تقریریں پیٹ نہیں بھرتیں۔جناب !
میرے بس میں ہو تو ایک قانون بنا دوں، جس کی رو سے تقریر کرنے پر پابندی لگا دی جائے اور اگر کسی کو کچھ زیادہ ہی تقریر آئی ہو، تو اس شوقین کا پہلے دماغی معائنہ ضرور ہونا چاہیے۔ اپنی ہی تعریفوں سے سجی ہوئی تقریریں سن کراب تو کان پک چکے ہیں، اس پر مستزاد یہ کہ وزیر اعظم سمیت ان کے حواری تقریروں میں ایسی ایسی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ الامان!کوئی منہ اٹھا کے مشورہ دیتا ہے کہ چینی کے نو دانے کم کردیں، تو آپ کی معاشی حالت سنبھل جائے گی۔ اپنے ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں لگا دینے والا تقریر کرکے غریب عوام کو مشورہ دیتا ہے، کہ روٹی کم کھائیں۔
کاش ایسا ہوسکتا کہ یہ جو منہ اٹھا کے غریب شہر کو اپنی تقریروں میں مشورے دینے آجاتے ہیں، ان کے بند دماغوں کو کھول کر ان کے اندر خوش فہمیوں کے بھرکس باہر نکالے جائیں تاکہ وہ ماوئنٹ ایورسٹ جتنی خوش فہمیوں سے نکل کر اصل حقیقتوں کا سامنا کر سکیں۔ جس جگہ انہوں نے تقریر کرنی ہو وہاں سامنے تلخ حقائق پر مبنی اعداد و شمار بڑے بڑے حروف میں لکھ کر آویزاں کیے جائیں اور اس پر ایک شخص مامور کیا جائے جو با آواز بلند ان اعدادوشمار کو پڑھ کر انہیں سنائے۔ ان کے آس پاس حقیقتوں کے آئینے رکھے جائیں تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ آئے گا عمران بنے گا نیا پاکستان پر ناچنے والے دیوانے اس ہوشربا تبدیلی کے جلوے سے اب بے دم پڑے ہیں۔ اور تو اور تبدیلی معنی بدل کر خود اپنے آپ پر شرمندہ کسی کونے میں سردیے پڑی ہے۔
عوام کو لیکچر دینے سے پہلے ان سیاسی لوگوں کو بٹھا کر ان کے کان کھولے جائیں کہ انسانوں کا پیٹ تقریروں سے نہیں بھرتا۔ پیٹ بھرنے کے لیے روٹی کھانی پڑتی ہے اور روٹی کے لیے سالن ضروری ہوتا ہے، سالن کے لیے دال سبزی گوشت ضروری ہے، جو گھی اور مصالحہ جات کے بغیر نہیں پک سکتا۔ کوئی ایسا جادو منتر ٹونا نہیں ہے کہ وہ پھونکیں اور من و سلوی حاضر ہو جائے یا پھر پھونک مارنے سے پیٹ بھر جائے۔ (کاش کہ ایسا ہوسکتا)بہت مہنگائی ہو گئی ہے یہ جملہ ہر شخص استعمال کرتا ہے وہ بھی جو دس پندرہ ہزار ایک وقت کے کھانے پر اڑا دیتا ہے اور وہ بھی جو پندرہ بیس ہزار پورے مہینے خود کو مشقت کی چکی میں پیس کر کماتا ہے اور پھر اس پندرہ بیس ہزار میں وہ ریزہ ریزہ پیسوں کے ساتھ ایک ایک دن زندگی گزارنے کا جتن کرتا ہے۔ ایک وقت روٹی کھاتا ہے تو دوسرے وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے ہیں۔ ان دو طبقوں کے درمیان بھی ایک طبقہ ہے جو سفید پوش ہے، جن کے لیے مہنگائی میں زندگی گزارنا پل صراط پر زندگی گزارنے کے مترادف ہے۔ جس کے مسائل اور خواب تو مڈل کلاس والے ہیں مگر جیب ہلکی ہے۔ سو یہ طبقہ ہلکی جیب اور بھاری ضرورتوں اور خوابوں کے درمیان ایک برزخ میں زندگی گزارتا ہے۔
گزشتہ کچھ عرصہ سے بنیادی اشیائے ضروریہ میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اس کی وجہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں کا تواتر سے بڑھنا ہے۔ وزیراعظم اپنے ہر تقریر میں یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ غریبوں کو اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دے رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سبسڈی کے لیے قائم کیے گئے یوٹیلیٹی سٹور پر بھی آٹے، دالیں اور چینی کی قیمتی ہر ہفتے آنے والے مہنگائی کے ریلے میں بڑھ جاتی۔ یوٹیلیٹی اسٹورز پر اکثر آٹے چینی کا بحران رہتا ہے۔ یہاں سے خریداری کرنے والے یہ شکایت عام کرتے ہیں کہ حکومت سبسڈی پر سیلن زدہ آٹا، اور غیر معیاری صحت دشمن چیزیں عوام کو بیچ کر کس کو دھوکہ دے رہی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیر اعظم کے ہر ریلیف پیکج کے بعد مہنگائی کے دانت مزید نوکیلے ہوجاتے ہیں۔ عمران خان حکومت میں آنے سے پہلے جو دعوے کرتے تھے، آج ان تقریروں کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی زحمت کریں، تو ان کو اندازہ ہو کہ ان کے قول اور ان کے عمل کے درمیان اب ایک خلیج حائل ہوچکی ہے۔ اور اس خلیج میں غریب اور سفید پوش طبقہ مہنگائی کی سولی پر لٹکا ہوا ہے۔
52 فیصد مہنگائی بڑھ چکی ہے اور حالات یہ ہیں کہ جو تین وقت کی روٹی کھاتے تھے اب دو وقت کی روٹی کھا رہے ہیں، دو وقت کی روٹی کھانے والا ایک وقت کی روٹی پر آ چکا ہے۔ چالیس فیصد غربت زدہ لوگوں کے گھروں میں چولہا ٹھنڈا رہنے لگا ہے، دن میں ایک وقت کا کھانا بنتا ہے جبکہ دوسرے اوقات میں مرچوں اور پیاز کے ساتھ روٹی کھا کے گزارا کرتے ہیں۔ یہ طبقہ بیمار ہو تو دوائی نہیں خرید سکتا۔ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکول نہیں بھیج سکتا۔
اگر چالیس فیصد خط غربت کے نیچے ہیں تو ستر فیصد عوام وہ ہیں، جن کی ماہانہ آمدنی کے گزشتہ تین سالوں میں ہر ہفتے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے مقابل مسلسل گھٹ رہی ہے۔ ادھر طرز حکمرانی کا خلاصہ یہ ہے کہ مہنگائی بڑھ گئی ہے، آپ تقریر کرکے عوام کا پیٹ بھر دیں۔ امن وامان کی صورتحال خراب ہے آپ تقریر کرکے عوام کا پیٹ بھر دیں۔ دودھ کے دھلے ہوئے حکمران تو یہاں کبھی بھی نہیں رہے سچ بولتے ہوئے ہم نے کم ہی حکمرانوں کو دیکھا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اس دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے بھی کسی کو نہیں دیکھا۔
المیہ یہ ہے کہ قول اور فعل کے اس خوفناک تضاد میں صرف بے حسی پنپ سکتی ہے۔ احساس شرمندگی اور احساس زیاں ایسے دلوں سے رخصت لے لیتے ہیں۔ یہاں ہر سلگتے ہوئے مسئلے کے مقابل ایک تقریر پڑی ہے۔۔ تقریریں بھی صرف اپنی تعریفوں سے بھری ہوئی نرگسیت سے پرجھوٹ سے آراستہ بڑھکوں سے گونجتی ہوئی۔ قول اور فعل کے بدترین تضاد سے مزین !تقریریں تقریریں اور مزید تقریریں ہیں !