ہے تو جواب دیا کہ یہ بھی تو کارٹون جیسے ہی ہیں بس فرق یہ ہے کہ امیجینیسٹو ورلڈ کی جائے رئیل ورلڈ کے ہیں۔ ایک روز زرداری صاحب کو خبروں میں دیکھا تو بولے یہ مجھے کوئی ولن لگتے ہیں۔ میں نے پوچھا کیوں۔ تو صاحبزادے بولے۔ ان کی سمائل دیکھیں بالکل ولن والی ہے۔ ذرا دیکھیں بچوں کی ان معصوم باتوں میں کتنے خطرناک سچ چھپے ہوئے ہیں یہ اور بات کہ بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں۔

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt