سہولت بازار‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز اور حفیظ سنٹر
لیجئے عوام کی سہولت اور آسودگی کے لیے حکومت نے سہولت بازار کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ سہولت بازار، ریلیف بازار، سستے بازار، رمضان بازار بھی دراصل حکمرانوں کا ایک سیاسی سٹنٹ ہوتا ہے جو عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے کیا جاتا ہے۔
ہمارے وسیم اکرم پلس وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار فرماتے ہیں کہ مصنوعی مہنگائی کو ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ اس بیان سے تویوں لگتا ہے کہ اصلی تے سچی مہنگائی برداشت کرلیں گے لیکن مصنوعی مہنگائی برداشت نہیں کریں گے۔
اصلی مہنگائی وہ ہے جو آئی ایم ایف کی عوام دشمن معاشی پالیسیوں کی وجہ سے لوگوں پر مسلط کی گئی۔ مشیر خزانہ حفیظ شیخ، آئی ایم ایف کے نمائندے ہیں اور اپنی ہر پریس کانفرنس میں اعتراف کرتے ہیں کہ عام آدمی کے لیے زندگی مشکل ہے۔ مہنگائی بڑھے گی چونکہ وہ سیاستدان نہیں آئی ایم ایف کے تربیت یافتہ اکانومسٹ ہیں اس لیے انہیں بات گھما کر کرنی نہیں آتی۔ مگر صاحب ہمارے سیاستدان کو ایسی بات گھما پھرا کر ایسے کرنی آتی ہے کہ عوام بھی چکرا کر رہ جاتے ہیں۔
مصنوعی مہنگائی بمقابلہ اصلی اور خالص مہنگائی میں عوام کا کچومر نکل چکا ہے۔ کیا آپ نے کبھی گلی محلے کی چھوٹی دکانوں پر، کسی سفید پوش کو آٹا چینی چاول کی قیمتیں پوچھتے اور بے بسی سے اپنی جیب میں رکھے ہوئے پیسے گنتے دیکھا ہے۔ کبھی دل ہی دل میں حساب کتاب لگاتا ہوا عام آدمی جس کے چہرے کا رنگ آئے روز نئی قیمتیں سن کر ہی فق ہو جاتا ہے کیونکہ اس کی جیب میں پڑی ہوئی رقم ہر نئی قیمت کے ساتھ کم ہو جاتی ہے۔
اس کی جیب ہلکی ہوتی ہے تو خود عام آدمی کا وجود ہلکا ہونے لگتا ہے۔ اس کی زندگی بے قیمت ہونے لگتی ہے۔ ایک سفید پوش باپ جب اپنے بچے کو کتابیں خرید کر نہیں دے سکتا، اس کی پسند کا کھانا نہیں کھلا سکتا، موسم کے نئے کپڑے نہیں لے کر دے سکتا تو اسے اپنا وجود بے قیمت اور ہلکا لگنے لگتا ہے۔ بالکل اپنی جیب کی طرح جس میں پڑی ہوئی رقم آئے دن کی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے سکڑتی جاتی ہے۔
حکمرانوں کی طرف سے سستے بازار، سہولت بازار بھی ایسی ہی بے قیمت ہو جانے والے غریبوں اور سفید پوشوں کے لیے کھولے جاتے ہیں جہاں کم قیمتوں کا ڈرامہ رچا کر عام آدمی کی بے بسی کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ کم قیمت پر بیچی جانے والی اشیاء غیر معیاری اور مضر صحت ہوتی ہیں۔ آٹے کے سستے تھیلوں میں کبھی اچھی کوالٹی کا آٹا نہیں ہوتا۔ سستے آٹے کے فریب میں آنے والے غریب خریدار بعد میں دہائیاں دیتے ہیں کہ تھیلے میں سے ایسا آٹا نکلا کہ کھانے کے قابل نہ تھا۔ یہ مفلسوں کے ساتھ مذاق نہیں تو کیا ہے۔ استاد احسان دانش کا شعر یاد آ رہا ہے:
وہ زر کے بل پہ اڑاتے ہیں مفلسوں کا مذاق
خدا بساط سے بڑھ کر نہ دے کمینوں کو
عام آدمی کی بے بسی کا مذاق اڑانے میں جب ریاست شریک ہو جائے تو پھر یہ انتہائی سنگین معاملہ ہو جاتاہے۔ عام آدمی کی بے بسی کا ایک اور منظر دیکھے اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ہزاروں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو ااپنے جائز مطالبوں کے لیے چھ دن سڑکوں پر کھلے آسمان تلے بیٹھنا پڑا۔ پورے چھ دن اور چھ راتیں یہ عام عورتیں سڑک پربیٹھی رہیں۔ پھر کہیں جا کر ان کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہوئے۔ اہل اختیار کی بے حسی آسمان کو چھوٹی ہے۔ چند ہزار تنخواہ پانے والی لیڈی ہیلتھ ورکرز کے تمام مطالبات جائز تھے مگر مسلسل نظر انداز کئے جا رہے تھے۔ کئی بار انہیں احتجاجی دھرنے دینے پڑے ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں بھی لاہور کی سڑکوں پر کئی روز پر محترم خواتین کھلے آسمان تلے بیٹھی رہی تھیں۔ پھر کپتان کی حکومت میں بھی یہ ان کا دوسرا احتجاجی دھرنا ہے۔ اس سے پہلے ایک دھرنا لاہور میں ہو چکا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ وزیر صحت کا رویہ ان کے ساتھ بہت تضحیک آمیز تھا۔ خاتون ہو کر اور پھر خود ایک گائناکالوجسٹ ڈاکٹر ہو کر صحت کے نظام میں لیڈی ہیلتھ ورکر کی اہمیت کو نہ سمجھنا اور ان کو عزت نہ دینا بہت افسوسناک تھا۔ ڈاکٹر یاسمین راشد ان چند سیاستدانوں میں سے تھیں جن سے مجھے بہت امید تھی کہ یہ اپنی وزارت میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کریں گی۔ لیکن یہاں خواب، عذاب ہونے اور امیدیں ٹوٹنے کے لیے ہوتی ہیں۔
چھ دن کے دھرنے کے بعد اور پارلیمنٹ پر دھاوا بولنے کی دھمکیوں کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔ انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ آپ کے مطالبات مان لیے جائیں گے۔ اس سے یہی پیغام ملتا ہے کہ وہ جائز کام جو متعلقہ شعبے کے اصول و ضوابط کے تحت ہو جانے چاہئیں ان کے لیے آپ کو سڑکوں پر آنا پڑے گا۔ احتجاجی دھرنے دینے پڑیں گے۔ پارلیمنٹ ہائوس کے اندر گھسنے کی دھمکیاں دینی پڑیں گی۔
اہل اقتدار و اہل اختیار کی بے حسی آسمان کو چھوٹی ہے یہاں تو نابینا افراد کو بھی اپنے مطالبات کے لیے دھرنا دینا پڑا تھا اوران پر پنجاب پولیس نے لاٹھی چارج کر کے ثابت کیا تھا کہ اہل اختیار کبھی نرم دل، حساس اور معاملہ فہم نہیں ہو سکتا۔ کم از کم ہماری تاریخ تو یہی کہتی ہے۔
حفیظ سنٹر پر لگنے والی ہولناک آگ نے کتنے گھروں کے چولہے بجھائے۔ ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا اور شاید کبھی بھی کچھ نہ کہا جا سکے کہ ہمارے ہاں اعداد و شمار میں حادثوں اور سانحوں کو بیان کرنے کا چلن ہے جبکہ ظاہری طور پر وقوع پذیر ہونے والا ایک سانحہ نہ جانے اپنے آفٹر شاکس میں کتنے اور حادثے پوشیدہ کئے ہوتا ہے۔ حفیظ سنٹر پوری ایک دنیا تھی۔ کروڑوں کا کاروبار کرنے والے بھی تھے اور اس پلازہ میں سینکڑوں لوگ دیہاڑی دار کی مزدوری سے بھی وابستہ تھے۔ صد شکر کہ جانی نقصان نہیں ہوا مگر مالی بے شمار ہوا۔ نقصان کا تخمینہ کون لگائے گا؟ بڑے بڑے کاروباری، تاجر، جلتے ہوئے حفیظ سنٹٹر میں اپنی جمع پونجی راکھ ہوتے دیکھ کر روتے رہے۔ ایسے میں حفیظ سنٹر سے البتہ چھوٹے دکانداروں اور دیہاڑی داروں کی حالت کیا ہوگی۔
آگ کیسے لگی۔ گھنٹوں آگ کے شعلے، منہ کھولے ہوئے اژدھوں کی طرح چاروں طرف پھیلتے رہے۔ آگ بھڑکتی رہی لیکن آگ بجھانے کے لیے ریسکیو کی ٹیمیں دیر سے کیوں پہنچیں۔ پھر آگ کو بجھانے کے لیے ان کے پاس مناسب انتظام اور آپریٹیس نہیں تھا جس کی وجہ سے پورا پلازہ جل کر راکھ ہوا۔ اس سانحے کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ متاثرہ افراد کے مالی تعاون کے لیے بھی حکومت کو کچھ کرنا چاہیے۔
عام آدمی مشکل میں ہے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ سہولت بازاروں سے بھی عام آدمی کو کوئی ریلیف نہیں ملنے والا۔